نہ جانے کیا بات ہے اس ملک میں ہر شخص کی اپنی ترجیحات ہیں۔۔الگ منطق۔ایک
کے ایک جد انظریات۔۔۔بعض معاملات میں ہم ایک دوسرے کی ضد ہیں اور مزے کی
بات یہ ہے کہ فریقین اپنی ضد،ہٹ دھرمی اور اپنے عجیب و غریب فلسفے پر ڈٹے
ہوئے ہیں شاید انہوں نے اس شعر کواپنی زندگی کا محور بنا لیاہے
جھوٹ بولاہے تو اس پر ڈٹے رہو ظفر
آدمی کو صاحب ِ کردار ہونا چاہیے
جب سے ملک میں انتہا پسندی کو عروج حاصل ہواہے ہر چیز تلپٹ سی ہو کررہ گئی
ہے اور عوام کے تقسیم در تقسیم ہونے کا عمل جاری ہے اس وقت کچھ لوگ طالبان
کے خلاف فوجی اپریشن کے خلاف ہیں ان کا مؤقف یہ ہے کہ اس طرح ملک میں دہشت
گردی کے خطرات مزید بڑھ جائیں گے اس کے برعکس لوگوں کی یہ رائے بھی ہے کہ
پاکستان کو خوف وہراس کے ماحول سے نکالنے کیلئے مسلح جدوجہد کو سختی سے کچل
دینا چاہیے اس کے ساتھ ساتھ ایک بحث زوروں پرہے کچھ لوگ جامے میں رہ کر اور
کچھ جامے سے باہرہوکر اس کے حق اور مخالفت میں دلیلیں دے رہے ہیں کہ شہید
کون ہے؟ مختلف لوگوں کا نقطہ ٔ نظر بھی مختلف ہے اس ضمن میں جماعت اسلامی
کے امیر منورحسن نے بیان دیا تھا جس میں انہوں نے ڈرون حملوں میں ہلاک وانے
والوں کو شہید قرار دینے کا فتویٰ دے ڈالا کچھ ہفتوں پہلے ایک ’’مفتی
ــ‘‘کے ہونہارعالم فاضل فرزندنے فرمایا ا امریکہ کے ہاتھوں کتا بھی مرجائے
تو وہ بھی ’’شہیدــ‘‘ ہے لیکن اس بات پر اتنی لے دے نہیں ہوئی شایدنقاد
موصوف کو ’’اپناآدمی‘‘ جان کر درگذرکرگئے اورسید منورحسن بھی تو حد سے گذر
گئے جو انہوں نے پاکستان کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والوں کی
قربانیوں کو نہ صرف فراموش کردیا بلکہ ان کو شہید ماننے سے بھی انکاری
ہوگئے شایدوہ جوش ِ خطابت میں یہ بھول گئے کہ ظالم کبھی شہید نہیں ہوتا
اقبالؒ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے
شہادت ہے مطلوب ِ مقصودِ مومن
نہ مال ِ غنیمت نہ کشور کشائی
پاکستان میں جہاد کے نام پر جو فتنہ و فساد بپا ہے اسلام تو کیا کوئی ذی
شعور بھی اس کی حمایت نہیں کرسکتا ہمارے ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے ہوس ِ
اقتدار،ڈالروں کی محبت اور اپنے مخصوص مفادات کے حصول کیلئے پوری قوم کو
پرائی آگ میں دھکیل دیا انتہا پسندوں کے ہاتھ50ہزار بے گناہوں کے خون سے
رنگے ہوئے ہیں اب بھی انہیں ترس نہیں آتا اور حکمران ہیں کہ وہ اب بھی کمبل
سے لپٹے ہوئے ہیں یاپھر کمبل انہیں نہیں چھوڑرہایہ تو وہی بات ہوئی۔۔۔۔ایک
شخص کی بھینس بیمار ہوگئی اس نے اپنے ایک دوست کو سیانا جان کر اس سے مشورہ
