حضرت شامزئی رحمۃ اﷲ علیہ کی دردناک شہادت

ہمارے بعدکہاں یہ وفا کے ہنگامے
آج ہر آنکھ اشکبار ہے اورہرشخص دل فگار۔چہارسُوصف ماتم کا سماں ہے۔ آسمان و زمین نوحہ کناں ہیں۔ پرچم انسانیت سرنگوں ہے۔ زمانہ تاریخ کی کروٹ بدل چکا ہے اور قصرِ ملت میں اک زلزلہ سا بپا ہے کہ امت مسلمہ کے عظیم نابغۂ روزگار راہنما،مفکر، محدث وفقیہ، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے شیخ الحدیث ورئیس دارالافتاء ،امام المحدثین حضرت مولانا سلیم اﷲ خان صاحب کے علوم و افکار کے حامل و امین، محدث العصر حضرت مولانا محمدیوسف بنوری رحمۃ اﷲ علیہ کے مایہ نازجانشین،برصغیر کے زبردست محدث و مصلح حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے حلقۂ ارادت کی زریں کڑی، شہیداسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کے علوم کے وارث و روحانی خلیفہ،پیرطریقت حضرت مولانا سید محمودالمعروف صندل باباجی کے مجاز بیعت ،جامعہ فاروقیہ کراچی کا لائق فخر و قابل رشک ایک عظیم الشان سپوت، حریمِ نبوت کے پاسبان، علماء و عوام کے ماویٰ وملجا، وطن عزیز کی دینی، مذہبی اور جہادی تنظیموں، تحریکوں اورجماعتوں کے سرپرست، ظالم اور سنگدل قاتلوں کے ظلم وستم اور جبرواستبداد کا نشانہ بن کر مقام شہادت پر فائز ہوگئے۔ وہ کیا چلے……؟ کہ ملت کا صبر وسکون بھی ساتھ لے چلے…… ہم سب کو بلکہ مسلمانان عالم کو بے سہارا اور یتیم چھوڑ کر چلے ……!

سمجھ نہیں آرہی کہ حضرت شہید علیہ الرحمۃپرکس طرح لکھوں؟اور کیا لکھوں……؟ ابتداء کہاں سے ہو اور انتہا کہاں ……ان کے کون کون سے گوشہائے حیات کو اجاگر کروں۔ عقل وخرد ساتھ چھوڑ گئے ہیں۔ دل ودماغ ماؤف اورسوچ وفکر مقفّل ہیں۔ ابھی تک جانے کیوں یقین نہیں آرہا کہ ہمارے مُربی ّ ومشفق اورعالم اسلام کے نوجوانوں کے دلوں پر حکمرانی کرنے والے بے تاج بادشاہ ……ہمیں داغ مفارقت دے چکے ہیں، نہیں…… نہیں……! دل و دماغ اس تذبذب اور کشمکش میں ہیں کہ حضرتؒ ابھی زندہ ہیں۔ اپنی نجی مصروفیات میں یا کسی بیرونی دورے پر تشریف لے گئے ہیں۔اور بہت جلد لوٹ آئینگے۔ مگرافسوس صدافسوس! کہ یہ محض ظن و تخمین اور وہم وخیال ثابت ہوئے۔ آنکھوں کے مشاہدے اور نظروں کے سامنے آپ کی تجہیز وتکفین نے اس خیالی کشمکش کو چکناچور کردیا کہ حضرت اب ہم سے سچ مچ جدا ہوگئے ہیں۔ قلم اب بھی ڈگمگارہا ہے اور افسوس کے آنسوتا ہنوز رواں دواں ہیں کہ مجھ سا ناکارہ و نامۂ سیاہ اور کوتاہِ عقل و فہم توان کے فیوض وبرکات کے ادراک سے بھی قاصرہے، گوکیسے ان کے کمالات و محاسن اورخصوصیات و مزایا کا تذکرہ کرے گا:
کہیں سامانِ مسرت ، کہیں سازِغم ہے
کہیں گوہر ہے کہیں اشک کہیں شبنم ہے

آپؒ اعلی درجے کے محدث، باریک بیں محقق، فقیہہ، شہرۂ آفاق مصنف اور طرح دار ادیب، بے مثال مدرس اور کامیاب مجاہد، میدانِ سیاست کے منجھے ہوئے رہنما اور اصلاح و ارشاد کے قطب الاقطاب تھے۔

