بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کے الزام میں انڈیا کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے
کیلئے افضل گورو کو پھانسی کا حکم دینے والی بھارتی سپریم کورٹ نے سابق
وزیر اعظم راجیو گاندھی کے تین قاتلوں کی سزائے موت یہ کہتے ہوئے عمر قید
میں تبدیل کر دی ہے کہ واردات کو23سال بیت گئے لیکن انہیں سزائے موت دینے
میں تاخیر سے کام لیا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ آف انڈیاکے چیف جسٹس پی ستیہ
شوم کی سربراہی میں عدالت نے فیصلہ سنایاکہ چونکہ یکے بعد دیگرے بر سر
اقتدار آنے والے صدر نے ان کی سزائے موت کے خلاف اپیل پر کوئی فیصلہ نہیں
دیا جبکہ ان تینوں مجرموں کی سزائے موت کے خلاف اپیلیں 11سال پہلے ہی
راشٹرپتی بھون پہنچ چکی ہیں۔ لہٰذا عدالت ان کی سزائے موت کو عمر قید میں
تبدیل کر رہی ہے۔ ستیہ شوم نے عدالت میں فیصلہ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ
عدالت حکومت کو مشورہ دیتی ہے کہ وہ سزائے موت کے خلاف رحم کی اپیل نمٹانے
کے لیے ایک مقررہ مدت طے کرے۔کال کوٹھری میں پھانسی کے دن گن رہے ان تینوں
مجرموں نے گذشتہ دنوں 15مجرموں کی سزائے موت کو عمر قید میں بدلے جانے کے
بعد اپنی سزائے موت کو عمر قید میں بدلنے کے لیے اسی بنیاد پر اپیل کی تھی
کہ ان کی بھی رحم کی استدعا پر 11سال گذر جانے کے باوجود کوئی فیصلہ نہیں
کیا گیا۔ ایک خاتون خودکش بمبار کے ذریعہ21مئی1991کو راجیو گاندھی کو ہلاک
کرنے کے جرم واحد نام سے پکارے جانے والے تینوں مجرموں موروگن، سنتھن اور
پیرا ویلین کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔حریت کانفرنس مقبوضہ کشمیر کے دونوں
دھڑوں سمیت مختلف کشمیری جماعتوں کے قائدین نے بھارتی عدلیہ پر سخت تنقید
کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ آف انڈیا کے حالیہ فیصلہ کے بعدیہ بات پوری
دنیا پر کھل کر واضح ہو گئی ہے کہ کشمیریوں کے معاملے میں ہندوستان کی
جوڈیشری کے فیصلے قومی مفادات اور دیگر وجوہات کی بناء پر لئے جاتے
ہیں۔ہندستان کے عدالتی نظام پر آج ضمیر سے اٹھنے والی ہر آواز نے سوال
اٹھایا ہے کہ کشمیر اور کشمیری عوام کے ساتھ الگ پالیسی اور قانون کیوں
ہے؟۔ حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین سید علی گیلانی نے کہاکہ ایک کے بعد ایک
فیصلے سامنے آنے کے بعد یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ ہندوستان سے کشمیریوں کو
کسی معاملے میں انصاف کی امید نہیں رکھنی چاہئے۔ محمد افضل گورو کو ناکافی
ثبوت و شواہد کے باوجود تختہ دار پر لٹکایا گیا اور حد تو یہ ہے کہ پھانسی
دیتے وقت اہل خانہ تک کو بے خبر رکھا گیا۔حریت کانفرنس (ع) کے سربراہ میر
واعظ عمر فاروق نے کہاکہ بھارت کی جمہوریت میں بے گناہ کشمیریوں کو تختہ
دار پر لٹکانا وطن پرستی ہے؟۔ ہم پہلے ہی کہتے آئے ہیں کہ افضل گورو کو
سزائے موت دینا ایک سیاسی فیصلہ تھا جو آج ثابت ہوگیا۔ سپریم کورٹ آٖ
انڈیانے بھارتی عوام کے اجتماعی جذبات کی تشفی کو بنیاد بنا کر محمد افضل
گورو کی پھانسی کی سزا کو صحیح قرار دیا اور اس وقت کشمیریوں کے جذبات کی
کوئی فکر نہیں کی گئی۔ ہندوستان کی جوڈیشری کے کشمیر مخالف فیصلے اقوام
عالم کیلئے چشم کشاہیں اور عالمی برادری کو اس بات کا احساس کرنا چاہئے کہ
ہندوستان نے جمہوریت اور جوڈیشری کے نام پر بھی کشمیریوں کے ساتھ نا انصافی
کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ افضل گورو کی پھانسی پر مہر ثبت کر کے نہ صرف یہ
کہ انصاف کا خون کیا گیا بلکہ اس کشمیری کو اس بناء پر تختہ دار پر لٹکایا
گیا تاکہ کشمیریوں کو خوفزدہ کر کے رواں تحریک کو دبانے کی ایک اور ناکام
کوشش کی جا سکے۔ ہندوستان کی عدالتوں میں جب کسی کشمیری سے جڑا کیس آجاتا
ہے تو اس کا فیصلہ پہلے ہی طے رکھا جاتا ہے۔ پنجاب اور تامل ناڈو کے
حکمرانوں اور سیاستدانوں نے متحد ہو کر اپنے شہریوں کو بچانے کی سرتوڑ کوشش
کی لیکن جموں کشمیر کے حکمرانوں نے ہندوستان کو اپنے شہریوں کو پھانسی دینے
کا وقت تعین کرنے میں مشورہ دیا۔ یہ طے بات ہے کہ کشمیر کے بارے میں بھارت
کا معیار مختلف ہے لیکن آج اس فیصلہ کے بعد یہ بھی عیاں ہو گیا کہ بھارتی
