بسم اﷲ الرحمن الرحیم
(24فروری تاریخ پیدائش پر خصوصی تحریر)
اﷲ تعالی نے قرآن مجید میں سورۃ الانعام آیت 11میں کہا ہے کہ’’ان سے کہو
زمین میں چل پھر کر دیکھوکہ جھٹلانے والوں کاکیا انجام ہوا‘‘۔یہ گویا
بامقصد سیروتفریح کا اذن ہے۔انبیاء علیھم السلام کی حیات ہائے مبارکہ میں
بھی کثرت اسفار کا ذکر ملتاہے۔حضرت آدم علیہ السلام نے آسمان سے زمین کا
سفر کیا،حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ایک زمانے تک پانی کے سفر پر رہی
،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عراق سے فلسطین کا اور پھر متعدد بار
حجازمقدس کا سفر کیا،حضرت موسی علیہ السلام کے سفر کے تذکرے تو قرآن مجیدنے
بھی تفصیل سے بیان کیے ہیں اور خاتم الانبیاء محسن انسانیت ﷺکی سیرت طیبہ
کے حالات ہجرت و غزوات کے عنوان سے متعدداسفاربابرکات سے بھری پڑی ہے۔پھر
کل آسمانی کتب کا عقیدہ آخرت بھی ایک لحاظ سے اس دنیاسے اس دنیاکا سفر
آخریں ہے جو ہر نفس پر لازم ہے۔ ہرزندہ قوم جو دنیامیں اپنا وجود قائم
رکھنا چاہتی ہے وہ دنیاکے حالات سے آگاہی چاہتی ہے۔سیاحت زندہ قوموں کے
زندہ افرادکا ہمیشہ سے وطیرہ رہاہے۔سیاحت کے ذریعے معلوم دنیاؤں کا سفر اور
غیرمعلوم دنیاؤں کی دریافت انسان کے ذہن و فکر کی وسعت اورتہذیبی و ثقافتی
اشتراک کاباعث بنتاہے۔ایک ہزارسالہ مسلمانوں کے دور میں بے شمار سیاح
پیداہوئے۔اس زمانے میں حصول تعلیم میں سیاحت ایک طرح سے سند کا درجہ رکھتی
تھی۔
ابن بطوطہ نام کا مسلمانوں کا عظیم سیاح گزراہے۔انکاپورانام عبداﷲ ابن
عبداﷲالمعروف ’’ابن بطوطہ‘‘ہے۔13فروری 1304ء کو مراکش کے ایک چھوٹے
شہر’’نانگیر‘‘میں پیداہوئے۔قرون وسطی کے عالمی تاریخی شہرت کے حامل سیاح
تھے۔انہوں نے ایک مایہ ناز سفرنامہ ’’رحالہ‘‘بھی تصنیف کیا۔اس کتاب میں
75,000میل طویل سفر کی روداد نقل کی ہے۔یہ سفر قافلوں کی شکل میں اور کبھی
کبھی تنہا بھی کرتے رہے۔اس دوران انہوں نے کل اسلامی ممالک دیکھے اور
سمارٹا اور چین کے کچھ علاقوں میں بھی سیاحت کی غرض سے گئے۔ابن بطوطہ ایک
علمی گھرانے کے چشم وچراغ تھے،انکاساراخاندان محکمہ قضا سے متعلق تھا،
مقامی علاقے کے قاضیوں کی اکثریت ابن بطوطہ کے خاندان سے تعلق رکھتی
تھی۔انہوں نے بھی اپنے بچپن اورآغاز شباب میں اسلامی فقہ وقضا کی تعلیم
حاصل کی۔1325ء میں جب ان کی عمر 21برس کی تھی تو فریضہ حج کی ادائگی سے
انہوں نے اپنی سیاحت کاآغاز کیا۔اس دوران انہوں نے مصر،شام اور حجازکے
متعدد شافعی المسلک فقہا سے بھی علم حاصل کیااور اس فقہی مکتب فکر سے متعلق
جید علماء کے دروس میں شریک ہوئے۔اس تعلیمی کاوش کے باعث علم فقہ و قضا میں
انہیں یدطولی حاصل ہوااور وہ کسی بھی عدالت میں منصب قضا کے اہم مقام پر
بیٹھنے کے قابل ہوگئے۔
منصب قضا کے لیے انہوں نے مصر کا انتخاب کا،وہاں پہنچے لیکن سیلانی طبیعت
کوسیروسفرپر آمادہ پایا اور طلب علم و تجارت کو حصول مقصد کا ذریعہ بناتے
ہوئے ملک ملک کے سفر پر چل نکلے اور اصولی طور پر یہ طے کرلیا کہ ایک راستے
سے دوبارنہیں گزریں گے۔اس سفر کے دوران وہ بادشاہوں سے،گورنروں سے ،سلطانوں