عصرِحاضر کے نت نئے مسائل پرلکھتے یا بولتے تو ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ کی تصوراتی یادآنے لگتی۔ فقہ و فتاویٰ کے میدان میں غوطہ زن ہوتے تو فقیہ دوران کی فقاہت گویا ہوتی نظر آتی۔ فلسفہ ومنطق کی خشک بحثوں میں سر کھپاتے تو غزالیؒ و رازیؒ کے ہم پلہ نظر آتے۔ میدانِ سیاست اور امت مسلمہ کے مسائل اور درپیش خطرات سے امت کو آگاہ کرتے تو شیخ الہندؒ اور مدنی کے جانشین معلوم ہوتے۔ توکل وقناعت ، زہد واستغناء، ایثار وقربانی کا یہ عالم تھا کہ ان کے اظہار کے لیے نہ ہی قلم وقرطاس میں یارا ہے، اور نہ ہی راقم کے پاس مناسب الفاظ وتعبیرات، مگر اب چونکہ قلم اٹھ ہی چکا ہے تو کچھ نہ کچھ رطب ویابس ملاحظہ ہی سہی……!

میں نے جب ۱۹۸۰ء میں مادرعلمی جامعہ فاروقیہ میں اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے داخلہ لیا تو کم سنی کے باعث کسی بڑی شخصیت کی سرپرستی کی مجھے اشد ضرورت محسوس ہوتی تھی۔قدرت نے دل کی یہ آرزو بھی پوری کردی اور اپنے علاقے کی نامور عبقری شخصیت سے تعارف ہوا۔ وہ بھی کیا خوب تھا…… اور کتنے بھلے ایام…… حضر ت ؒ عنفوانِ شباب میں تھے۔ جمال و کمال کی خوبیوں سے آراستہ، قدوقامت مضبوط اور بلند، جسم صحت مند،خوب صورت چہرہ اور اس پرگھنی لانبی ڈاڑھی، لبوں پر متواضعانہ مسکراہٹ، چال ڈھال میں میانہ پن اور سب سے بڑھ کر طلبہ کے لیے اس قدر مشفق کہ ان کی شفقت ومہربانی ضرب المثل تھی:
نہ تنہا چشم محو لذتِ دیدار ہوتی ہے
کہ تسکینِ دل و جاں ان کی ہر گفتار ہوتی ہے

فراعنۂ وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارنے والے اور اپنے ہمعصراور ہم پیالہ و ہم نوالہ حضرات کے لیے بریشم کی طرح نرم واعلیٰ اور بلند اخلاق کے حامل،آپ کی صفت کے اس پہلو کا انداز کچھ اس طرح ہوتا ہے:
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق وباطل ہو تو فولاد ہے مؤمن

آپ کا اندازِ گفتگو محبت بھرا اور شیریں ہوتا۔ جب بولتے تو دلوں کو موہ لیتے۔ خاکسارانہ وضع رکھتے تھے۔ رحم دل اور سخی انسان تھے۔ آپ کی کس کس خوبی کا ذکر کیا جائے۔ نکتہ رس، نکتہ دان، نکتہ سنج، نکتہ شناس ، پاک دل، پاک باز و پاک ذات اور پاک صفات تھے۔ بات کرتے تو گویا منہ سے پھول برسنے لگتے۔ کسی کا دکھ دیکھتے تو اس کی مدد فرماتے۔ مرنجاں مرنج تھے اور’’بچشمِ خودجمالِ تُو دیدہ است‘‘ کا مصداق تھے۔ نیا نویلا طالب علم جب گھر کی چوکھٹ سے باہر قدم رکھتا ہے تو جہالتِ سفر میں کس قدر پریشاں حال، مضطرب اورسوچوں میں گم رہتا ہے۔ مگر کچھ ان کی شفقت و محبت نے اور کچھ علاقائی انس و میلان نے ان کے قریب کردیا۔ بس پھر کیا تھا۔

کوئی مشورہ لینا ہوتا تو ان سے، اور کوئی مسئلہ و مشکل درپیش ہوتی تو ان کے سامنے رکھ کر خود بری الذمہ ہوجاتے کہ جو فیصلہ حضرتؒ فرمائیں گے اسی پہ عمل ہوگا۔راقم نے ان سے دورہ حدیث شریف میں ترمذی شریف پڑھی۔ اﷲ۱ ﷲ…… کیا انداز تھا پڑھانے کا! بات دل پہ نقش ہوجاتی۔

راقم سے کبھی کبھار اپنے برادرِ خوردمولوی فہیم الدین(رحمان الدین) کے بارے میں بھی پوچھتے رہتے کہ اُن کی پڑھائی اور حاضری وغیرہ کی کیا کیفیت ہے اور راقم ان کو بتلاتا رہتا۔ وہ راقم کے ہم جماعت تھے۔

