وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان چوہدری برجیس احمد طاہر نے کہا
ہے کہ کراچی معاہدے کے تحت آزاد کشمیر میں لینٹ آفیسران کی تعیناتی یا ان
کی خدمات واپس کرنے میں آزاد کشمیر حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے، آزاد
کشمیر حکومت کیخلاف اگر اراکین عدم اعتماد کی تحریک لانا چاہتے ہیں تو یہ
ان کا صوابدیدی حق ہے، بلوچ میں ضمنی انتخاب کے دوران رینجرز کی تعیناتی
چیف الیکشن کمشنر آزاد کشمیر کا فیصلہ تھا، بلوچ میں پولیس کے ساتھ تصادم
میں ایک شہری کی ہلاکت کے واقعہ اور پولیس سٹیشن پر حملے کی تحقیقات کا حکم
دیدیا ہے منگل کو پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں پی آئی او رراؤ تحسین علی
خان کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس ملک میں
انتخابات شفاف نہیں ہوتے وہاں ادارے مستحکم نہیں ہوتے۔ 22 فروری کو آزاد
کشمیر قانون ساز اسمبلی کے حلقہ ایل اے 22 بلوچ میں ضمنی انتخاب ہوا جس میں
مسلم لیگ (ن) نے کامیابی حاصل کی۔ اس کا سرکاری سطح پر اعلان کر دیا گیا۔
آزاد کشمیر کے وزیراعظم کے تسلسل سے بیانات آ رہے ہیں ،عوام بہترین جج ہوتے
ہیں ان کا فیصلہ ہمیشہ تسلیم کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر میں حکمران
جماعت کے 28ارکان اسمبلی ہیں اور وزیروں کی تعداد 32ہے،یہ ایشیا بھر میں
ایک ریکارڈ ہے۔کشمیر لبریشن سیل میں جیالے تعینات ہیں۔میونسپل
کاپریشنوں،ضلع کونسلوں ،زکوۃ کونسلوں ،ترقیاتی اداروں میں جیالے تعینات
ہیں۔وزیر اعظم آزاد کشمیر نے ایک جیالے وزیر کے لئے چھ کروڑ روپے صرف کئے
لیکن مرحوم وزیر اختر ربانی کا علاج نہیں کرایا۔وزیر امور کشمیر نے کہا کہ
آزاد کشمیر کے پچپن ارب روپے کے بجٹ میں سے پینتالیس ارب روپے غیر ترقیاتی
اخراجات میں صرف ہوتے ہیں۔آزاد کشمیر ہائیکورٹ نے پبلک سروس کمیشن میں
تقرریاں کالعدم قرار دیں۔آزاد کشمیر حکومت چیف سیکرٹری یا آئی جی کو ان کے
عہدوں سے نہیں ہٹا سکتی۔انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر میں زکوۃ کا مرکزی چیئر
مین دس لاکھ روپے ماہانہ لے رہا ہے اور یہ سابق چیف لیکشن کمشنر کا بیٹا
ہے۔انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد لانا آزاد کشمیر اسمبلی کے اراکین کا آئینی
حق ہے ہم اسے نہیں روکیں گے ،یہ اراکین کی صوابدید ہے تاہم نواز شریف جس
کام کا حکم دیں گے ،ہم وہی کریں گے۔
آزاد کشمیر کے چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس وزیر اعظم آزاد کشمیر کی
طرف سے نکالے جانے کے حکم کے باوجود اپنے عہدوں کا انتظام بدستور سنبھالے
ہوئے ہیں۔اس پر وزیر اعظم آزاد کشمیر چودھری عبدالمجید نے ایک نیا حکم نامہ
جاری کیا ہے کہ کوئی بھی سرکاری فائل چیف سیکرٹری اور آئی جی کو نہ بھیجی
جائے۔وفاقی وزیر امور کشمیر چودھری محمد برجیس طاہر نے اس صورتحال میں پریس
کانفرنس کرتے ہوئے اس معاملے میں اپنی پوزیشن صاف کرنے کی کوشش کی ہے ،چیف
سیکرٹری اور آئی جی پولیس کی تعیناتی وفاقی حکومت کی ذمہ داری قرار دیتے
ہوئے اس معاملے میں آزاد کشمیر حکومت کو بے اختیار بتایا ہے،اور بلوچ میں
فائرنگ سے ایک انسانی ہلاکت اور پولیس سٹیشن پر حملے کی عدالتی تحقیقات کا
اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کی مرضی سے مشروط آزاد کشمیر کی
چودھری عبدالمجید حکومت کے خلاف عدم اعتماد کو ارکان اسمبلی کا صوابدیدی
اختیار ہونے کی نوید بھی سنائی ہے۔وفاقی وزیر امور کشمیر چودھری برجیس