کیا ۔۔۔دوست نے کہا بھینس کو مٹی کے تیل کی بوتل پلا دو ۔۔اس نے ایسا ہی
کیا نتیجہ یہ نکلا بھینس مرگئی وہ بھاگا بھاگا مشورہ دینے والے دوست کے پاس
پہنچا چھوٹتے ہی بولا تم نے کیسا مشورہ دیا میری بھینس مر گئی ۔۔۔اس نے
مسکین سے صورت بناکر جواب دیا میری بھی مرگئی تھی۔۔۔ہم آج کل ایسی ہی کیفیت
سے گذررہے ہیں ا یک طرف انتہا پسند اور دہشت گرد معصوم پاکستانیوں کو
ماررہے ہیں دوسری طرف طالبان کی آڑمیں مرنے والے بیشتر بے گناہ ہیں لوگ
اپنے پیاروں کے جنازے اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہیں لیکن یہ مذموم کارروائیاں
بندہی نہیں ہورہیں اس مسئلے کا ایک حل تو یہ ہے کہ حکومت بلا امتیاز ہر قسم
کی جہادی تنظیموں پر پابندی لگا نے کا اعلان کرے جو لوگ اس وقت بندوقیں
اٹھائے مارا ماری کرتے پھر رہے ہیں ان کے مسائل کو سنجیدگی سے لیا اور حل
کرنے کیلئے ٹھوس حکمت ِ عملی وضح کی جائے اور حالات ایسے پیداکئے جائیں کہ
فریقین کو اعتمادہواور جو فیصلے کئے جائیں ان پر عمل ہوتا نظر آنا چاہیے،
پھرحکومتی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کو سختی سے کچل دیا جائے جب تک اپنوں کی
محرومیاں دور نہیں کی جاتیں ملک میں حقیقی امن بحال نہیں ہوسکتا ، ایک
مربوط حکمت ِ عملی، ٹھوس منصوبہ بندی اور افہام و تفہیم سے قومی سلامتی کو
یقینی بنانا حکمرانوں کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے قوم میں اتفاق رائے ہو جائے
تو پھر پاکستان کو اپنے دشمنوں سے کوئی خطرہ نہیں جب تک ہم آپس میں لڑتے
رہیں گے نہ دہشت گردی کا قلع قمع کیا جا سکتاہے نہ اندرونی و بیرونی خطرات
سے نمٹا ئے جانے کی کوئی سبیل پیدا ہوگی پاکستان کی حکومت امریکہ سمیت
اقوام ِ عالم پرمسلسل دباؤ ڈالتی رہے کہ ڈرون حملے بند کئے جائیں یہ
پاکستان کی سلامتی پر حملہ ہے حکومت اپنے اندرونی معاملات خود حل کرنے کی
کوشش کریگی کسی کو تھانیدار بننے کی ضرورت نہیں اس کے ساتھ ساتھ اب ظالموں
کو شہید قرار دینے کی روایت ختم ہونی چاہیے شہید کون ہے؟ کون نہیں یہ اﷲ
تعالیٰ ہی جانتاہے ایک بات طے ہے سٹیٹ کے دشمن۔۔۔بے گناہوں کے قاتل اور خوف
کی علامت انتہا پسند کبھی شہید نہیں ہو سکتے۔ حکومت اورطالبان کے درمیان
مذاکرات سے ہی معاملات اور حالات بہترہونے کی امیدہے آج کا ڈرون حملے نہیں
ہو رہے شاید اس لئے کہ انتہا پسندوں کے خلاف ایکشن حکومت ِ پاکستان خود لے
رہی ہے لیکن یہ سب وقتی ہے پائیدار امن کا فیصلہ مذاکرات کی میزپر ہی ہو
سکتاہے اور کسی کو یہ موقعہ ضائع نہیں کرنا چاہیے شاید اس کے بعد حالات کسی
کے بس میں نہ رہیں۔ |