حضرتؒ جب درس و تدریس اور مطالعہ سے فارغ ہوتے تو اپنے گہرے اور محبوب دوست اور اس وقت کے ناظم اعلیٰ حضرت مولانا محمد یوسف کشمیری صاحب دامت برکاتہم کے ساتھ کبھی علمی گفتگومیں، کبھی گپ شپ میں اور کبھی جامعہ سے متعلق مسائل پر گفتگو کرتے نظر آتے۔ آپس میں محبت و ارتباط اس قدر تھا کہ کھانا تک اکٹھے کھاتے تھے۔ جیسے ہی دن بارہ بجے اسباق سے فارغ ہوتے، کمرہ نمبر۷ میں حضرت مفتی صاحب، حضرت مولانا عنایت اﷲ خان شہید، حضرت مولانا حمید الرحمن شہید، حضرت ناظم صاحب، حضرت مولانا محمد زیب صاحب اور حضرت مولانا عبدالرزاق صاحب، أحیاناً ڈاکٹر مولانامحمد عادل خان صاحب اور حضرت مولانا عبیداﷲ خالد صاحب اپنے اپنے کھانے کے ہمراہ تشریف لاتے۔ کھانے کے دسترخوان پرسادہ اور بے تکلف کھانوں میں ان کی گفتگو اور آپس کی محبت و انس اس قدر لذت پیدا کردیتی کہ رنگین اور پُرتکلف کھانوں میں ایسی لذت کہاں……؟ پس یہ پیکرانِ خلوص و محبت وہ وقت ایک دوسرے کی نذر کردیتے ۔بلکہ حضرت شیخ الحدیث دامت برکاتہم العالیہ بھی اس کمرے میں ان کے درمیان گاہے گاہے جلوہ افروز ہوتے۔ کھانا تناول فرمانے کے بعد دیگر اساتذہ اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوتے اور حضرت مفتی صاحب راہ گذر مسجد تشریف لے جاتے، جہاں آپ جمعہ اور صرف ظہر کی نماز کی امامت فرماتے، اکثروبیشتر حضرت مفتی صاحب کے پاس آمدورفت میں اچھی خاصی کتابیں ہوتی تھیں، بلکہ بعض اوقات چلتے چلتے بھی مطالعہ فرماتے، میں ان کے ساتھ کتابیں اٹھاتا اور راہ گذر تک خادمانہ ساتھ چلتا، وہاں نماز پڑھاکر مفتی صاحب دارالافتاء تشریف لاتے اور عصر تک جامعہ میں رہتے۔

مفتی صاحب کا سرعتِ مطالعہ تو ضرب المثل تھا ہی، دورۂ حدیث کے پرچے چیک کرکرکے میری طرف پھینکتے جاتے اور میں ان کے لگائے ہوئے نمبر پرچوں سے کشف النتائج پر منتقل کرتا رہتا، بسا اوقات ایسا ہوجاتا کہ مفتی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ پرچوں کا ڈھیر لگادیتے اور پھر کسی مہمان یا طالب علم یا کسی اور مختصر سی مصروفیت میں لگ کر میرا انتظار کرتے، جیسے ہی میں اس ڈھیر کو ختم کرتا، حضرت دوبارہ شروع فرمادیتے، مجھے حیرت ہوتی کہ میں نمبر لگانے میں خاصی پُھرتی سے بھی کام لے رہا ہوں اور اس کے باوجود حضرت مفتی صاحب کی چیکنگ اور نمبر لگانے کی رفتار کو کسی طرح بھی نہیں پاسکتا۔

اﷲ جل شانہ کا میرے اوپر یہ بہت بڑا فضل ہے کہ حضرت مولانا عنایت اﷲ خان شہید، حضرت مولانا حمیدالرحمن شہید اور حضرت مفتی صاحب شہید رحمہم اﷲکے میں نے جتنے پیر دبائے، سر کی مالش کی شاید ہی کوئی اور اس میں میرا ہمسر ہو اور میں اﷲ تعالیٰ کا جتنا شکر کروں کم ہوگا کہ ان نفوس قدسیہ کے مالک میرے عظیم اساتذہ میرے ناقص علم کے مطابق مجھ سے ناراض نہیں گئے۔

یہ میں اس لیے نقل کررہا ہوں کہ الحمدﷲ طالب علم اور شاگرد و تلمیذ کی حیثیت سے یہ میرے لیے اور میرے جیسوں کے لیے ایک بڑا سرمایہ ہے۔
آنکھوں میں بس کے دل میں سما کر چلے گئے
خوابیدہ زندگی تھی، جگا کر چلے گئے

