باسمہ تعالیٰ
سیاست کے کھیل بھی بڑے عجیب وغریب ہیں،یہاں ہرپل کچھ نہ کچھ کھچڑی پکتی
رہتی ہے،یہ ایک ایسی دنیاہے جہاں کچھ بھی غیرمتوقع نہیں ہے،اس دنیامیں سب
کچھ ممکن ہے،سوائے ایمانداری اوروفاداری کے،کیوں کہ اس دنیامیں ایمانداری
اوروفاداری دوایسے الفاظ ہیں جسے انہوں نے اپنی ڈکشنری سے یکسرخارج کردیاہے
اوران الفاظ کے استعمال کرنے والوں کی اس دنیامیں کوئی وقعت نہیں ہے،یہاں
اگرکوئی سکہ رائج الوقت ہے تووہ ہے،ابن الوقتی،موقع پرستی،مفادپرستی
اوربدعنوانی ۔کیوں کہ سیاست کے ٹیکسال میں صرف ان ہی سکوں کی قدروقیمت ہے
اورانہی لوگوں کی چاندی ہے جوان سکوں کااستعمال بکثرت اوربرمحل کرتے رہتے
ہیں۔یوں تواس دنیامیں ان سکوں کے استعمال کرنے والوں کوشمارکرناسرکے بالوں
کوشمارکرنے کے مترادف ہے البتہ ایسے لوگ جوان سکوں کے استعمال کرنے میں
مہارت نہیں رکھتے یاوہ وہی گھسے پٹے الفاظ ایمانداری اوروفاداری کے بندھنوں
میں اپنے آپ کوباندھے رکھناچاہتے ہیں ان کاشماربالکل ایسے ہی آسان ہے جس
طرح سرکے بالوں سے سفیدبالوں کا۔یہاں ہمیشہ ہرپل اس طرح کے کوئی نہ کوئی
واقعات دل پذیررونماہوتے رہتے ہیں،کبھی خبرآتی ہے کہ فلاں لیڈرنے اپنی
پارٹی قیادت سے ناراض ہوکراستعفیٰ دیدیا،اورفلاں پارٹی میں شامل ہوگئے،کبھی
کسی ایک پارٹی کامحاذسے الگ ہوناوغیرہ وغیرہ،اورسچ مانیں تویہ تمام واقعات
سیاست کی دنیامیں بالکل ہی متوقع ہیں،ہروہ شخص جوسیاست کی الف با سے واقف
ہے وہ اس بات کوبآسانی اوربخوبی سمجھ سکتاہے،اسے سمجھانے کے لیے کسی تشریح
کی ـضرورت نہیں ہے۔میں تویہاں تک کہتاہوں کہ اگرکبھی یہ خبرآجائے کہ آج
سونیاگاندھی نے کانگریس سے استعفیٰ دے کربی جے پی میں شامل ہوگئیں اورمودی
کانگریس کے پی ایم امیدوارہوگئے توبخداکہتاہوں کہ اس خبرکوسن کربھی ذرہ
برابرحیرت نہیں ہوگی۔
حالیہ دنوں میں ایسی ہی دوبڑی خبریں ہندوستانی سیاست میں بحث کاموضوع بنی
ہیں،ان میں سے ایک خبرتولالوپرسادیادوکی پارٹی کے 13ممبران اسمبلی کا پارٹی
سے ناطہ توڑناہے،اوردوسری خبررام ولاس پاسوان کابی جے پی سے اتحادکرنے کی
کوشش کرناہے۔رہی بات لالوجی کے ممبران اسمبلی کاالگ ہوناتو شایدابھی لالوجی
کے ستارے گردش میں ہیں اوران کے جیوتش بھی انہیں ٹھیک ڈھنگ سے نہیں
بتاپارہے ہیں کہ ان منگل گرہ پہ شنی مہاراج کب تک براجمان رہیں گے؟اوریہی
وجہ ہے کہ وہ اپنے منگل گرہ سے شنی مہاراج کوبھگانے کے لیے مستقل
طورپرسونیاراہل جی کامالاجپ رہے ہیں کہ شایداس طرح ان کے ستارے گردش سے نکل
آئیں،لیکن ابھی اس کے بارے میں کچھ کہناقبل ازوقت ہوگاویسے جس اندازسے شنی
مہاراج نے ان کوچکرویومیں پھنسایاہے کہ اس سے ان کانکل پاناناممکن نہیں
