"ویلنٹائن ڈے محبوب کو پھول، چاکلیٹ پیش کرنے اور پریم
پتر بھیجنے کا دن ہے۔ لیکن محبوب تک رسائی ہی نہ ہو تو کیا کیا جائے۔ یہی
سوچ کر ہم نے فیصلہ کیا کہ رسائی نہ ہونے کے کرب میں مبتلا خواتین کے کام
آئیں،ہمارا نصب العین ہے:
یہ ہے عبادت، یہی دین وایماں
کہ کام آئے ’’بس صنفِ نسواں‘‘ کے انساں
یعنی یہ سہولت صرف بی بیوں کو مہیا کی گئی۔ اب دل جلے مرد کہیں گے،’’گویا،
صرف بہنوں کے لیے‘‘،۔۔۔۔کہتے رہیں، کہنے سے ہو تھوڑی جاتا ہے۔
تو صاحب! ہم نے جب یہ اعلان کیا کہ وہ مستورات جو کسی بھی مجبوری کے باعث
یوم محبت پر اپنے محبوب تک رسائی سے قاصر ہیں، ہم ان کے پیغامات منزلِ
مقصود تک پہنچائیں گے، تو پیغامات کا تانتا بندھ گیا، ان میں سے چند کچھ
سیاست دانوں کے لیے بھی تھے، جن تک ہمارا پہنچنا ممکن نہیں، سو ہم یہ پریم
پتر اس ’’بلاگ‘‘ کے ذریعے ان تک پہنچا رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانو
آپ تو ایسے گئے کہ پلٹ کر دیکھا ہی نہیں، وہ تو خیر ہوئی کہ آپ کی آواز
تقریباً سننے کو ملتی ہے، میں تو غمِ فرقت میں جان دے دیتی۔ کراچی میں رہتی
ہوں، اس لیے ’’جس طرف آنکھ اٹھاؤں تیری تصویراں ہیں‘‘ ورنہ میری آنکھیں
ترس جاتیں آپ کو دیکھنے کے لیے۔ بس ایک مشکل ہے، میں آپ کا نام سب کے
سامنے نہیں لے سکتی، جب بھی ایسا کیا ’’لڑکوں‘‘ نے یہ کہہ کر ڈانٹ دیا کہ
’’بدتمیز! نام لیتی ہے، بھائی بول‘‘ اب آپ ہی بتائیے، میں کیا کروں جانو
بھائی۔
صرف آپ کی
چندہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ماہی
ایروں غیروں سے بال کیوں لگوائے، میں کیا مرگئی تھی، میری زلفیں مانگ لیتے۔
کب سے آپ کا پیار دل میں بسائے ہوں۔ آپ جیل میں ہوں یا جدہ میں میرے دل
ہی میں رہتے ہیں۔ توجہ کی طالب ہوں، مگر آپ کی نگاہِ التفات نصیب ہی نہیں
ہوتی۔ میرے ساجن! میں نے لاہور کا ڈومیسائل بھی بنوالیا ہے اور نام میں
’’بٹ‘‘ لگاکر سید سے کشمیری بھی ہوگئی ہوں، دیکھیے آپ کی ساری شرائط پوری
کردیں، اب تو میری محبت قبول کرکے مجھے اپنی محبوبہ ’’لگا دیجیے‘‘
جواب کی منتظر
شریفہ بٹ
نوٹ: ساجن! میں نے پائے پکانے بھی سیکھ لیے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیارے مولانا
آپ کا نورانی چہرہ آنکھوں میں سجا اور آپ کا عربی لحن سماعت میں گونجتا
رہتا ہے۔ ’’رانجھا رانجھا کرتی میں آپے رانجھا ہوئی‘‘ آپ کے لہجے میں حلق
کے سِرے سے آواز نکال کر بولنے کی کوشش کرتی ہوں تو قے ہوجاتی ہے اور گھر
والے مشکوک نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں۔ آپ جب سے دل کے مہمان ہوئے میں میرا
دل بڑا ہوگیا ہے۔ اگرچہ شرعاً محبت نامہ لکھنا جائز نہیں، مگر چوں کہ 73 کا
آئین اس پر کئی پابندی نہیں لگاتا، اس لیے یہ خطرہ نہیں کہ آپ میرے اس
