حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ
اپنی کتاب حیات الصحابہؓ میں نقل کرتے ہیں حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاصؓ
فرماتے ہیں حضرت ابو بکر صدیقؓ نے جمعہ کے دن کھڑے ہو کر فرمایا جب صبح ہو
تو تم صدقہ کے اونٹ ہمارے پاس لے آؤ ہم انہیں تقسیم کریں گے اور ہمارے پاس
اجازت کے بغیر کوئی نہ آئے ایک عورت نے اپنے خاوند سے کہا یہ نکیل لے جاؤ
شاید اﷲ تعالیٰ ہمیں بھی کوئی اونٹ دیدے چنانچہ وہ آدمی گیا اس نے دیکھا کہ
حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ اونٹوں میں داخل ہو رہے ہیں یہ بھی ان دونوں
حضرات کے ساتھ داخل ہو گیا حضرت ابو بکرؓ نے اسے دیکھ کر فرمایا تم ہمارے
پاس کیوں آگئے پھر اس کے ہاتھ سے نکیل لے کر اسے ماری جب حضرت ابوبکرؓ
اونٹوں کی تقسیم سے فارغ ہوئے تو اس آدمی کو بلایا اور اسے نکیل دی اور
فرمایا تم اپنا بدلہ لے لو تو حضرت عمرؓ نے ا ن سے کہا اﷲ کی قسم یہ آپ سے
بدلہ بالکل نہیں لے گا آپ اسے مستقل عادت نہ بنائیں (کہ امیر تنبیہ کرنے
کیلئے کسی کو سزا دے تو اس سے بدلہ لیا جائے) حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا مجھے
قیامت کے دن اﷲ سے کون بچائے گا (ان حضرات میں اﷲ کا خوف بہت زیادہ تھا)
حضرت عمرؓ نے کہا آپ (اسے کچھ دے کر) راضی کر لیں حضرت ابو بکرؓ نے اپنے
غلام سے کہا تم میرے پاس ایک اونٹ ،اس کا کجاوہ ، ایک کمبل اور پانچ دینار
لاؤ چنانچہ یہ سب کچھ اس آدمی کو دے کر اسے راضی کیا۔
قارئین! جس دین کو ہم مانتے ہیں اور جس نبیؐ کا کلمہ پڑھتے ہوئے ہم ہر نماز
میں اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں ان لوگوں کے راستے پر چلا جن پر
تیرا انعام ہوا ان تمام برگزیدہ ہستیوں کی زندگیوں کو بغور پڑھیں تو پتہ
چلتا ہے کہ وہ لوگ اس بات کا دل سے یقین رکھتے تھے کہ انہوں نے ایک دن اپنے
مالک کے دربار میں حاضر ہو کر اپنے اعمال کا جواب دینا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ
اپنی زندگی کے ہر لمحے میں اپنے ہر فعل کے متعلق انتہائی محتاط اور فکر مند
رہا کرتے تھے دانش کی باتیں ڈھونڈنے نکلیں تو ایسے ایسے جملے اور محاورے
ہیں کہ اگر ہم ان کے مطلب اور مفہوم پر غور کرنا شروع کریں تو ذہانت، دانش
اور حکمت کے نت نئے نکتے سامنے آتے ہیں ایک آزاد آدمی کی زندگی کیا ہوتی ہے
اور اس کی زندگی کا ہر لمحہ کتنا روشن اور کتنا خوبصورت ہوتا ہے اس کی قدر
کسی غلام سے پوچھیے حضرت عمرؓ نے غلامی کی رسموں کا خاتمہ کرتے ہوئے یہ
تاریخی جملہ کہا تھا ’’مائیں اپنے بچوں کو آزاد جنتی ہیں کسی کو کس نے یہ
حق دیا کہ وہ ان کو غلام بنائے‘‘
قارئین! آج کے موضوع سے آپ نے یقینا اندازہ لگا لیا ہو گا کہ آج کے کالم
میں کیا باتیں زیر بحث آئیں گی رواں ہفتے آزاد کشمیر کے بالائی پہاڑی علاقے
بلوچ میں ضمنی انتخابات منعقد ہوئے انتخابات سے پہلے وفاقی حکومت اور آزد
حکومت کے درمیان الفاظ کی جنگ چلتی رہی وفاقی وزیر امور کشمیر وگلگت
بلتستان چودھری برجیس طاہر نے ایک تمثیلی انداز میں پنجابی محاورے کے مطابق
بلوچ میں صدر، وزیراعظم آزاد کشمیر، گیارہ سے زائد وزرائے کرام، درجنوں
مشیروں اور کوآرڈینیٹرز کی طرف سے پیپلز پارٹی کے امیدوار قانون ساز اسمبلی
فہیم اختر ربانی کی الیکشن کمپین میں شمولیت کو ’’کیڑوں مکوڑوں‘‘ جیسی حرکت
اور پیش رفت قرار دیا اس پر وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید اور ان
کے دیگر تمام چاہنے والوں نے وفاقی وزیر امور کشمیر کے ’’ کھنے‘‘سیک کے رکھ
دیے اور گرمیٔ گفتار میں اس حد تک بات بڑھی کہ پیپلز پارٹی کے الیکشن کمپین
کے آخری جلسے میں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے یہاں تک الفاظ ادا کر دیئے
کہ ’’وزیر امور کشمیر ہمارے حاکم نہیں بلکہ خدمتگار ہیں اور ہم انہیں پٹہ
ڈالنا جانتے ہیں‘‘ الیکشن سے پندرہ گھنٹے قبل راقم نے استاد محترم راجہ
حبیب اﷲ خان کے ہمراہ ایف ایم 93 میرپور ریڈیو آزاد کشمیر کے مقبول ترین
پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنید انصاری‘‘ میں پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے صدر
اور وزیر اعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید، مسلم لیگ ن کے صدر راجہ فاروق
حیدر خان سابق وزیراعظم اور سردار عتیق احمد خان صدر مسلم کانفرنس سے ایک
خصوصی انٹرویو میں شرکت کی درخواست کی تاکہ ریڈیو کی و ساطت سے بلوچ کے
حلقے میں گرمیٔ گفتار کی وجہ سے بھڑکنے والے شعلوں کو کسی طریقے سے سرد کیا
جا سکے ان تینوں معزز شخصیات نے پروگرام میں حصہ لینے پر رضا مندی ظاہر کر
دی پروگرام سے ایک گھنٹہ قبل وزیراعظم آزاد کشمیر کے میڈیا ایڈوائزر مشیر
سید عزادار حسین شاہ نے ہم سے رابطہ کر کے کہا کہ وزیراعظم آزاد کشمیر
چوہدری عبدالمجید یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اس انٹرویو میں ان کی نمائندگی
پیپلز پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری اور وزیر خزانہ چوہدری لطیف اکبر کریں
گے اور وزیراعظم چوہدری عبدالمجید 22 فروری کے الیکشن کے بعد ایف ایم
93میرپور ریڈیو آزاد کشمیر بنفس نفیس تشریف لا کر دو گھنٹے براہ راست
انٹرویو دیں گے قصہ مختصر اس ٹاک شو میں سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان
نے کھل کر بات کی چوہدری لطیف اکبر نے اپنا موقف پیش کیا اور آزاد کشمیر
نیوز پیپرز سوسائٹی کے صدر عامر محبوب نے انتہائی شاندار انداز میں اپنے
تجزیہ کے ذریعے حالات اور واقعات کے ساتھ مستقبل کے منظر نامے کے متعلق کچھ
پیشگوئیاں کیں اور وہ پیشگوئیاں حیران کن طور پر تقریباًسو فیصد درست ثابت
ہوئیں پیپلزپارٹی آزادکشمیر کے مرکزی جنرل سیکرٹری اور وزیرمالیات چوہدری
لطیف اکبر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ آزادکشمیر کاسیاسی
