مذاکرات مخالفوں نے مذاکراتی عمل میں خلل ڈال دیا!

ہر لڑائی کا اختتام مذاکرات پرہی ہوتا ہے یہی نکتہ ہم برسوں سے عوام تک پہنچانے کی اپنی سی کوشش کرتے رہے ہیں معلوم نہیں کہ اس خیال کے پیچھے ہماری صلح پسند طبعیت کا داخل ہے یا قوم کی زبوحالی دیکھ کر ہمارا ضمیر ایسا کرنے پرہمیں مجبور کرتا رہتا ہے کچھ بھی ہواس بات کی مذید تاہید ایک دانشور نے اپنے اخباری بیان میں واضع کر دی ہے کہ تجربہ بتاتا ہے دنیا میں۸۰ فی صدلڑائیوں کا اختتام مذاکرات پر ہی ہوتا رہا ہے اسی لیے تو دنیا کے ملکوں نے اقوام متحدہ کا ادارہ قائم کیا تاکہ تنازات کا فیصلہ فریقین سے بات چیت کر کے کیا جائے۔ سابق آرمی چیف (ر) جنرل مرزا اسلم بیگ جو طالبان سے مذاکرات کے حامی ہیں اور فوج کو مذید اپنے ہی شیریوں کے خلاف الجھنے کے مخالف ہیں کا بیان بھی اخبارات کی زینت بنا کہ وزیرستان آپریشن کی بات کرنے والے امریکی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ انسٹی ٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز(تھنک ٹینک) کے سربراہ پروفیسر کر خورشید احمد نے بھی کہا ہے کہ اس وقت طاقت ور لابیاں ایک خاص زاویہ بنانے اور جذباتی ماحول بنانے کے درپے ہیں تا کہ پاک فوج کو ایک ایسے آپریش میں جھوک دیں جو اُباما اور جان کیری کیdo more( اور مارو) کی پالیسی کی تعمیل ہو نا ہے تاکہ امریکہ کے افغانستان سے جانے کے بعد افغانستان اور ساتھ ساتھ پاکستان بھی آگ میں جلتا رہے ۔ طالبان مذاکرتی کمیٹی کے ممبر پروفیسر ابراہیم صاحب کا کہنا ہے کی مہمند ایجنسی کا واقعی ۴ سال پرانا ہے اس کا جواز بنا کر آپریشن شروع کیا گیا ہے۔رکن قومی اسمبلی اعجاز الحق نے کہا ہے طالبان سے زیادہ بیرونی ایجنٹ ملوث ہیں۔

ادھر کئی دنوں سے شمالی وزیرستان اور فاٹا کے دوسرے علاقوں پر پاک فضایہ کے جٹ طیارے اور گن شپ ہیلی کاپٹر مسلمل بمباری کر رہے ہیں ذرائع کا کہنا ہے کہ عین اس وقت سی آئی اے کے سربراہ کا خفیہ دورہ اور آرمی چیف سے ملاقات اور فاٹا پر اپٓریشن سمیت حساس معاملات پر تبادلہ خیال افغان سرحد بند کرنے پر بات ہایء ہے ساتھ ہی ساتھ امریکا کی طرف پاک فوج کے لیے کولیشن فنڈ کے ساڑھے تین سو ملین ڈالر بھی ادا کر دیے گئے ہیں ۔امریکی اخبار کے مطابق شمالی وزیرستان میں کسی وقت بھی آپریشن شروع ہو سکتا ہیآپریشن میں حقانی نیٹ ورک کا خاتمہ کیا جائے گا ۔ ۔ ۔ ۔

صاحبو! ہم سب کو معلوم ہے کہ امریکا کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کر کے حقانی نٹ ورک کے مجائدین کو نیست نابود کر دیا جائے۔اس کے خیال میں افغانستان سے انخلاء کے بعد حقانی نٹ ورک کی مدد سے طالبان پھر اپنی حکومت قائم کر لیں گے-

مولانا فضل الرحٰمان بھی کہتے ہیں مذاکرات پر مفاہمت ہوئی تھی آپریشن پر نہیں ہوئی تھی-

علماء کونسل کے سربراہ نے بھی حکومت اور طالبان کو اﷲ کے نام پر جنگ ختم کرنے کی اپیل کی ہے-