عدلیہ بھی کشمیر کو قانون کی عینک سے نہیں بلکہ سیاست کے چشمہ سے دیکھتی
ہے۔ اس فیصلہ سے بھارت کی عوام کو شاید سمجھ میں آیا ہو گا کہ بھارت کا
عدالتی نظام بھی سیاست کی دست برد سے محفوظ نہیں ہے۔بھارت میں تہاڑ جیل کی
انتظامیہ نے کشمیری قیدیوں سے ان کے اہل خانہ کے ساتھ ملاقات کروانے سے
انکار کر دیا۔ گذشتہ روز 900کلومیٹر کا سفر طے کرکے جاوید احمد خاں نامی
سری نگر کے رہائشی تہاڑ جیل پہنچے مگر نہ تو انہیں ملاقات کرنے کی اجازت دی
گئی بلکہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ پلاکر وہاں سے زبردستی نکال دیا گیا۔ جیل قوانین
کے مطابق کسی بھی قیدی کے اہل خانہ کو ملاقات سے نہیں روکا جاسکتا تاہم
بھارتی جیلوں میں قید کشمیری و بھارتی مسلمانوں سے انتہائی توہین آمیز سلوک
کیاجارہا ہے۔ حریت کانفرنس (گ) مقبوضہ کشمیر کے چیئرمین سید علی گیلانی اور
جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ محمد یٰسین ملک نے تہاڑ جیل میں سری
نگرکے جاوید احمد خاں کے والدین کو ان سے ملاقات کی اجازت نہ دینے پر شدید
ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے اسے غیر قانونی اور جمہوری تقاضوں کے منافی قرار
دیا ہے اور کہا ہے کہ بھارتی جیلوں خاص کر تہاڑ جیل میں محبوس کشمیری
قیدیوں کو جیل کے اندر بھی سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور حراستی
تشدد کئے جانے کے علاوہ انہیں ہر ممکن طریقے سے ہراساں اور پریشان کیا جاتا
ہے۔ بھارتی جیلیں کشمیری نظربندوں کے لئے گوانتاناموبے اور ابوغریب ثابت
ہورہے ہیں اور یہ ملک قیدیوں کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین اور بنیادی
انسانی حقوق کا کوئی احترام نہیں کررہا ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، عالمی ریڈکراس
کمیٹی(ICRC)اور حقوق انسانی کے دوسرے عالمی ادارے کشمیری قیدیوں کے ساتھ
ہونے والے غیر انسانی سلوک کو رکوانے میں کوئی موثر رول ادا کرنے میں
کامیاب نہیں ہوئے اور جیل حکام کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر آج تک مجبور
نہیں کیا جاسکا ۔ تہاڑ جیل اور آر تھر روڈ جیل میں ڈیڑھ سو سے زائد مسلمان
قیدیوں نے جیل حکام کی طرف سے انسانیت سوز مظالم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے
بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے۔ بھوک ہڑتال کرنے والے قیدیوں کا کہنا ہے کہ جیل
حکام نے ان کے گھروں سے آنے والے کھانوں اور دیگر سازوسامان کو ان تک
پہنچانے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ اسی طرح قیدیوں کے اہل خانہ سے ملاقاتوں پر
بھی غیر اعلانیہ پابندی عائد کر دی گئی ہے۔مسلم قیدیوں نے جیل حکام کے
مظالم کے حوالہ سے چیف جسٹس آف انڈیا اور دیگر مرکزی حکام کو بھی تحریری
شکایات بھیجی ہیں تاہم ابھی تک اس سلسلہ میں کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ دہشت
گردی کے مقدمات میں بے گناہ پھنسائے گئے مسلمانوں کے مقدمات کی پیروی کرنے
والے انڈیاکے نامور ایڈووکیٹ محمود پراچہ اور پٹھان تہور خاں ایڈووکیٹ نے
تہاڑ جیل کا دورہ کرنے کے بعد بتایا کہ اس وقت 165قیدی ہیں جو تین دن سے
بھوک ہڑتال پر ہیں اور وہ جیل حکام کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کے
خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ قیدیوں کو ان کے اہل خانہ سے ہفتہ میں دو دن
ملاقات کی اجازت ہے تاہم پہلے اس ملاقات کو ہفتہ میں ایک مرتبہ کیا گیا مگر
اب اس پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ جمعیت علماء مہاراشٹر کے مرکزی رہنما
مولانا ندیم صدیقی کا کہنا ہے کہ یہ تمام پابندیاں صرف دہشت گردی کے بے
بنیاد مقدمات میں جیلوں میں قید مسلم نوجوانوں کو ہراساں و پریشان کرنے
کیلئے لگائی گئی ہیں۔اور ایسا صرف تہاڑ جیل ہی نہیں بلکہ بھارت کی دوسری
جیلوں میں بھی ایسے ہی مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔جمعیت علماء مہاراشٹر نے من
گھڑت کہانیوں میں مسلم نوجوانوں کو پھنسانے کے خلاف سخت احتجاج کیا ہے اور
جیلوں میں مسلمانوں کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ |