حضرت شیخؒ بلند پایہ عالم دین،
مفسر قرآن، محدث، فقیہ، سلسلہ قادریہ کے عظیم الشان پیرومرشد ہونے کے ساتھ
ساتھ ہمہ جہت معتدل، غیر متعصب رجال دین میں سے تھے۔
آپ کی جائے ولادت ولند رہے، جو ضلع شانگلہ (سوات) کی ایک مشہور اور معروف
بستی ہے، ۱۳۴۵ھ کو آپ کی ولادت ہوئی بعد میں ۱۳۶۳ھ کو آپ کا خانوادہ ولندر
سے شاہ پور منتقل ہوا، جو ولندر سے نو میل کے فاصلے پر ہے، شاہ پور حضرت
شیخ کی مساعی جمیلہ اور محنت وبرکت سے آج علم وعمل کے حوالے سے بقعۂ نور
بنا ہوا ہے۔
حضرت شیخ رحمہ اﷲ کے والد محترم جناب دوست محمد خان ولد امیر محمد خان
علاقے کے مشہور خوانین میں سے ایک تھے، سوات جب ایک مستقل ملک تھا اور
’’مملکت خداداد یوسف زئی آف سوات‘‘ یہاں کا سرکاری نام تھا اس وقت دوست
محمد خان کمانڈر آفیسر یعنی کور کمانڈر کے عہدے پر فائز تھے۔ پھر مجلس شوریٰ
(قومی اسمبلی) کے ممبر اور بعد میں چیئرمین (سپیکر) کا عہدہ آپ کے پاس رہا۔
خاندانی لحاظ سے یہ خانوادہ خانوادہ خوانین ہی رہا۔ والد کی طرف سے آپ پٹن
خیل اور والدہ کی طرف سے دولت خیل تھے۔
تعلیم کاآغاز آپ نے ۱۳۶۳ھ میں فرمایا جو کہ ۱۳۷۳ھ کو اختتام پذیر ہوا ،
گویا گیارہ برس میں آپ نے اپنی تعلیم مکمل فرمائی، ۱۳۷۶ھ میں آپ نے
راولپنڈی کی طرف رختِ سفر باندھا جہاں آپ نے حضرت شیخ القرآنؒ سے مکمل
تفسیر پڑھنے کی سعادت حاصل کی، اور انہی کے طرز پر آپ آخر وقت تک دورۂ
تفسیر پڑھانے میں مصروف رہے، ۱۳۸۳ھ کے رمضان المبارک کے بعد پنج پیر جاکر
مختصر دورۂ تفسیر (جو خاص بالعلماء ہوتا ہے) میں شرکت فرمائی۔
آپ کے تمام اساتذہ کرام کی مکمل فہرست حضرت مولانا محمد فاروق حسن زئی صاحب
نے نثر المرجان کے اردو ترجمہ ’’بکھرے موتی‘‘ کے مقدمہ میں سپرد قلم کی ہے،
یہاں اتنا اشارہ دوں گا کہ حضرت شیخ القرآنؒ مولانا محمد افضل خان صاحب کو
اپنے اساتذہ میں مذکورہ شیخین کے علاوہ سب سے زیادہ محبت راقم الحروف کے
قبیلے کے مشہور بزرگ مولانا خان بہادر المعروف (مارتونگ باباجی) رحمہ اﷲ
شیخ الحدیث وصدر المدرسین دارالعلوم اسلامیہ سید وشریف اور حضرت مولانا
عبدالغفور المعروف بہ شینٹر مولوی صاحب رحمہ اﷲ صدر المدرسین دارالعلوم چار
باغ سے تھی، دورۂ تفسیر میں گاہے گاہے علماء دیوبند کے تمام مشائخ کے علاوہ
ان کانام ذکر فرماتے رہتے۔
۱۳۷۳ھ میں جب آپ نے سند فراغت وفضیلت حاصل کی تو آپ نے اپنے گاؤں شاہ پور
میں دارالعلوم تعلیم القرآن شاہ پور کی بنیاد رکھی اور درس وتدریس کا سلسلہ