سے اور حکمرانوں سے ملتے رہے۔ان کے طویل اسفار کی داستانیں اس حکمران طبقے
کے لوگوں کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں ہوا کرتی تھیں۔ان ملاقاتوں میں ابن
بطوطہ جہاں اپنے تفصیلی حالات بہت ہی دلنشین انداز میں پیش کرتے وہاں اگلے
سفر کے لیے زادراہ کا انتظام بھی کر لیتے۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں اخبارات
اور معلومات کے دیگر ذرائع جو آج میسر ہیں نہیں ہوا کرتے تھے اور دوسری
دنیاؤں کے حالات اسی طرح کے سیاحوں کی زبانی ہی معلوم ہوتے تھے چنانچہ جب
بھی کسی سیاح کی آمد ہوتی تو لوگ ،حکمران اور عوام سب کا جم غفیر انکے گرد
اکٹھا ہو جاتاتھااورسیاحوں کی زبانی ملک ملک اور قریہ قریہ کے حالات سے
آگاہی حاصل کرتا۔
ایک طویل عرصے تک وہ افریقہ ،صحرائے عرب اور وسطی ایشیائی علاقوں میں سیاحت
کرتے رہے۔اس دوران انہوں نے ریگستانی اور دریائی و سمندری ہر طرح کے راستے
طے کیے۔ان کی تحریروں کے مطابق وہ صحرائے گوبی سے اٹھنے والے طوفان، چنگیزی
سرداروں سے بھی ملے۔تین سالوں تک حجاز میں بھی قیام کیا لیکن ایک بار پھر
سیلانیت غالب آگئی۔اب کی بار انہوں نے سنا کہ دہلی میں محمد بن تغلق نامی
حکمران برسراقتدار ہے۔اس بادشاہ کی علم دوستی اورعلماء نوازی بہت مشہور تھی
تب ابن بطوطہ نے دہلی کا قصد کیا اور اس بادشاہ کے دربار میں جانے کے لیے
کمر ہمت باندھ لی۔اس بار انہوں نے نئے راستوں کا انتخاب کیا اور ترکی کے
راستے وہ روسی علاقوں میں سمرقندوبخارا سے ہوتے ہوئے افغانستان اور پھر کوہ
ہندوکش کو عبور کر کے تو دریائے سندھ کے راستے جنوبی ایشیا میں داخل
ہوئے۔جب وہ سرزمین ہند میں داخل ہو رہے تھے تو خود ان کے مطابق یہ
12ستمبر1333کی تاریخ تھی۔ایک اندازے کے مطابق انہوں نے اتنا طویل سفرایک
سال کی مختصر مدت میں طے کر لیاتھا۔
دہلی میں آمد سے پہلے ہی ابن بطوطہ کا شہرہ یہاں پہنچ چکاتھا۔شاہ محمد بن
تغلق نے دہلی سے باہر نکل کر ابن بطوطہ کا استقبال کیا اور انہیں ہاتھوں
ہاتھ لیا۔بہت سے تحائف و ہدایا پیش کیے گئے۔بادشاہ نے ابن بطوطہ کی فضیلت
علمی کے باعث انہیں دہلی کا منصب قضا پیش کیا جس پر سالوں تک ابن بطوطہ
اپنے فرائض منصبی اداکرتے رہے۔شاہ محمد بن تغلق اپنے مزاج میں بیک وقت بہت
رحم دل اور بہت ظالم بھی تھا۔دشمنوں کو معاف کردینا اور دوستوں کو سولی پر
لٹکا دینا اسکے ہاتھوں سے رونماہوتارہتاتھا۔ابن بطوطہ اسکی اس فطرت سے بہت
خائف رہتے۔ایک بار جب بادشاہ نے ابن بطوطہ کو مملکت چین کی طرف اپنا سفیر
بناکر بھیجا تو راستے میں ڈاکؤوں نے ان کے قافلے کو آن گھیرا۔جان تو بچ گئی
لیکن سرکاری تحائف لوٹ مار کی نظر ہوگئے۔ابن بطوطہ سلطان کے خوف سے جزائر
مالدیپ سدھارگئے اور وہاں دو سال تک روپوش رہے،تاہم اس دوران بھی قضا کا
منصب انکی طشتری میں موجودرہا۔مالدیپ،بنگال اور آسام کی سیاحت اور اسکے
حالات بھی انہوں نے اپنی کتاب میں تفصیل سے لکھے ہیں۔ان ملکوں میں وہ سیاست
میں بھی دخیل رہے،شاہی خاندان میں شادی بھی کی اور جنگوں میں بھی حصہ لیتے
