حکومت پر سیاسی حلقوں کی طرف سے
طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کرنے کے لیے دبائو بڑھ گیا ہے، پیپلز پارٹی کی
قیادت نے طے شدہ پالیسی کے تحت موجودہ حکومت پر شر پسندوں کے خلاف کارروائی
کرنے کا دبائو ڈال رکھا ہے، رہی سہی کسر ایم کیوایم نے فوجی آپریشن کے لیے
کراچی میں بڑی ریلی نکال کر پوری کردی، ایم کیو ایم نے عظیم الشان ریلی
نکال کر ملک کی مسلح افواج سے اظہار یکجہتی کا اظہار کیا اور محب وطن ہونے
کا عملی ثبوت دیا، وحدت المسلمین پی پی پی ن لیگ سمیت دیگر جماعتوں نے ریلی
میں شرکت کرکے مسلح افواج سے اظہار یکجہتی کا اظہار کیا اور محب وطن ہونے
کا عملی ثبوت دیا، جن سیاسی جماعتوں نے حکومت کو طالبان کے ساتھ مزاکرات کی
میز سجانے کی حمایت کی تھی، انہوں نے بھی بدلتی صورتحال میں طالبان سے
مزاکرات کی حمایت واپس لے لی ہے، اور حکومت کو کھلم کھلا فوجی آپریشن پر
مجبور کردیا ہے-
اب وزیراعظم نواز شریف اور وفاقی وزیر داخلا چودھری نثار کا امتحان ہے کیوں
کہ وہ خود کو ایسی دلدل میں نہیں پھنسانا چاہتے، جس سے انکے لیے نکلنا مشکل
ہوگا، وزیراعظم نواز شریف نے ان شرپسندوں کے خلاف جوابی کارروائی کی محدود
فضائی حملوں کی اجازت دی ہے، لیکن وہ حالت جنگ میں امن کو ایک موقع اور
دینا چاہتے ہیں، لیکن انکو اس بحران سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی-
عسکری حلقے بھی سرکش طالبان سے آہنی ہاتھ سے نمٹنا چاہتے ہیں، اور پوری قوم
مسلح افواج کے شانہ بشانہ ساتھ ہیں، وزیراعظم ایک بار پھر آپریشن کا فیصلہ
موخر کرچکے ہیں، لیکن وہ مارچ 2014ء کے اوائل میں طالبان کے خلاف فیصلہ کن
آپریشن کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
حکومتی حلقوں میں اس خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے کہ فوجی آپریشن کی صورت
میں اسلام آباد لاہور سمیت دیگر شہروں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے، جو لوگ اس
خدشے کا اظہار کررہے ہیں، وہ یہ بتائیں کہ چند روز قبل جب طالبان اور
حکومتی کمیٹیوں میں مزاکرات بات چیت چل رہی تھی تو اس دوران یہ شر پسند
لوگ کیا امن سے بیٹھے ہوئے تھے مسلسل اپنی شر پسندی جاری کیے ہوئے تھے، اور
معصوم لوگوں اور سکیورٹی فورسز کے جوانوں کا قتل کھلے عام جاری و ساری رہا-
اب حکومت اور طالبانی مزاکراتی کمیٹیوں کے درمیان ٹیلیفون کی سطح پر رابطہ
منقطع ہونے سے جہاں طالبان کی کمیٹی کے ارکان میں تشویش پائی جاتی ہے،وہاں
جماعت اسلامی کے امیر منور حسن بھی خوف کا شکار اور تشویش میں ممتبلا ہیں،
انہوں نے نوازشریف کی مشکلات کا ذکر کیا اور اب تک کے انکے طرز عمل کو
سراہا ہے-
اب عسکری قیادت امن کے لیے مزاکرات کو مزید موقع نہیں دینا چاہتی، اور وہ
پوری قوت سے طالبان کی شورش کو کچلنے کے آپشن استعمال کرنا چاہتی ہے، اور
مارچ میں فوجی آپریشن مکمل کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے-
تاہم وزیر اعظم اور وزیر داخلہ چودھری نثار آپریشن کو مسلسل موخر کررہے
ہیں، پر اب انہیں سیاسی اور عسکری قوتوں کی جانب سے آپریشن کا مطالبہ قبول
کرنا پڑے گا طالبان کی شریعت کل بھی نہ منظور تھی اور آج بھی نا منظور ہیں
اب وقت کا تقاضا ہے کہ ان شرپسندوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے،
اسلام کی بنیاد پہ یہ ملک بنا ہے،
اسلام ہی اس ملک کی بنیاد و بقاء ہے
بنیاد پہ قائم نہ رہے گا تو فنا ہے،
دنیا کی نگاہوں سے کب بات یہ مستور،
میرا قرآن ہے،،، میرا دستور |