طاہرنے اس پریس کانفرنس میں آزاد کشمیر حکومت کے امور پر وفاقی حکومت کی
برتری ظاہر کی ہے ،بلوچ کے ضمنی الیکشن سے متعلق اپنی وضاحت کی ہے اور واضح
طور پر کہا ہے کہ چودھری عبدالمجید حکومت کے خلاف عدم اعتماد آزاد کشمیر کے
ارکان اسمبلی کا صوابدیدی اختیار ہے تاہم ساتھ میں یہ بھی کہا کہ البتہ وہی
کریں گے جو وزیر اعظم نواز شریف کہیں گے۔وفاقی وزیر امور کشمیر کی اس وضاحت
سے آزاد کشمیر حکومت کی وہ عملی حیثیت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے جس پر اکثر
و بیشتر پردہ پڑا رہتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم آزاد کشمیر چودھری عبدالمجید نے چیف سیکرٹری
اور آئی جی پی کو ہٹانے کا وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے لیٹر پیڈ پہ حکم نامہ
جاری کیا ہے،اس کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوا۔ساتھ ہی یہ اطلاع بھی ہے کہ
وزیر اعظم چودھری عبدالمجید کے طفلانہ احکامات کی بجا آوری نہ کرنے پر
انہوں نے سیکرٹری سروسز چودھری منیر اور سیکرٹری قانون ادریس تبسم کو ان کے
عہدوں سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔سیکرٹری سروسز چودھری منیر نے وزیر اعظم
چودھری عبدالمجید کے حکم پر نوٹیفیکیشن جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا اور
سیکرٹری قانون نے بھی پیپلز پارٹی حکومت کی مرضی کے خلاف قانونی رائے دی
تھی۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر کے ان غیر مناسب اقدامات سے آزاد کشمیر حکومت کا
وجود ایک مزاق بن چکا ہے۔آزاد کشمیر کا وزیر اعظم مروجہ طریقہ کار کے بغیر
وفاق کے مقرر کردہ چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو ان کے عہدوں سے نکالے
جانے کا حکم نامہ جاری کرتا ہے،ان عہدوں پر نئے افراد کا تقرر کرتا ہے لیکن
وفاق کے دونوں نمائندے بدستور اپنے عہدوں پر کام کرتے ہیں جس پر وزیر اعظم
آزاد کشمیر کوئی بھی سرکاری فائل وفاق کے متعین کردہ چیف سیکرٹری و آئی جی
پی کو نہ بھیجنے کا ایک اور حکم نامہ جاری کرتا ہے۔وفاقی وزیر امور کشمیر
کی پریس کانفرنس سے شاید وضاحت ہو گئی ہولیکن اس پریس کانفرنس سے آزاد
کشمیر میں جاری ’’ سرکاری بحران‘‘ کے خاتمے کے کوئی آثار نظر نہیں
آتے۔وفاقی وزیر امور کشمیر کی اس پریس کانفرنس سے آزاد کشمیر حکومت کے جاری
بحران کا ایک ہی حل سامنے آتا ہے کہ آزاد کشمیر اسمبلی کے ارکان اپنے ’’صوابدیدی‘‘
اختیار کو استعمال کرتے ہوئے چودھری عبدالمجید حکومت کو چلتا کر دیں۔لیکن
وفاقی وزیر امور کشمیر کی یہ تجویز بھی وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف
کی منظوری کی مرہون منت ہے۔
بلاشبہ آزاد کشمیر میں خرابیوں،بداعمالیوں کے نتائج کی فصل اب تیار ہے۔
سیاسی انحطاط پذیری،کرپشن،برادری و علاقائی ازم،اقرباء پروری،کشمیری
مہاجرین کو بوجھ سمجھنے کے چلن اور دوسری خرابیوں کے نتائج آج آزاد کشمیر
میں افراتفری کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔المختصر یہ کہ مختلف شعبوں بالخصوص
سیاسی نمائندے صرف اپنی پستی کے زوال ہی میں مبتلا نہیں بلکہ خطہ آزاد
کشمیر سے بھی بدنامیاں منسوب کر بیٹھے ہیں اور ساتھ ہی وفاقی حکومت اور
آزاد کشمیر کو کنٹرول کرنے والے دیگر ادارے آزاد کشمیر سے متعلق اپنی ذمہ
داریوں کو بطریق احسن پورا نہیں کر رہے،دوسرے،تیسرے درجے کی مخلوق کی طرح
اب بھی ڈیل کرنے کا چلن ہے۔ اس سے کشمیر کاز اور مملکت پاکستان کے وسیع تر
مفادات کو قربان کیا جا رہا ہے اور دشمنوں کے عزائم کی راہ بھی ہموار کی جا
رہی ہے۔ |