رہے۔ایک عرصے کے بعد سفر چین کا شوق انہیں چرایا،وہ ’’زیتان‘‘ کی بندرگاہ
پر لنگرانداز ہوئے اور وہاں کے مقامی مسلمان بادشاہ نے انہیں درائی راستے
سے چین کی سیر کے لیے مددفراہم کی اور وہ اس وقت کے بیجنگ کا بھی نظارہ کر
آئے۔وہاں سے وہ سمارٹا،مالابار اور آبنائے فارس کے راستے واپس بغداد
پہنچے۔بغداد سے شام اور پھر مصر سے ہوتے ہوئے 1348ء میں انہوں نے اپنی
زندگی کا آخری حج اداکیاجس کے لیے انہوں نے حجاز مقدس کا سفر مبارک کیا۔
لیکن اب تک انہوں نے دو مسلمان ممالک نہیں دیکھے تھے،چنانچہ 1350کے لگ بھگ
انہوں غرناطہ کا ارادہ کیاجو مسلم اسپین کا آخری شہر تھا۔اسکے بعد وہ مغربی
سوڈان سدھار گئے۔اس دوران انہوں نے ایک سال کا عرصہ افریقہ کے ملک
’’مالی‘‘میں گزارا۔ان کی تحریریں اس زمانے کے افریقی حالات کا سب سے بڑا
مستند ذریعہ ہیں۔اب کی بار بڑھاپا ان کی دہلیز پر دستک دے رہاتھااور جوانی
اپنی توانائیوں اور طاقتوں سمیت ساتھ چھوڑ رہی تھی۔ واپس اپنے وطن مراکش
میں آگئے اور بادشاہ کے کہنے پر اپنی یادداشتیں قلم بند کرنے لگے اور ساتھ
ساتھ منصب قضا بھی نبھاتے رہے۔آخری عمر میں انکی بینائی جاتی رہی
اور1368میں یہ عظیم سیاہ داعی اجل کو لبیک کہ گیا۔انہیں آبائی گاؤں میں ہی
دفنادیاگیا۔
انکی کتاب’’رحلہ‘‘اپنی طرز کی واحد کتاب ہے۔اپنے زمانے کے تاریخی،ثقافتی
اور سیاسی حالات اس کتاب میں بڑی تفصیل میں درج ہیں۔ابن بطوطہ 60بادشاہوں
کو،بہت سے وزیروں اور گورنوں کو ملے اور کم و بیش دوہزار افراد ایسے تھے جن
کے ابن بطوطہ کے ساتھ ذاتی نوعیت کے تعلقات تھے۔یہ افرادپوری اسلامی دنیا
سے تعلق رکھتے تھے۔ایشیا،افریقہ اور کچھ یورپ کے حصے انکے پاؤں تلے روندے
گئے اور کتنے ہی سمندروں اور دریاؤں کی موجوں نے ابن بطوطہ کا نظارہ
کیا۔انکی کتاب میں جغرافیائی معلومات کی کمی محسوس ہوتی ہے اس لیے کہ شاید
وہ بنیادی طور پر قانون کے میدان کے آدمی تھے اور محض شوق سفر نے انہیں
سیاح بنایاتھا۔ان کی کتاب میں کسی نئی سرزمین کی تلاش کا ذکر بھی نہیں
ملتا۔
محسن انسانیت ﷺجب کہیں ایک راستے سے تشریف لے جاتے تو واپسی کے لیے دوسرے
راستے کاانتخاب فرماتے تھے،یہ امت کے لیے سبق ہے کہ مشاہدہ کی عادت کو وسعت
دی جائے۔سفر کرنے سے دیگردنیاؤں کے راز انسان پر آشکارہوتے ہیں ،وسعت نظر
اور مطالعاتی ذوق میں اضافہ ہوتاہے۔سیاحت کرنے والا انسان قوموں کی تاریخ و
جغرافیہ سے آگاہی حاصل کرتاہے جس کے نتیجے میں جہاں نفسیاتی طورپر
اعتمادنفسی حاصل ہوتاہے وہاں قائدانہ صلاحیتوں میں بڑھوتری ہوتی ہے اور
انسان جب بھی کسی اجتماعی فیصلہ کے مقام پر پہچتاہے تو دنیائے گزشتہ کے
اسرارورموزاور تجربہ ہائے انسانیت اس کے سامنے ہوتے ہیں اور وہ اپنی ملک و
قوم و ملت کی صحیح تر راہنمائی کرپاتاہے۔اس سب سے بڑھ کر یہ کہ سفر کے بعد
قلم بندکیے جانے والے حالات آنے والوں نسلوں کی امانت ہوتے ہیں اور گزرے
ہوئے ایام کے حالات جاننے کا مسند ترین ذریعہ بن جاتے ہیں۔اﷲ کرے کہ امت
مسلمہ اپنے شاندار ماضی کی طرح آئندہ بھی بامقصد سیاح پیدا کرتی رہے،آمین۔ |