شروع فرمایا، اور ساتھ ہی آپ نے رد شرک وبدعت اور ابطال رسومات میں بھی بڑھ
چڑھ کر حصہ لیا، اﷲ جل شانہ نے آپ کو اس میدان میں بھی کامیابی عطا فرمائی
جو بظاہر ان دووجہوں سے تھی:
۱- تمام علوم وفنون میں آپ کا رسوخ۔
۲- خاندانی رعب ودبدبہ۔
بہرحال جمیع علوم وفنون میں مہارت تامہ کے باوجود آپ نے اختصاص کے لئے علم
تفسیر کو منتخب کیا جس کو آپ نے ہر وقت کا مشغلہ اور زندگی کا سب سے بڑا
ہدف بنایا، جس کی بناء پر اﷲ تعالیٰ نے آپ کو تفسیر میں خاص ذوق اور ملکہ
عطا فرمایاتھا۔
تصانیف:
۱- نثر المرجان ،جس کا اردو ترجمہ (بکھرے موتی ہے) مولانا محمد فاروق حسن
زئی صاحب فاضل بنوری ٹاؤن نے کیا ہے۔ عربی میں بھی یہ مختصر تفسیر جدید
کتابت وطباعت کے ساتھ طبع ہوچکی ہے۔
۲- افضل التراجم بلغۃ الاعاجم: یہ پشتو زبان میں قرآن کریم کا جامع ترجمہ
وتفسیر ہے۔
۳- تسہیل مثنوی: منتخبات مثنوی کی شرح ہے۔
۴- المنہاج الواضح: عقائد، فقہ، اخلاق اور آداب پر مشتمل ہے۔
اولاد:
حضرت استاذِ مکرم ومعظم نے دو شادیاں کی تھیں جن میں سے ایک کے بطن سے
مولانا محمد انور اور قاری عبیداﷲ صاحب ہیں اور دوسری کے بطن سے عیسیٰ،
عاصم اور ابوہریرہ ہیں۔ آپ کے بڑے صاحبزادے مولانا محمد انور صاحب ایک جید
عالم دین، مفسر قرآن اور اپنی مثال آپ ہیں۔ تبلیغی جماعت اور جمعیت علماء
اسلام سے گہرے روابط ہیں، آپ صالح علماء میں سے ہیں ، جو حضرت شیخ کے
بہترین جانشین ہیں۔
زہد وتقویٰ اور دیگر خصائص:
۱۳۸۵ھ میں بندہ نے آنجناب سے شرف تلمذ حاصل کیا، عمر تو بہت ہی کم تھی مگر
اس کے باوجود مشکلات القرآن جو حضرت شیخ تلامذہ سے باقاعدہ سماعت
فرمایاکرتے تھے ، میں ایک روز چھوڑکر سناتا، اس پر حضرت شیخ اور دیگر حاضر
درس علماء شاباش دیتے اور حضرت فرماتے ’’اس بچے کے صحیح اور سریع سنانے سے
میرا دل خوش ہوجاتا ہے‘‘ اور آج تک جب بھی کہیں ملاقات ہوتی، میرے اس سنانے
کا اظہار فرما کر دعا فرماتے۔
آپ انتہائی شفیق، متواضع، کثیر العبادت، قائم اللیل اور بڑے ذاکر وشاغل
تھے، آپ کے اندر محبت الٰہیہ کا جوش اور انابت کی خاص کیفیت ہوتی تھی، آپ
کے منور چہرے پر افتقارالی اﷲ واستغناء من الخلق اور عجز وملنساری نمایاں
رہتی تھی، آپ اذان خود دیتے تھے اور اس عمل کو آپ نے اپنے لئے واجب قرار
دیا تھا، آپ جب بھی کسی سے ملتے یا آپ سے کوئی ملتا تو وہ محسوس کرتا کہ
گویا آپ سب سے زیادہ اسی سے محبت فرماتے ہیں، حد درجہ بے ضرر اور ہر شاگرد