ماحول خراب کرنے میں وزیرامور کشمیر چوہدری برجیس طاہر کابنیادی ہاتھ اور
ان کاذاتی ایجنڈہ کارفرما ہے آزادکشمیر میں بلوچ کے ضمنی انتخابات میں
منصوبہ بندی کے تحت دھاندلی کرتے ہوئے آزادکشمیر حکومت سے اجازت لیے بغیر
رینجرز تعینات کیے گئے یہ وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید کو چیلنج
کرنے کے مترادف ہے کہ عوامی مینڈیٹ کی توہین کرتے ہوئے بغیر کسی ضرورت کے
بلوچ کے الیکشن میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے رینجرز کو بلوایا
گیا ہم وزیراعظم پاکستان میا ں محمدنوازشریف سے اس معاملے پر رابطہ کررہے
ہیں اور ہم اس پر شدید ترین احتجاج کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں چوہدری لطیف
اکبر نے کہاکہ شہید جمہوریت محترمہ بینظیر بھٹو نے موجودہ وزیراعظم پاکستان
میاں محمدنوازشریف کے ساتھ میثاق جمہوریت نام کی ایک مقدس دستاویز تشکیل دی
تھی اور میاں محمدنوازشریف نے مفاہمت کے اسی مسودے پر عمل کرتے ہوئے گزشتہ
دنوں سندھ تھر کول پراجیکٹ کے افتتاحی پروگرام میں سابق صدر پاکستان اور
پیپلزپارٹی کے قائد آصف علی زرداری کے ساتھ مل کر اس عظیم منصوبے کاسنگ
بنیاد رکھا پورے پاکستان میں مختلف قومی منصوبہ جات میں مسلم لیگ ن کی
وفاقی حکومت اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی کو آن بورڈ رکھ کر چل رہی ہے لیکن
آزادکشمیر میں ایک منصوبہ بندی کے تحت پہلے تو وفاقی وزیر امور کشمیر نے
ہمیں کیڑے مکوڑے کانام دے کر کشمیری قوم کی توہین کی اور اس کے بعد بلوچ کے
الیکشن میں دھاندلی کے لیے رینجرز کی تعیناتی آزادکشمیر حکومت کے مطالبے یا
مشورے کے بغیر عمل میں لائی گئی اس پر ہم شدید ترین احتجا ج کرتے ہیں ایک
سوال کے جواب میں چوہدری لطیف اکبر نے کہا کہ سیاست میں نازیبا گفتگو یا
غلط زبان کااستعمال بے شک نامناسب ہے لیکن عوام اورمیڈیا خود فیصلہ کرے کہ
پہل کس نے کی پیپلزپارٹی کی جڑیں عوام میں ہیں اور بھٹو شہید کی اس جماعت
کو اسٹیبلشمنٹ سے لیکر ڈکیٹرز تک کوئی بھی نہیں توڑ سکا پروگرام میں گفتگو
کرتے ہوئے مسلم لیگ ن آزادکشمیر کے صدر اور سابق وزیراعظم آزادکشمیر راجہ
فاروق حیدر خان نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف ا س وقت
آزادکشمیر کی مجاور حکومت کی کرپشن کے دستاویزی ثبوتوں کے بعد فیصلہ کن
پوزیشن تک پہنچ چکے ہیں میاں محمد نواز شریف نے سیاسی مفاہمت کے تحت
انتہائی سنجیدگی اور بر د باری کے ساتھ سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ
،بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ،صوبہ خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلیٰ کے ساتھ ساتھ
کھلے دل کا ثبوت دیتے ہوئے آزادکشمیر کے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کا بھی
مینڈیٹ تسلیم کرتے ہوئے ان سب کو عزت دی تھی لیکن مجاور حکومت کے کارنامے