میری حیاتِ عشق کو دے کر جنون عشق
مجھ کو تمام ہوش بناکر چلے گئے

سمجھا کے پستیاں مرے اوج کمال کی
اپنی بلندیاں وہ دکھا کر چلے گئے

شکرِ کرم کے ساتھ یہ شکوہ بھی ہو قبول
اپنا سا کیوں نہ مجھ کو بناکر چلے گئے

مہمانوں کی اس قدر کثرت ان کے ہاں ہوتی کہ صبح وشام قسم قسم کے آتے جاتے رہتے ، مگر ماتھے پہ شکن تک بھی کبھی دکھائی نہیں دی۔

کبھی ان کوحضرت مولانا عنایت اﷲ خان شہید اور بالخصوص حضرت شیخ الحدیث زیدمجدہ کے سامنے بیٹھا دیکھتے تو دوزانو اور متواضع، ان سے گویا ہوتے تو دھیمے اور پست انداز میں گفتگو فرماتے اور گھنٹوں دو زانو بیٹھے رہتے۔ ادب کا یہ عالم تھا کہ نظریں جُھکی ہوتیں اور سانس تک اس قدر کمالِ احتیاط سے لیتے کہ کہیں حضرت محسوس نہ فرمائیں، کبھی غائبانہ طور پر مجالس و پروگراموں میں حضرت زیدمجدہم کا نام لیتے تو جو کمالِ ادب اور فرطِ محبت دیکھنے میں آتا، حیرت کی انتہا نہ رہتی۔ حضرت شیخ الحدیث زید مجدہم کی طبیعت کا اکثر وبیشتر خود فون کرکے پوچھتے۔ وہ حضرت شیخ کو اپنا شیخ کامل، آئیڈیل اور پسندیدہ ترین استاد قرار دیتے تھے۔ جب ان کے متعلق گفتگو کرتے تو کیفیت قابلِ دید ہوتی۔

سریع المطالعہ ہونے کے باوجود رات گئے تک مطالعے میں اس قدرانہماک سے محو رہتے کہ گردوپیش سے بالکل بے خبر وناآشنا معلوم ہوتے۔ عدیم الفرصتی اور کثرتِ مشاغل کا یہ عالم ہوا کرتا تھا کہ طعام و آرام کے لیے وقت مشکل سے نکالتے۔ کثرتِ مطالعہ سے بیشتر ان کی آنکھیں سرخ ہوتی تھیں۔ مگر صحت و آرام کی پروا کیے بغیرسولہ سولہ گھنٹے مصروفِ مطالعہ رہتے۔ ان کی علمی محبت اور اعلیٰ علمی ذوق کا اندازہ ان کے وسیع وعریض ذاتی کتب خانے سے ہوتا ہے جو کہ ہزاروں کتب پر مشتمل ہے۔سالِ گذشتہ حضرتؒ سے جب ملاقات ہوئی تو فرمانے لگے کہ میرے پاس دارالافتاء میں چند رسائل ہیں۔ امام جاحظؒ کے۔ جو میرے زیرمطالعہ رہے ہیں۔ میں نے ان سے خوب استفادہ کیا ہے۔ اب آپ کسی وقت آکران کو لیں اور ان کا مطالعہ کریں۔ اس موقع پر حضرت مولانا ڈاکٹر منظور احمد مینگل مدظلہم بھی ساتھ تھے ۔ نیز میرا برادر زادہ محمد بھی ساتھ تھا۔ جس کو دیکھ کر حضرت مفتی صاحب نے ان پر شفقت کا ہاتھ پھیرا، دعا کی اور پانچ سو کا نوٹ نکال کر انھیں تھمادیا، پھر مزاحاً فرمانے لگے کہ آپ دونوں بھی چھوٹے ہی ہیں اور ساتھ ہی پانچ سوحضرت ڈاکٹر صاحب اور پانچ سو راقم کو عطا فرمادئیے۔

جب میں دورہ حدیث شریف سے فارغ ہوا تو ایک سال تک دوران تدریس مجھے افتاء کی مشق کرواتے رہے اور اپنی زیرنگرانی مطالعہ کروایا۔ تدریس اور طریقۂ تدریس پر اکثر راہنمائی فرماتے۔ غرض کہ سرپرستی کا حق ادا کردیا۔ زندگی کے ہر ہر گوشے میں، میں نے ان سے استفادہ کیا اور میرے لیے یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ آج راقم کاعلم واہل علم سے جتنا بھی واسطہ ہے۔ اس میں حضرتؒ کی سرپرستی، خصوصی شفقت ومحبت اور دعائیں شامل ہیں۔

