عمر بن ہشام معززین مکہ کا ایک اہم سردار تھا شخصی اعتبار
سے وہ اپنے ہمعصروں کے مقابلے میں علم و فن میں یکتا اور تدبر میں بیمثال
اور اپنی اسی خوبی کی بنا پر وہ اہل مکہ میں ابوالحکم کے نام سے معروف ہوا
، اہل مکہ میں سے کوئی شخص بھی علم و دانش ، حکمت و تدبر اور معاملہ فہمی
میں اسکی ہمسری کا دعویدار نہیں تھااپنے فہم و فراست اور صائب الرائے ہونے
کی وجہ سے مکہ کی اشرافیہ کی مجلس شوریٰ میں اسکی رسائی محض تیس برس کی عمر
میں ہو گئی جبکہ مروجہ رسوم و رواج اور معاشرتی قانون کے مطابق چالیس برس
سے کم عمر کا کوئی شخص بھی مجلس شوریٰ میں شرکت کا اہل نہ تھالیکن یہ
ابوالحکم کی حکمت و دانش ہی تھی کہ اہل مکہ اپنے تمام اہم معاملات میں اسکی
رائے کو نہ صرف تسلیم کرتے بلکہ اسکو اپنا سردار بھی مانتے لیکن ان تمام
خوبیوں اور علم و دانش کے باوجود ابوالحکم میں ایک خامی رہ گئی جس کو وہ
مشیت ایزدی سے سنوار نہ سکا اور یہی خامی نہ صرف اس کی ذات کے خاتمے کا سبب
بنی بلکہ دنیا وآخرت میں اسکی قسمت کا جنازہ بھی نکل گیا، ابوالحکم کی اس
خامی کو اہل دانش ’’جہالت‘‘ کا نام دیتے ہیں یعنی اس کے پاس ظاہری طور پر
علم تو تھا مگر سمجھ سے بے بہرہ، فہم تھا لیکن فراست مفقود، عقل تھی مگر
سوچنے کی صلاحیت عنقا، حکمت تھی مگر تدبر سے مبرا ، اور اس ایک خامی نے اس
کو اسلام کے آفاقی پیغام کوسمجھنے نہ دیا اور یوں سردار مکہ عمر بن ہشام
المعروف ابوالحکم تاریخ کے اوراق میں ’’ابو جہل‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ ابو
جہل کی زندگی پر نظر ڈالیں تو دو باتیں پتہ چلتی ہیں ایک تو یہ کہ محض علم
کا نہ ہونا جہالت نہیں بلکہ علم ہونا اور اسکو نہ سمجھنا جہالت ہے ، عقل کا
ہونا اور اسکو استعمال نہ کرنا جہالت ہے، فہم و فراست کا ہونا اور تدبر سے
کام نہ لینا جہالت ہے اور دوسری بات یہ پتہ چلتی ہے کہ ’’ابوجہل‘‘ کسی شخص
کا نام نہیں بلکہ ایک کردار کا نام ہے (کیونکہ شخصی اعتبار سے تو وہ
ابوالحکم تھا) اور یہ کردار کسی نہ کسی شکل میں دنیا کے ہر مقام ، ہر
معاشرے اور ہر طبقے میں موجود ہے کیونکہ کوئی بھی کردار فنا نہیں ہوتا بلکہ
اپنے جیسی کسی اگلی نسل میں منتقل ہوجاتا ہے چاہے وہ ابوجہل ہو یا ہمارے
حکمرانوں کی شکل میں فرعون کا نیا جنم، ابوجہل کا کردار ملت اسلامیہ کے ہر
دور میں موجود رہا ہے کبھی عبداللہ بن سبا کی صورت میں تو کبھی عبداللہ بن
ابی کی شکل میں، کبھی قاتلین عثمانؓ کی صورت میں تو کبھی اہل خوارج کے روپ
میں ، کبھی حسن بن صباح کے لباس میں تو کبھی معتزلہ علماء کی عبا میں ابو
جہل اور اسکے مکروہ پیروکار ہر دور میں اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ملت اسلامیہ
کی فصیل میں نقب لگاتے رہے ہیں اور تا قیامت یہ لعنتی اپنی سازشوں سے باز
نہیں آئیں گے کیونکہ قوم و ملت کا خون چوسنا ان کا شوق اور انسانی زندگیاں
