انسان کی فطرت خدا نے کچھ اس طرح کی بنائی ہے کہ مختلف
محسوسات اور خیالات خواہ اچھے ہوں یا برے ہوں اس کے ذہن میں چلتے رہتے ہیں
اور ان کے مطابق انسان کی شخصیت اچھی یا بری بنتی یا بگڑتی رہتی ہے۔ ہمارے
ہاں یہ بہت عام سی روایت ہے کہ لوگ سارا دن ہر ملنے والے کے حال چال کیسا
ہے کے جواب میں دو پیرا گراف پر مشتمل شکایات کا پلندہ ضرور سناتے ہیں۔ اب
اگر تو دیکھاجائے اس پلندے کو آپ صرف سنتے یا سناتے نہیں بلکہ اپنے ذہن کو
حفظ کرواتے رہتے ہیں اور پھر یہی وجہ ہے کہ آ پ کو یہ بے حد مشکل لگتا ہے
کہ تکلیف دہ سوچیں آپ کو چھوڑتی نہیں جبکہ درحقیقت آپ خود ان کو کس کر پکڑے
رکھتے ہیں۔
دماغ جو کہ خدا کا ایک کرشمہ ہے اور ترقی ایجادات کے باوجود بھی ابھی تک اس
دماغ کو مکمل طور پر دریافت نہیں کیا جاسکا تاحال اس کے کرشمے دریافت کئے
جارہے ہیں۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ بھی ہے کہ یہ انسان کا دماغ ہی ہے جس کی
بدولت انسان جنگلوں سے نکل کر شہر میں رونقیں لگائے بیٹھا ہے مگر ہمارے ہاں
مسئلہ یہ ہے کہ دماغ کی طاقت کو اور زبان سے نکلے الفاظ جو دماغ پر کتنی
طاقت کے ساتھ حاوی ہوتے ہیں۔ ہم اتنی گہرائی کے ساتھ جانتے نہیں اور اگر
تھوڑا بہت جانیں بھی تو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
عام طور پر اس طرح کی باتوں کو کتابی باتیں کہہ کر ماننے سے اور ان پر عمل
کرنے کو فالتو سمجھا جاتا ہے۔ اگر کامیاب لوگوں کا جائزہ لیا جائے کہ قطع
نظر وہ کس فیلڈ سے تعلق رکھتے ہین وہ سب ہی اپنے دماغ میں پنپنے والے
خیالات کو بہتر طور پر استعمال کرنا خوب جانتے تھے۔ انھوں نے محض دماغ کو
سوچنے کے لئے نہیں بلکہ اچھا مثبت اور تعمیری سوچنے کے لئے کارگر بنایا۔
کامیابی کا تعلق آپ کبھی بھی بینک بیلنس سے نہیں جوڑ سکتے۔ کامیابی ہر
انسان کے لئے ایک الگ مطلب اور الگ معنی رکھتی ہے۔ وہ انسان کامیاب ہوگا جو
کہ کروڑوں روپے اپنے اکاؤنٹ میں رکھتا ہو تو شاید کوئی شاعر یا ادیب اپنی
کتابوں کے ذخیرے کو ان کروڑوں سے ذیادہ اہم سمجھتا ہو گا۔ آُ پ کو کامیابی
کی جانچ دوسروں کو دیکھ کر نہیں اپنے خیالات اور حالات کے مطابق طے کرنا
ہوتی ہے۔ اگر آپ ڈاکٹر بننا یا سپیشلائز کرنا چاہ رہے ہیں اور کوئی دوسرا
شخص کاروبار کرنا چاہ رہا ہے تو آُپ دونوں ہی کامیاب ہونا چاہ رہے ہیں مگر
آخر میں جو کامیابی سے نتیجہ لینا ہے وہ آُ پ ونوں کا ہی ایک دوسرے سے جدا
ہو گا۔