سے محبت فرماتے تھے۔ بلاامتیاز ہر شاگرد کی دعوت قبول فرماتے، ان کے ہاں
جاتے اور کسی رشتہ دار کی طرح تمام حال احوال پوچھتے اور دعا فرماتے ہمارے
تمام ساتھیوں کو یہ بات معلوم تھی کہ حضرتؒ مستجاب الدعوات ہیں، اس لئے ان
سے دعائیں کراتے تھے، حضرت شیخ بزرگوں اور اہل علم کا بہت ہی اکرام فرمایا
کرتے تھے، اکثر ایسا ہوتا تھا کہ کسی لائق فائق عالم یاشیخ کے بارے میں
سنتے تو خود ان کے گھر پیشگی اطلاع دے کر ان کے ہاں تشریف لے جاتے، یہاں
جامعہ فاروقیہ کراچی حضرت شیخ صاحب دامت برکاتہم کی خدمت میں بارہا حاضر
ہوئے نیز شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی صاحب زید مجدہم کی خدمت
میں جاتے اور ان سے انتہائی محبت فرماتے تھے۔ جب بھی بنوری ٹاؤن تشریف لے
جاتے، حضرت بنوری کے مزار پر جاکر ایصالِ ثواب کے لئے فاتحہ واخلاص پڑھتے۔
خصوصیات دورہ ٔ تفسیر قرآن کریم:
اﷲ تعالیٰ نے آپ کو اپنی عظیم کتاب قرآن کریم کی خدمت کے لئے چن لیا تھا،
چنانچہ تقریباً ۴۰ سال تک آپ دورۂ تفسیر پڑھانے کی سعادت حاصل کرتے رہے۔
ہرسال ہزاروں تشنگانِ علوم اس چشمۂ فیض سے سیراب ہوتے۔ شاہپور کے دورۂ
تفسیر کے علاوہ بیس سال تک آپ کراچی میں دورۂ تفسیر پڑھاتے رہے، جو ہر سال
رجب کے مہینے میں منعقد ہوا کرتا تھا، اس دورہ میں بھی کثیر تعداد میں وہ
طلبہ اور ائمہ مساجد شریک ہوتے جنہوں نے پہلے یا تو تفسیر کسی دورے میں
پڑھی ہی نہیں ہوتی تھی یا وہ شاہ پور کے تفصیلی دورہ تفسیر میں شرکت سے
معذور تھے۔ یہ موقع اہلیانِ کراچی کے لئے ایک سنہری موقع ہوا کرتا تھاکہ
بغیر سفر کے تکالیف برداشت کئے ان کو گھر بیٹھے یہ عظیم نعمت حاصل ہوجاتی
تھی، آپ کا درس بڑا پرکیف اور جاذب القلوب ہوا کرتا تھا اور درج ذیل
خصوصیات کا بالخصوص حامل تھا:
آپ مضامین قرآن کو انتہائی سہل انداز میں اس طرح بیان فرماتے کہ ایک عام
آدمی بھی آسانی سے سمجھ لیتا۔
مشکلات قرآن یعنی آیتوں کی تمام توجیہات کو طلبہ سے بااہتمام یاد کرواتے
اور بذاتِ خود طلبہ سے سماعت فرماتے، یہی چیز تفسیر میں مشکل ہوا کرتی ہے،
باقی قصص اور امثال تو آسان ہی ہوا کرتے ہیں۔
مشکلات قرآن حفظ کرانے کے ساتھ ساتھ آپ مشکل مسائل فقہ، ان کی تنقیح اور
مذاہب ائمہؒ دلائل کے ساتھ سہل انداز میں ذہن نشین کرواتے۔
صرف، نحو، معانی، بیان، بدیع، منطق، فلسفہ، اصول فقہ اور دیگر فنون کی
تعلیم تو آپ کے درس کا طرۂ امتیاز تھا۔ جس سے طلبہ ان فنون کے مشکل مسائل
کو یاد کرتے اور ان فنون میں طلبہ کا شوق روز افزوں ہوتا۔