ان کی خوراک ہے۔ کسی بھی شخص میں ابوجہل کی روح اس وقت پروان چڑھتی ہے جب
اسکا محدود عمل کھوپڑی کے پیالے میں سمانے سے انکار کر دے اور باہر چھلک
چھلک کر اس کے خدوخال کو برباد کرنا شروع کردے ایسی صورت میں اپنی دانست
میں عالم بنا بیٹھا جاہل خود کو علم کل اور عقل کل اور انسانیت کی معراج
سمجھ لیتا اور بس یہی وہ مقام عبرت ہے جہاں خود ساختہ ’’عالم‘‘ کے بھیس میں
ایک ابوجہل کا ظہور ہوتا ہے اور پھر وہ بغیر سوچے سمجھے کبھی ہزاروں بے
گناہوں کے قاتلوں کو ’’مجاہد‘‘ اور ان کے مرداروں کو ’’شہید‘‘ قرار دیتا ہے
تو کبھی یزید جیسے شخص کو سردار نوجوانان جنت نواسہ رسولﷺ حضرت حسینؓ کے
برابر کا درجہ دے دیتا ہے، کبھی ایسا ہی کوئی دوسرا نابغہ دشمن کے مقابلے
میں مرنے والے کتے کو ’’شہادت‘‘ کے درجے پر فائز کرنا احسن جانتا ہے۔ صرف
یہی نہیں بلکہ ان کے علاوہ بھی بہت سے نام نہاد عالم ہیں جو درج بالا
خصوصیات کے حامل ہیں اور اپنے علم کو بنیاد بنا کر وہ ملک و قوم کی بنیادوں
کو ہلانے میں ہمہ تن مصروف ہیں، اسی طرح کے گروہ کے روح رواں ایک اور عالم
ہیں جو کسی دور میں اپنے برقعے کی وجہ سے بڑے مشہور ہوئے آجکل ہر جگہ ہاتھ
میں قرآن کریم تھامے پریس کانفرنسوں کا انعقاد کرتے نظر آتے ہیں اور آئین
نہیں قرآن کا نعرہ لگا لگا کر قرون اولیٰ کے اہل خوارج کی یاد تازہ کرتے
ہیں۔ موصوف کی ضد ہے کہ ملک میں شریعت کا نفاذ کیا جائے لیکن اپنی ذات کو
وہ استثنیٰ دیتے ہیں، اپنی تمام بے ربط گفتگو میں اہل خوارج کی مانند اپنے
مطلب کی آیات اور احادیث کا حوالہ دینا اور آفاقی احکام کا اپنی پسند کے
مطابق تشریح کرنا ہی شاید انکا پیشہ اور شوق ہے ، ان کے خیال میں شریعت کے
نفاذ کا مطلب صرف چور کا ہاتھ کاٹ دینا اور زانی کو سنگسار کر دینا ہی ہے،
لیکن ان کو یہ معلوم نہیں کہ چور کا ہاتھ کاٹنے سے پہلے ریاست پر لازم ہے
کہ ایسا ماحول اور روزگار کے وسائل مہیا کئے جائیں کہ چوری کرنے کا سوچنا
بھی محال ہو، زانی کو سنگسار کرنے سے پہلے ایسا انتظام کیا جائے کہ معاشرے
میں اس قسم کے قبیح فعل کا امکان ہی نہ رہے۔ شریعت کے نفاذ سے کوئی زی ہوش
مسلمان انکار نہیں کر سکتا لیکن اس سے پہلے تربیت کی ضرورت ہے، ریاست کی
مضبوطی کی ضرورت ہے کہ کمزور ریاست تو اپنی رٹ قائم نہیں کر سکتی شریعت
کہاں سے نافذ کرے گی، اور اسی بات کو بہانہ بنا کر وہ خلافت کا پرچم اٹھائے
ہوئے ہیں اور جانتے ہیں کہ خلافت ہی مسلمانوں اور پاکستان کے تمام مسائل کا
حل ہے لیکن ان کو اتنا معلوم نہیں کہ جب حضرت امیر معاویہؓ جیسے جلیل القدر
صحابی خلافت کی حفاظت نہ کر سکے اور خلافت بادشاہت میں بدل گئی تو ان کی
اور ان کے گروہ کی جانب سے نامزد خلیفۃالمسلین کی کیا اوقات ہے، موصوف اپنے
شاگرد قسم کے شدت پسندوں کی انسانیت کے خلاف تمام جرائم سے مکمل معافی کے
داعی ہیں اورمعاہدہ حدیبیہ کی مثال دیتے نہیں تھکتے لیکن ساتھ ساتھ ان کو