کامیابی کے لئے سب سے مشکل جنگ ہر انسان کی ہی اپنے دماغ کے ساتھ ہوتی ہے۔
ککیونکہ ہر بڑے شخص کی زندگی میں جدوجہد کی ابتداء میں حالات اس طرح کے تھے
کہ اس کے لئے اپنی خواہش کردہ کامیابی تک پہنچنا دیوانے کا خواب تھا۔ مگر
اگر دیکھا جائے تو حالات نے نہیں آپکے دماغ نے آپکو آگے بڑھنے والے حالات
پیدا کرنے کے قابل بنانا ہوتا ہے۔ حالات آپ خود بناتے ہیں اور ذیادہ تر
کوشش والے وقت میں آپ کے ارد گرد کی دنیا جتنے آپکے حالات خراب کرنے کی
کوشش کر سکتی ہے وہ کرتی رہتی ہے۔
اس مرحلے پر آپ کے خیالات ہ وہ واحد سہارا ہوتے ہیں جو آپ کو سب طوفانوں سے
نکلنے کا راستہ بنانے پر اکساتے ہیں۔ خیالات کی طاقت کا اندازہ اس بات سے
لگا لیجئے کہ کسی دوسرے سے ملیں اور وہ آپ کو شکایات کا پلندہ سنائے تو آپ
کا ذہن بھی اپنے وہی حالات کھنگالتا ہے جو کہ آپ کے لئے تکلیف دہ ہوں۔ جب
آپ کسی ایسے شخص سے ملیں جو اپنے اچھے حالات سنائے ویسے تو ایسا بہت کم
ہوتا ہے۔ مگر آپ جتنی جلدی اپنے بر ےحالات کو خیال میں لانے کے لئے کرتے
ہیں اتنی جلدی اچھے خیالات نہیں لا سکتے۔ کیونکہ اچھے خیالات اور سوچ نرم
پھولوں کی مانند ہوتے ہیں اور برے خیالات کانٹوں کی مانند ہوتے ہیں جو بہت
جلد آپ کے دماغ پر حاوی ہونے لگتے پیں کیونکہ وہ آپ کو چبھتے اتنی زور سے
ہیں۔
اسی طرح خبریں سن کر دیکھ لیں آپ کو کبھی بھی اچھی خبریں یاد نہیں رہتیں
ایک تو یہ کہ وہ ہوتی بہت کم ہیں پھر یہ بھی ہے کہ اچھی ہوتی ہیں اسی لئے
اچھی یادیں اور خیالات ذہن میں ہوں بھی تو موجودگی کاپتا نہیں دیتے جتنی
جلدی آپ کو برے خیالات یہ بتا دیتے ہیں کہ وہ موجود ہیں۔ اسی لئے اچھے
خیالات کو دماغ میں ڈالنا تو ایک طرف کی محنت ہے مگر دوسری طرف ان کو اپنے
دماغ میں روکے رکھنا مزید دقت طلب کام ہے۔ جس طرح ہمارے جسم کو روزانہ کی
بنیاد پر کیلشیم اور منرلز کی ضرورت پڑتی رہتی ہے بالکل اسی طرح ہمارے دماغ
کو بھی روزانہ کی بنیاد پر اچھے خیالات کی دوا درکار ہوتی ہے۔
اس دوا کو ہم اچھے لوگوں اور اچھی کتابوں اور اچھی باتوں سے اپنے اندر
منتقل کر سکتے ہیں مگر اس کے لئے بھی ایک رویہ اپنانا پڑتا ہے ہم لوگ اتنی
ذیادہ آلودگی کو جسم و دماغ میں داخل کرتے رہنے کے عادی ہیں کہ کوئی تازگی
بھرا خیال دماغ کی پکڑ میں لانا بہت مشکل ہوتا جاتاہے۔ اچھا خیال خیال کر
لے لانا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔ دنیا کے سب کامیاب لوگ خیال کے زور پر ہی
کامیابی تک پہنچے۔
|