علماء امت کے نام حضرت شامزئی شہید کی وصیت وپیغام
حضرت مفتی صاحب امت مسلمہ کے مسائل اور اس کے خلاف سازشوں سے صرف واقف ہی نہیں تھے، بلکہ اس کے سدّباب کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے، یہاں ہم مفتی عبدالودود اسماعیل زئی مدظلہم کے توسط سے حاصل شدہ حضرت مفتی صاحب کے ایک وصیت نامے کو من وعن افادۂ عام کے لیے نقل کرتے ہیں:
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
بندہ نے آج بمورخہ ۱۹۹۴/۲/۲۰ء مدرسہ عربیہ شمس العلوم (ژوب) کے جلسۂ دستاربندی میں شرکت کی اور علماء و عوام کے سامنے مختصراً کچھ معروضات بھی پیش کیں۔

موجودہ پرفتن دور میں یہود اور امریکہ و دیگر دشمنان اسلام، بنیاد پرستی کی اصطلاح کی آڑ میں دنیاسے اسلام و مسلمانوں کا وجود مٹانا چاہتے ہیں، اگر اس وقت علماء نے اس فتنہ کا ادراک نہیں کیا اور عام مسلمانوں کو آگاہ نہیں کیاتو آئندہ نسلیں اس غلطی پر ان کو معاف نہیں کریں گی اور تاریخ کے اوراق میں ان کا ذکر بہت برے الفاظ سے کیا جائے گا، اس لیے بندہ اپنے مقام سے بڑھ کر علماء کے سامنے ہر موقع پر یہ معروضات پیش کیا کرتا ہے۔

اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ دین کو غالب فرمائے اور پوری دنیا میں اس کا غلغلہ بلند فرمائے۔ آمین
(نظام الدین شامزئی)

راقم کی آخری ملاقات حضرت علیہ الرحمۃ سے ان کی شہادت سے تقریباً دس روز قبل جمعے کے دن ہوئی۔ جب حضرت صدرِ وفاق دامت برکاتہم العالیہ نے ان سے مدارس سے متعلق بعض امور پر رائے طلب کرنے کے لیے بھیجا۔ راقم نے فون پر وقت مانگا، مغرب کی نمازسے لے کر عشاء تک دوبدو مفصّل گفتگو ہوئی ، جامعہ کے مایہ ناز استاذ مولاناعزیز الرحمن عظیمی بھی میرے ساتھ تھے، وہ اور مولانا مستقیم صاحب اس دوران اس کمرے میں ایک جانب باہمی تبادلۂ خیالات کررہے تھے، آخر میں کچھ امور کا اظہار فرمایا، حضرت والا کے سامنے جب احقر نے حضرت مفتی شہید رحمۃ اﷲ علیہ کی رائے بیان کی تو حضرت کو پسند آئی اور مسرت کا اظہار فرمایا۔

کیا خبر تھی کہ یہ آخری ملاقات ہے، کم ازکم ان سے جی بھر کے باتیں تو کرتا، ان کی زیارت سے تو سیر ہوتا۔ کسی کو کیا معلوم تھا کہ علم وعمل کا یہ پیکر، مجسّمہ اخلاص وللّٰہیت، عزم و استقلال کا یہ جبل ہم سے رخصت ہوا چاہتا ہے،۳۰مئی۲۰۰۴ء کی صبح جب یہ افسوسناک خبر سننے میں آئی تو جیسے زمین پاؤ کے نیچے سے سرک گئی کہ حضرت خلعتِ شہادت سے سرفراز ہوگئے:
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویراں کرگیا

جرات و شجاعت کا یہ درخشاں باب بند نہیں ہوا بلکہ اس کا فیض سدا جاری رہے گا جیسے ان کی جدائی کا زخم مندمل ہونے والا نہیں اور غم کم ہونے والا نہیں، ویسے ہی ان کی زندگی کا مشن بھی تاقیامت رکنے والا نہیں۔

وہ شہادت کے آرزومند تھے۔انھوں نے اپنی زبان و بیان، تحریر و تقریر، علم و شعور اور اﷲ کی عطا کی ہوئی تمام صلاحیتوں سے دین حق کے لیے قربانیاں دیں۔ ایک جان باقی رہ گئی تھی سو وہ بھی اس کی راہ میں قربان کرکے سرخرو ہوگئے، کسی نے کیا خوب کہا:
ہمارے بعد کہاں یہ وفا کے ہنگامے
کوئی کہاں سے ہمارا جواب لائے گا
(ماہنامہ ’’عزم نو‘‘ کراچی، جمادی الثانیہ ۱۴۲۵ھ)
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 878790 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More