شاید یہ پتہ نہیں کہ معاہدہ حدیبیہ سے پہلے میثاق مدینہ بھی تھا اور اس پر
بھی عمل لازمی ہے۔ ان کے علم کی انتہا یہ ہے کہ ایک نیوز چینل پر آئین
پاکستان کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے اپنے غیر منطقی دلائل میں مختلف قوانین
کا حوالہ دے رہے تھے اور جہالت کی معراج یہ ہے کہ ان کو آئین اور قانون کے
فرق کا پتہ نہیں، بڑے جذباتی انداز میں انہوں نے فرمایا کہ کنٹریکٹ ایکٹ
اور سیلز آف گڈز ایکٹ غیر شرعی ہیں اور انگریز کے بنائے ہوئے ہیں اور وہ
انگریز کے بنائے ہوئے قانون کو نہیں مانتے، اب اس کو جہالت نہ کہا جائے تو
کیا کہا جائے کہ ان کو ان دونوں قوانین کی الف بے بھی معلوم نہیں اگر ان کو
انگریزی زبان سے واقفیت ہوتی یا قانون کو سمجھ سکتے تو ان کو پتہ چلتا کہ
کنٹریکٹ ایکٹ میں کچھ ایسا نہیں جو کتاب و سنت سے متصادم ہوبلکہ یہ قانون
تو ایفائے عہد پر مبنی ہے جو عین ہمارے دین کا درس ہے، سیلز آف گڈز ایکٹ
کوپڑھ کر کوئی ان کو سمجھائے کہ میاں یہ بیع و شعراء کے لئے ایک رہنما اصول
ہے اور یہ نہ شریعت سے متصادم ہے نہ بخاری شریف کی کتاب التجارۃ کے اسلوب و
نصوص کے منافی۔ اگر ان کی اس غیر منطقی دلیل کو مان بھی لیا جائے کہ انگریز
کے بنائے ہوئے معاملات غیر شرعی ہیں تو جناب جس لاوڈاسپیکر پر اپنا گلہ اور
لوگوں کے کان پھاڑتے ہیں وہ ان کے دادا جی کی ایجاد نہیں وہ بھی ’’کافر‘‘
کی محنت کا ثمر ہے، جن ادویات کے اثر سے یہ آج تک عوام کے سینے پر مونگ دل
رہے ہیں وہ بھی یہود کی ایجاد ہے ’’ حفصہ یونیورسٹی آف سانئس اینڈ
ٹیکنالوجی‘‘ میں نہیں بنتی، جس گاڑی میں یہ داد عیش دیتے ہیں وہ بھی کافروں
کی محنت ہے ’’ٹی ٹی پی موٹر کمپنی‘‘ کی تیار کردہ نہیں،جس پرنٹنگ پریس پر
انکا نفرت انگیز لٹریچر چھپتا ہے اس کے خلاف توپانچ سوسال پہلے ہی ان کے جد
امجد خلافت عثمانیہ کے مفتی اعظم فتویٰ دے کر امت کو ناقابل تلافی نقصان
پہنچاچکے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ اس طرح کے ناسور صرف عوام دشمن نہیں بلکہ علم
دشمن بھی ہیں اور ان کو نجانے کیوں امت مسلمہ سے اسقدر بیر ہے کہ کسی طور
پر اسکو ترقی کرتا دیکھنا نہیں چاہتے ، خود کے علاوہ یہ منحوس کسی دوسرے کو
مسلمان کیوں نہیں سمجھتے، جب دنیا کی نظر مریخ تک جا پہنچی ہے یہ اپنی ہی
ناک سے آگے کیوں نہیں دیکھ پاتے، شاید اس لئے کہ یہ ڈرتے ہیں کے اگرلوگ بھی
علم سیکھ لیں تو ان کی دکان کیسے چلے گی، اگر امت نے ترقی کی راہ پکڑ لی تو
’’آبپارہ‘‘ کے دارالعلوم کا کیا مستقبل ہوگا۔ کوئی تو ہو جو ان کو بتائے کہ
علم اور عقل میں عمر بن ہشام ان سے کہیں بہتر تھا ، حکمت و تدبر میں یہ
ابوالحکم سے آگے نہیں ، لیکن جب علم سمجھ سے بے بہرہ ہوجائے، فہم میں فراست
مفقود ہو، عقل تو ہو مگر سوچنے کی صلاحیت عنقا ہو جائے، حکمت تدبر سے مبرا
ہو تو بڑے سے بڑا عالم بھی عالم نہیں رہتا ابوجہل ٹھہرتا ہے۔ |