اس نوعیت کے ہیں کہ اب کوئی بھی فیصلہ ہو سکتا ہے وزیر امور کشمیر گلگت و
بلتستان آزادکشمیر کے معاملات میں کسی بھی قسم کی ناجائز مداخلت نہیں کر
رہے بلکہ ایکٹ 1974جس کے تحت آزادکشمیر حکومت کا انتظام و انصرام وفاقی
حکومت سنبھال رہی ہے اسی کے تحت جو اختیارات ان کو حاصل ہیں وہ انہیں ایکسر
سائز کر رہے ہیں ایک با غیرت اور باوقار کشمیری ہونے کی حیثیت سے کوئی بھی
وفاقی حکومت اگر کسی بھی قسم کی کوئی ایسی کاروائی کرے جو کشمیری قوم کے
وقار کے خلاف ہو راجہ فاروق حیدر خان اس کی حمایت نہیں کر سکتا لیکن وزیر
امور کشمیر چوہدری برجیس طاہر قانون اور آئین کے عین مطابق بات کر رہے ہیں
اور ان کے خلاف مجاور ٹولہ اور دوسرے درجے کی لیڈر شپ جو نا زیبا زبان
استعمال کر رہی ہے اس کی وجہ سے آزادکشمیر کے سیاسی ماحول میں تیزی آچکی ہے
اور درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ہم نے مجاور حکومت کی طرف سے غلط زبان
استعمال کرنے کے بعد انہیں اسی زبان میں جواب دیا ہے جو زبان وہ سمجھتے ہیں
ہم نہ تو بز دل ہیں اور نہ ہی غلط زبان استعمال کر کے کوئی غلط مثال قائم
کرنا چاہتے ہیں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اپنی پارٹی کی دوسرے درجے کی
قیادت کو کنٹرول کریں راجہ فاروق حیدر خان نے کہا کہ ہم کسی بھی قسم کا
کوئی بھی غیر آئینی قدم اٹھانے کا نہ تو کوئی ارادہ رکھتے ہیں نہ ہی ہماری
ایسی کوئی نیت ہے مجاور حکومت کی کرپشن کہانیوں کے دستاویزی ثبوت وزیراعظم
پاکستان میاں محمد نواز شریف تک پہنچے ہیں جنہیں دیکھ کر وہ حیران رہ گئے
ہیں یہ بات طے ہے کہ 2011کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت
کی مدد سے آزادکشمیر میں کرپشن اور دھاندلی کے ذریعے عوامی مینڈیٹ چوری کیا
تھا اور اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ نئے انتخابات کے ذریعے دودھ کا دودھ اور
پانی کا پانی ہو جائے اور فیصلہ ہو جائے کہ عوام کے نزدیک ان کے قیمتی ترین
ووٹ کا حق دار کون ہے ۔ راجہ فاروق حیدر نے کہاکہ وزیراعظم آزادکشمیر
چوہدری عبدالمجید کو کس حکیم نے یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ وزیر امور کشمیر
چوہدری برجیس طاہر کے استقبال کے لیے کوہالے کے پل پر پانچ وزیروں سمیت ایک
بہت بڑا لشکر بھیجتے ۔میں نے برجیس طاہر سے کھل کر کہا تھا کہ اگر میں
وزیراعظم ہوتا تو میں دیکھتا کہ میرا کونسا وزیر جا کر آپ کا استقبال کرتا
ہے اپنی عزت انسان کو خود کرنی اور کروانی چاہیے ۔چوہدری عبدالمجید کا تو
یہ عالم ہے کہ خوشامد کی انتہا کرتے ہوئے انہوں نے یوم یکجہتی کشمیر کے
موقع پر وزیراعظم پاکستان کو ’’ حضرت میاں محمد نواز شریف ‘‘ کہہ کر مخاطب
کیا اور ہم سب حیران رہ گئے آج وہی وزیراعظم آزادکشمیر اسی زبان کے ساتھ
چوہدری برجیس طاہر کے متعلق نازیبا گفتگوکر رہے ہیں۔
قارئین! بلوچ کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کے امیدوار سردار فاروق طاہر نے
واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کر لی اس فتح کے فوراًبعد وزیراعظم آزاد کشمیر
چوہدری عبدالمجید نے اپنی تمام کابینہ ممبران سمیت اپنی شکست کو دھاندلی کا
نتیجہ قرار دیدیا اور اس کے ساتھ ہی بلوچ کے حلقے میں رینجرز کی تعیناتی کو
چیف سیکرٹری آزاد کشمیر خضر حیات گوندل اور انسپکٹر جنرل پولیس ملک خدا بخش
اعوان کی وزیر امور کشمیر برجیس طاہر سے ملی بھگت قرار دے کر ان دونوں لینٹ
آفیسران کو برطرف کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا اور وفاق کو خط لکھ دیا کہ
یہ دونوں افسران ’’چین آف کمانڈ اور رولز آف بزنس‘‘ کے خلاف کام کرتے رہے
ہیں اس پر ہم انہیں برطرف کرتے ہیں اس کے ساتھ ہی انہوں نے عارضی طور پر
فیاض اختر چوہدری کو چیف سیکرٹری مقرر کرنے کا اعلان کیا اور ڈی آئی جی
فہیم عباسی کو عارضی طور پر آئی جی کا چارج دینے کا فلک شگاف اعلان بھی کر
دیا اس پر وفاقی حکومت کی ایک کیبنٹ میٹنگ اور بعدازاں وزیر امور کشمیر
چوہدری برجیس طاہر کی وزیراعطم پاکستان میاں نواز شریف سے تفصیلی ملاقات کے
بعد جو اعلان وزیر امور کشمیر نے کیا وہ کچھ یوں تھا کہ لینٹ آفیسران کو
تعینات کرنے کا اختیار’’ معاہدہ کراچی‘‘کے تحت وفاقی حکومت اور وزارت امور
کشمیر کا ہے چیف سیکرٹری اور آئی جی کو تعینات کرنا کشمیری حکومت کے اختیار
سے باہر ہے اور اسی طرح ان آفیسران کو برطرف کرنا بھی آزاد کشمیر حکومت کی
پاور میں شامل نہیں ہے اس لیے وفاق خضر حیات گوندل کو چیف سیکرٹری اور ملک
خدا بخش اعوان کو انسپکٹر جنرل پولیس برقرار رکھتے ہوئے انہیں کام جاری
رکھنے کا حکم دیتا ہے اسی اثناء وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید کے
اپنے پسندیدہ اور ہر دلعزیز چیف الیکشن کمشنر جسٹس منیر حسین چوہدری نے
پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ اعلان کر دیا کہ بلوچ کے انتخابات میں رینجرز کو
طلب کرنا ان کا اختیار ہے اور اس سلسلہ میں وہ وزیراعظم آزاد کشمیر سے
مشورہ کرنے کے پابند نہیں ہیں بلوچ کا الیکشن سے پہلے تفصیلی دورہ کرنے کے
بعد کافی دن پہلے ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ الیکشن کے دن امن وامان بحال
رکھنے کے لئے رینجرز کو طلب کیا جائے گا۔ ان کی اس پریس کانفرنس کے جواب
میں بعض صحافتی حلقوں نے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے حوالے سے یہ ’’بیان
یا افو اہ‘‘ نقل کیا کہ وہ چیف الیکشن کمشنر کو بھی گھر بھیج رہے ہیں۔
قارئین! یہاں ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ جب آزاد کشمیر میں آزادی کے فوراًبعد
انقلابی آزاد حکومت قائم ہوئی تھی تو آزاد کشمیر کے بانی صدر غازی ملت
سردار ابراہیم خان مرحوم کے متعلق یہ منسوب کیا جاتا ہے کہ انہوں نے
پاکستان کے اس وقت کے دارالحکومت کراچی میں جا کر حکومت آزاد کشمیر اور