تومشکل ضرورمعلوم ہوتاہے۔خیراس وقت ہماری گفتگوکاموضوع ریاست بہارکی سیاست
کے شنی مہاراج رام ولاس پاسوان جی ہیں،کیوں کہ یہی وہ شنی مہاراج ہیں جن کی
وجہ سے بی جے پی کوبہارمیں پھلنے پھولنے کاموقع ملاتھااگر2005میں انہوں نے
لالواورکانگریس سے تال میل کرکے حکومت بنالیاہوتاتوشایدآج بہارکی سیاست
کانقشہ ہی کچھ اورہوتا۔بہرحال آج کل میڈیامیں ایک خبربڑے زوروشورسے گشت
کررہی ہے کہ رام ولاس پاسوان ایک بارپھرسے مفادپرستی کی سیاست کی راہ پرچل
پڑے ہیں اوراس کے لیے انہوں نے بی جے پی کادروازہ کھٹکھٹایاہے،کہ کل تک جس
مودی کوبہانہ بناکرانہوں نے بی جے پی کوچھوڑاتھاآج ان کاولی عہداسی مودی کے
گن گاتے ہوئے ایک بارپھرسے این ڈی اے میں شمولیت کی فریاد کی ہے،خبرہے کہ
ان کے لائق صاحبزادے اورجانشیں چراغ پاسوان نے بی جے پی کے صدرراج ناتھ
سنگھ سے ایک طویل ملاقات کی ہے جس میں انہوں نے 2014کے لوک سبھاالیکشن کے
تناظرمیں این ڈی اے میں شامل ہونے کی درخواست کی ہے اوران کی پارٹی کے ایک
سینئررکن سورج بھان نے تومیڈیاسے بات کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیاہے کہ
اتحادمیں شامل ہونے بات مکمل ہوچکی ہے بس رسمی اعلان باقی ہے۔
یہ خبرسیکولرطبقہ کے لیے یقیناتشویشناک ہے،کیوں کہ رام ولاس پاسوان کی شبیہ
بظاہرایک سیکولررہنماکی ہے،اوران کے این ڈی اے میں شامل ہونے سے سنگھی
ذہنیت کے لوگوں کوبڑی تقویت ملے گی،حالاں کہ یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ
پاسوان کے شامل ہونے سے فرقہ پرست طاقتوں کوکوئی بہت زیادہ فائدہ تونہیں
ہوگاہاں ان کی برادری کے4.5فیصدلوگوں کاووٹ این ڈی اے کی جھولی میں جاسکتی
ہے،لیکن حالات وواقعات کے مشاہدہ سے ایسانہیں لگتاہے کہ بی جے پی کواس
کاکچھ فائدہ ہوسکے،ہاں یہ فائدہ توہوگاہی کہ سیکولرمحاذمیں سیندھ لگاکراپنی
بغلیں بجاتے پھریں گے جوکہ کسی نہ کسی حدتک یقیناتشویشناک ہے۔حالاں کہ
اگرپاسوان کے ماضی پرنظرڈالی جائے تویہ بات بہت حدتک صاف ہوجاتی ہے کہ
پاسوان کبھی بھی سیکولررہنمانہیں رہے ،انہوں نے ہمیشہ وہی کیاجس میں ان
کاذاتی مفادپوشیدہ تھا،اگروہ سیکولررہنماہوتے توبی جے پی جیسی فرقہ پرست
جماعت کی حکومت میں وزارت کے فائدے نہ اٹھاتے۔ان کی پوری سیاسی زندگی کی
تاریخ اس بات پرگواہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ وطن پرستی کی سیاست کی بجائے
مفادپرستی اورابن الوقتی کی سیاست کوترجیح دی ہے اوریہی وجہ ہے کہ وہ مختلف
دورمیں مختلف محاذوں اورجماعتوں کی حکومتوں میں وزارت کاقلمدان
سنبھالاہے،انہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں پانچ مختلف وزرائے اعظم کے ساتھ