اسی طرح دعوت ارشاد کے پروفیر سعید بھی آپریشن کے خلاف ہیں منور حسن صاحب کہتے ہیں کہ وازت داخلہ کا بیان کہ امریکہ ہمیں تنہا اور بے یارو مدد گار چھوڑ کر نہ جائے، انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ہے دشمنوں سے مدد اور خیر خواہی کی امید رکھنا اپنے آپ کو دھوکہ کے مترادف ہے یہ وازات خارجہ کی کمزوری ہے کہ پاکستان امریکہ پر انحصار کیے بیٹھا ہے ۔ اسلام دشمن حالات کو پوائنٹ آف نوریٹرن پر لے جانے چاہتے ہیں جماعت نے ہمیشہ فوج کے شانہ بشانہ قربانیاں دیں فوج اور حکومت کی پیٹھ ٹھونکنے والوں کا ماضی سب کو پتہ ہے تمام جماعتوں نے فوجی آپریشن کی مخالفت کی تھی مذاکرات کو مسئلے کا حل قرار دیا تھا ملک دو لخت کرنے والے پھر عزائم پورے کرنا چاہتے ہیں۔

صاحبو ! ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے ملک میں موجودہ جاری تنازہ کی وجہ اصل افغانستان کی جنگ میں ایک فون کال پر اس کا اتحادی بن جانے سے شروع ہوئی افغانستان میں کشمکش کی وجوہات کچھ بھی ہوں ہم اس وقت اُن کو زیر بحث نہیں لانا چاہتے ہمیں تو اپنے ملک کی زبوحالی پر تشویش ہے ہمارے پچاس ہزار شہری ،پائچ ہزار فوجی شہیدہو چکے ہیں ہمارے ملک کا سوارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے ہمارے فوجی ہیڈ کواٹر، نیوی ،ایئر فورس، پولیس ،مساجد، چرچ، مزارات، بازار،اسکول،کھیل کی ٹیموں پر حملے ہو چکے ہیں اب بھی ہمارے مقتدر حلقوں آنکھیں نہیں کھل رہیں کہ گذشتہ آپریشنوں کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا اب اسے مذاکرات کر کے نفرتوں کو ختم کریں یا مذید آپریشز کر کے آگ کو مذید بھڑکائیں۔ بجائے اس آگ پر جلد پانی ڈالنے کے حکومت نے ایک اسکورٹی پلان کابینہ سے پاس کرنے کے بعد پارلیمنٹ کے سامنے رکھ دیا ہے جس پر ڈیبیٹ ہونا ہے ٹھیک ہے یہ لانگ ٹرم پروگرام کے تحت تو ٹھیک ہے مگر ملک میں جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے فوری اقدامات بھی ضرورت ہے حکومت کے مطابق اسکورٹی پلان قومی سلامتی کا پروگرام ہے ن لیگ کا نہیں ہے اپوزیش لیڈر خورشید شاہ نے اس پالیسی کو کنفیوژ قرار دیا حکومت نے کہا کہ اگر کچھ کنفیوژن ہے تو اسے دور کریں گے۔ ۔ ۔ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں بیان دیا کہ ہم نے مذکراتی عمل کو میڈیا پر پیش کیا گیا مگر اس عمل کو حکومت کی کمزروری سمجھا گیااور طالبان نے مذاکراتی عمل کو بے معنی بنا دیا ریاستی رٹ بہر حال قائم کی جائے گی طالبان کو غیر مشروت جنگ بندی کرنا ہو گی ۔ ہاشمی صٓاحب نے کہا حکومت خود کنفیوژن کا شکار ہے آپریش پر سب کو شامل کرنا چاہیے تھا مولانا فضلل لرحٰمان نے کہا کہ اتفاق تو مذاکرات پر ہو تھاآپریش پر نہیں ہوتھا۔ شیر پاؤ نے کہاواضح پلان نہیں ہے -

صاحبو ! ہمیں یاد ہے کہ اس سے قبل سوات میں ایک خاتون پر طالبان کے کوڑوں کے جوٹھے ڈرامے کی بنیاد پر پورے سوات میں آپریشن کیا گیا تھا جسے عدالت نے اپنے فیصلے میں غلط کہا تھا ؒ جس کے اثرات اب تک ملک بگھت رہا ہو پھر ملالہ کے چھوٹے واقعے پر شمالی وزیرستان پر حملے کی کوشش کی گئی تھی جیسے مذاکرات مخالف گروپ اس وقت بھی فوج کو ہلہ شیری دیتے رہے مگرکامیاب نہ ہو سکے تھے اب پھر فوج کو شمالی وزیرستان میں پھنسانے کی کوشش کر ر ہے بلکہ ٹیک اورکرنے یعنی (مارشل لاء) کی دعوت تک دی ہے اور جمہوریت پسند سیاسی پارٹیوں نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے بلکہ سندھ اسمبلی میں امن کی حامی سیاسی قوتوں پر پابندی کی قرارداد پاس کی ہے-
Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1130 Articles with 1093944 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More