حکومت پاکستان کے درمیان ایک معاہدے کی دستاویز پر دستخط کیے جس کی رو سے
آزاد کشمیر کے مختلف معاملات کے متعلق تمام تر اختیارات پاکستان کی وفاقی
حکومت کے سپرد کر دیئے گئے اس حوالے سے 28اپریل 1948 ء کو معاہدہ کراچی
نامی اس دستاویز کا حوالہ آج تک دیا جا تا ہے اور آزاد کشمیر بھر کی قوم
پرست جماعتیں اس دن کو سیاہ دن قرار دیتے ہوئے ہر سال احتجاج کرتی ہیں اور
معاہدہ کراچی کو غلامی کی دستاویز قرار دیتی ہیں اور سردار ابراہیم خان
جیسے انتہائی بڑے انسان اور بڑے لیڈر کے سیاسی کیرئیر پر ایک دھبہ قرار دیا
جاتا ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق سردار ابراہیم خان
کہا کرتے تھے کہ معاہدہ کراچی پر ان کے دستخط کی جگہ انگوٹھے کا نشان موجود
ہے اور وہ ایک بیرسٹر ہو کر بھلا دستخط کرنے کی جگہ انگوٹھا کیوں لگاتے اس
حوالے سے ہم چچا غالب کی زبان میں کہیں گے کہ
نہیں، کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
شب فراق سے روزِ جزا یاد نہیں
کوئی کہے کہ ’’شبِ ماہ میں کیا برائی ہے‘‘
بلا سے آج اگر دن کو ابروباد نہیں
جو آؤں سامنے ان کے تو مرحبا نہ کہیں
جو جاؤں واں سے کہیں کو تو خیرباد نہیں
کبھی جو یاد بھی آتا ہوں میں تو کہتے ہیں
کہ ’’آج بزم میں کچھ فتنہ وفساد نہیں‘‘
علاوہ عید کے ملتی ہے اور دن بھی شراب
گدائے کوچۂ مے خانہ نامراد نہیں
جہاں میں ہو غم وشادی بہم ہمیں کیا کام
دیا ہے ہم کو خدا نے وہ دل کہ شاد نہیں
تم ان کے وعدے کا ذکر ان سے کیوں کرو غالبؔ؟
یہ کیا؟کہ تم کہو، اور وہ کہیں کہ’’یاد نہیں ـ‘‘
قارئین! ریت کے ذروں کی طرح وقت ہاتھوں سے پھسل رہا ہے اور کسی کو بھی
احساسِ زیاں نہیں ہے دو انسانی جانیں بلوچ میں ضائع ہو چکی ہیں اور کشیدگی
کی وجہ سے ابھی بھی حالاتِ زندگی معمول پر نہیں آئے طرفہ تماشہ تحریک آزادی
کے بیس کیمپ میں ایک مرتبہ پھر اقتدار کی تبدیلی کا بے رحم کھیل دوبارہ سے
کھیلنے کا نقارہ بج چکا ہے ہمیں امید ہے کہ میاں محمد نواز شریف سیاسی تدبر
کا مظاہرہ کرینگے اور چوہدری عبدالمجید بھی اپنے غصے کو کنٹرول کر کے
کشمیری قوم کا اعلیٰ ترین مفاد پیش نظر رکھیں گے یہی وقت کی آواز ہے ۔
آخر میں حسب ر وایت لطیفہ پیش خدمت ہے۔
ایک شخص نے اپنی بیوی سے فرمائش کی
ــ’’ڈارلنگ آج دال پکاؤ لیکن پتلی دال پکانا کیونکہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے
‘‘
کھانا کھاتے ہوئے وہ شخص بیوی سے مخاطب ہو کر کہنے لگا
’’ میں نے دال پتلی پکانے کو کہا تھا، پانی کو تڑکا لگانے کا نہیں کہا
تھا‘‘
قارئین! آزاد کشمیر کی مسموم سیاست کی دال کو بھی سیاستدانوں نے اتنا پتلا
کر دیا ہے کہ اب کسی بھی قسم کا انقلابی اعلان اور کارروائی ’’دال کو تڑکا
لگانا‘‘لگتی ہے خدارا! قوم کو بیوقوف نہ بنائیں اور ذاتی اقتدار کی خاطر
بیگناہوں کا خون ضائع نہ کریں کشمیری قوم بھی اپنی حقیقت کو پہچاننے کی
کوشش کرے۔ |