کام کیاہے جس میں اٹل بہاری واجپئی،وی پی سنگھ،دیوی گوڑا،آئی کے گجرال
اورمنموہن سنگھ شامل ہیں۔
۶۷؍سالہ رام ولاس پاسوان تعلیمی اعتبارسے قانون کی اعلیٰ ڈگری کے حامل
ہیں۔سب سے پہلی بارانہوں نے1969 سمیوکتاسوشلسٹ پارٹی کے ٹکٹ اسمبلی
کاانتخاب لڑااورکامیاب ہوئے۔پھرمشہورایمرجنسی مخالف رہنماجئے پرکاش نارائن
اورراج نارائن کی سرپرستی میں 1974میں لوک دل پارٹی کے جنرل سکریٹری بنائے
گئے۔ایمرجنسی مخالف ان دونوں رہنماؤں کے علاوہ کرپوری ٹھاکراورستیندرنارائن
سنہاکی قربت بھی انہیں حاصل تھی۔جب 1975میں ایمرجنسی کانفاذہواپاسوان بھی
ایمرجنسی مخالف تحریک میں شامل ہوگئے اورجیل گئے۔1977میں جب جیل سے رہائی
ملی توجنتاپارٹی میں شامل ہوگئے اوراس کے ٹکٹ پرلوک سبھاکاانتخاب
لڑااورریکارڈووٹوں سے کامیاب ہوئے۔ان کایہ ریکارڈ ورلڈریکارڈکی حیثیت سے آج
بھی گنیزبک آف ورلڈریکارڈمیں درج ہے۔اس کے بعدمسلسل انتخاب لڑے اورجیت درج
کرتے رہے۔1989میں جب وی پی سنگھ کی قیادت میں متحدہ محاذکی حکومت بنی تو اس
میں وزیرمحنت بنائے گئے۔1996میں جب کانگریس کواقتدارسے بے دخل ہوناپڑاتواس
وقت بھی ایک تیسرامحاذسامنے آیااس میں بھی پاسوان نے وزارت کامزہ
اٹھایااتناہی نہیں بلکہ وزیراعظم راجیہ سبھاسے تھے توایوان کالیڈربھی
پاسوان کوہی منتخب کیاگیا۔جب 1998میں بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے
کاوجودہوااوراٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں حکومت کی تشکیل ہوئی تویہاں بھی
پاسوان جی کسی سے پیچھے نہیں رہے اوروزارت ریل جیسے اہم منصب پربراجمان
ہوگئے،پھرانہیں مواصلات کاوزیربنایاگیااورمواصلات سے 2001میں کوئلہ کی
وزارت کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔اسی دوران پاسوان جی نے جنتادل یوسے ناطہ
توڑکراپنی پارٹی لوک جن شکتی کے نام سے 2000میں بنائی،کیوں کہ جب ان سے
ریلوے اورپھرمواصلات جیسی اہم وزارت کی ذمہ داری چھین لی گئی توانہیں
باجپئی حکومت میں اپنی گرتی ساکھ کااحساس ہوااوراسی احساس کے نتیجہ
میں2004کے لوک انتخابات کی تیاری کے پیش نظرانہوں نے اپنی پارٹی کی
بنیادڈالی،جب فروری 2002میں گجرات میں مسلم کش فسادات ہوئے،اس وقت انہیں
اپنے آپ کوسیکولرکہلانے کازریں موقع ہاتھ آگیااوراسی کوبہانہ بناکرانہوں نے
وزارت کی قربانی دیدی،ان کی اس قربانی کوسیکولرطبقہ میں بڑی قدرکی نگاہ سے
دیکھاگیاحالاں کہ یہ کوئی قربانی نہیں تھی بلکہ کوئلہ کی وزارت انہیں راس
نہیں آرہی تھی اسی لیے گجرات فسادات کونشانہ بنایاکہ ایک طرف سیکولرطبقہ کی
ہمدردی بھی حاصل ہوجائے گی اوردوسری طرف سیکولرزم کاظاہری ڈھونگ بھی رچ سکے