ان علمی خصوصیات کے علاوہ آپ طلبہ کی تربیت پر بہت زیادہ توجہ فرمایا کرتے
تھے، چنانچہ آپ دورانِ درس اعمال، اخلاق، اخلاص اور تواضع کی ایسی ترغیب
اور تلقین فرماتے کہ طلبہ کو ان کی توفیق ہوجاتی۔ بزرگان دین اور علماء
دیوبند کے علم وعمل اور اخلاص کے واقعات سناتے، جس کی وجہ سے طلبہ میں اہل
اﷲ اور اکابرین دیوبند بالخصوص شیخ العرب والعجم حضرت مدنی اور حکیم الأمہ
حضرت تھانوی سے محبت کا ایک ولولہ پیدا ہوتا۔
حضرت شیخ کا درس حسد، تعصب، بے جا تنقید، تحقیر وتنقیص سے پاک ہوا کرتا
تھا، آپ کسی عالم ، دینی ادارے اور حق جماعت پر تنقید نہیں فرماتے تھے،
علماء حق کا آپس میں کسی بھی قسم کا جو اختلاف ہوتاتھا، اس کا تذکرہ نہیں
فرماتے تھے، بلکہ اس کی مثال یوں دیتے تھے کہ علماء کرام سب پھول ہیں، جس
طرح پھولوں میں بعض کا رنگ سرخ، بعض کا سفید اور بعض کاکالا ہے اسی طرح
علماء کرام بھی ہیں، سرخ اور سفید پھول کو ایک دوسرے پر تنقید کا حق ہے ،
لیکن ہمارے لئے سب پھول قابلِ احترام ہیں، یہ سب ایک مشین کے مختلف پرزے
ہیں، ان کے مقاصد میں ذرہ بھر بھی اختلاف نہیں، اس بات کا اثر یہ نکلا کہ
آپ کا ہر شاگرد وسیع النظر اور کشادگی ظرف کا حامل ہے۔ جمعیت علماء اسلام
کا جھنڈا ہمہ وقت ان کے مہمان خانے پر لہراتا رہتا ہے، حضرت مولانا فضل
الرحمن صاحب کی آمد پر بنفسِ یفنس اور پورے دید والوں کو استقبال کے لئے
سڑک کے کنارے جمع فرماتے، حضرت شیخ القرآن فرمایا کرتے تھے کہ ایک علاقے
میں ایک ربانی عالم اشاعت دین کا کام کررہا ہے، اور وہاں پر کوئی دوسرا
عالم دین کا کام شروع کرے تو اگر اس کام سے پہلے والے عالم کو خوشی ہو تو
ثابت ہوا کہ وہ سب کچھ اﷲ کے لئے کررہا تھا، لیکن اگر اس نے اپنے آپ کو
وحدہ لاشریک سمجھ کر دوسرے عالم پر تنقید شروع کردی تو یہ اس بات کی دلیل
ہوگی کہ یہ جو کچھ بھی کررہا تھا، اپنی شہرت اور ناموری کے لئے کررہا تھا۔
اسی لئے کوثر کیرانوی نے کیا ہی خوب کہا ہے:
اب گاؤں کے بوڑھوں کو بھی کہتے نہیں سنتے
نیکی جو کرو تم، اسے دریا میں بہادو
اس دور میں سچ بولنے والے ہیں بہت کم
یہ لوگ عجوبہ ہیں ، صلیبوں پہ چڑھا دو
کردار فروشوں کے بھی ہاتھوں میں قلم ہیں
ایسا نہ ہو تم ہاتھ سے تلوار گرا دو
ہر حال میں گلشن کے وفادار رہیں گے
کوثر یہ نئی نسل کے ذہنوں میں بٹھا دو
اللھم لاتحرمنا أجرہ ولا تفتنّا بعدہ․
(ضرب مومن: ۱۷-۱۰ محرم ۱۴۲۳ھ)
(افضل السوانح، مولانا عبدالرحیم،ص:۱۲۳) |