گا۔
پاسوان کی ابن الوقتی یہیں ختم نہیں ہوتی ہے،2004 کے عام انتخابات میں
انہوں نے اپنے مفادکے لیے لالواورکانگریس کادامن تھاما،اورٹھیک ایک سال
بعدجب 2005میں بہارمیں ریاستی انتخابات ہوئے اس میں لالوکے کٹرمخالف بن
کرابھرے،ہاں یہ بات ضرورہے کہ اس مخالفت کاانہیں فائدہ بھی ملا،کیوں کہ
بہارکی عوام بھی تبدیلی چاہتی تھی انہوں نے پاسوان کوزبردست ووٹ دیااوران
کے 29ایم ایل اے اسمبلی میں پہونچے،لیکن بدقسمتی سے کسی پارٹی کواکثریت
حاصل نہیں ہوئی تھی،اگراس وقت پاسوان چاہتے تو لالوکوحمایت دے کرحکومت
بنواسکتے تھے،لیکن اس وقت بھی انہوں نے ایک زبردست چال چلی اورایک ایساشوشہ
چھوڑاجس کاکوئی حاصل نہیں تھا،انہوں نے حمایت کے لیے یہ شرط رکھی کہ
جوپارٹی مسلم وزیراعلیٰ دے گی ہم اس کوحمایت دیں گے،کچھ سیدھے سادھے
مسلمانوں نے ان کی اس شرط کوخالص مسلم پریم مانااوران کی نظروں میں وہ راتو
ں رات ہیروبن گئے لیکن جولوگ اس شرط کے مضمرات سے واقف تھے انہوں نے اسے
پاسوان کی گندی اورمفادپرستی کی سیاست سے تعبیرکیا۔پاسوا ن جوکچھ کہتے ہیں
اورجوکچھ کرتے ہیں اس میں اتناواضح فرق ہوتاہے کہ انسان تذبذب میں پڑجاتاہے
کہ آج جوکچھ پاسوان نے کہا ہے کیاجانے وہ کل اس پرقائم بھی رہتے ہیں
یانہیں؟اوریہی کچھ ہوا2009کے عام انتخابات میں کہ کل تک جولالو کی مخالفت
میں سب پربازی لے جاچکے تھے ایک بارپھرمفادپرستی کی سیاست نے انہیں ایک
اسٹیج پرجمع کردیا،اور2009کاالیکشن ساتھ مل کرلڑے،جس میں دونوں کونقصان
اٹھاناپڑا،لالوتوکسی حدتک اپنی عزت بچانے میں کامیاب رہے لیکن پاسوان کاسب
کچھ ختم ہوگیااور۳۳؍سالوں میں پہلی بارشکست کامزہ چکھناپڑا،وہ
توبھلاہولالوجی کاکہ انہوں نے اپنے کوٹے سے انہیں راجیہ سبھامیں
پہونچادیااورآج وہی پاسوان موقع پرستی کی سیاست کاثبوت دے کرسب کوچھوڑکربی
جے پی میں شامل ہورہے ہیں،حالاں کہ کچھ لوگوں کایہ بھی کہناہے کہ کانگریس
اورلالوسے اگرسیٹوں کی تقسیم پرمفاہمت ہوجاتی ہے تو وہ بی جے پی میں نہیں
جائیں گے تویہ خوداس بات کوثابت کرتاہے کہ انہیں ملک کی خدمت عزیزنہیں ہے
بلکہ اپنامفادانہیں سب سے زیادہ پیاراہے۔کل تک پاسوان نے مودی کوفرقہ پرست
کہاتھا،تقریبادس سالوں تک مودی اوربی جے پی کوکوستے رہے،اورآج اسی سے قریب
ہونے جارہے ہیں،تویہ تووقت ہی بتائے گاکہ سیاست کے اس کھیل میں اگرمودی
فرقہ پرست ہے توپاسوان جی!آپ بھی نمبرون موقع پرست ہیں،اورمسلمانوں کے ساتھ
سیکولرطبقہ نے بھی آپ کی ذہنیت اورسیاست کواچھی طرح سمجھ لیاہے بس یوں سمجھ
لیں کہ 2014کاالیکشن شایدآپ کی تابوت میں آخری کیل ثابت ہو؟(بصیرت
فیچرسروس) |