اقدام کو غیرشرعی قرار دے دیں گے۔ محبت کے جواب میں محبت نہ دیجیے، چلیے
’’اتحاد‘‘ ہی کرلیجیے۔ صرف آپ کی خاطر میں نے ماں باپ کا دیا نام نیک
پروین بدل کر ’’حکومت خاتون‘‘ رکھ لیا ہے۔ اب تو آجائیے
آپ کے انتظار میں بے تاب
حکومت خاتون
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈارلنگ
کیسے ہو، کبھی تو آؤ، میں کون سی عدالت یا ایوان کا اجلاس ہوں کہ تم سے
آئے نہ بنے۔ شاید تم اس لیے مجھ سے دور ہوگئے ہو کہ میں نے تمھارے مخالفین
سے مل کر ’’وردی اتارو‘‘ کے نعرے لگائے تھے۔ ارے پگلے! وہ میرا بھولپن تھا۔
مجھ بھولی کو کیا پتا کہ وہ موئے کیا چاہتے ہیں، میرا تو اپنا ایجنڈا تھا۔
اب سوچتی ہوں کہ وردی تمھاری کھال تھی، کھال میں رہتے تو یہ دن نہ دیکھنا
پڑتا۔
اس دکھیاری سے ایک بار تو کہہ دو
’’سب سے پہلے فرخندہ‘‘
تمھاری فرخندہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے فارغ بالما
تمھارے سگار کی طرح تمھارے پیار میں سلگ رہی ہوں۔ ان دنوں فارغ ہو، کب تک
ٹاک شوز میں شامیں گنواتے رہو گے، کچھ نہیں تو محبت ہی کرلو، الیکشن کی طرح
دل بھی ہارجاؤ۔ یہ کام تو ہے ہی تم جیسے ’’ویلوں‘‘ کا۔
’’تمھاری طرح‘‘ کنواری
لالی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے سائیں
’’پیار کھپے، کھپے، کھپے۔‘‘ آپ کے صاحب زادے نے کہا تھا، ’’سر چاہیے، سر
دیں گے، جان چاہیے جان دیں گے۔۔۔۔‘‘ وغیرہ وغیرہ، اس بیان کو آپ کی پارٹی
کی پالیسی سمجھتے ہوئے میں آپ سے آپ کا دل مانگتی ہوں، مجھے سِری پائے سے
کوئی دل چسپی نہیں، دل دے دیجیے نا۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ مجھے انسان سے
قیمتی پلاٹ بنادے تاکہ آپ کی نگاہوں میں سما سکوں۔ ہر ویلنٹائن ڈے پر آپ
کو گلاب کے پھول بھیجے، مگر کوئی جواب نہ آیا۔ اس بار پھول نہ مل سکے آپ
کے لیے نوٹ نوٹ جوڑ کر سو کے نوٹوں کا سرخ ’’گل دستہ‘‘ بنایا ہے، یقین ہے
کہ جواب آئے گا۔ کچھ نہیں تو مفاہمت کی پالیسی ہی کے تحت میری محبت قبول
کرلیجیے۔
توجہ کی طالب
سرمایہ بانو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے محبوب
یہ کیا۔۔۔۔۔تبدیلی تو لا نہ سکے مگر خود اتنا بدل گئے کہ حسینوں کے جُھرمٹ
میں رہنے والا طالبان کمیٹی کے لیے نام زد کردیا گیا۔ انصاف کی بات کرتے ہو
مگر مجھ پر اتنا ظلم کہ تمھارے پیار کے لیے ترس رہی ہوں اور تم خبر تک نہیں
لیتے۔ ایک شادی ختم ہونے پر اتنی مایوسی کیوں کہ دوسری کرتے ہیں نہیں۔ اے
میرے میاں والی والے، مجھے میاں والی کردو نا۔ تمھاری سُرخ روئی کے لیے میں
نے اپنا نام بدل کر ’’تبدیلی‘‘ رکھ لیا ہے، تاکہ تم مجھے اپناکر فخر سے کہہ
سکو، تبدیلی آگئی ہے۔
تمھارے پیار کے سونامی کی ماری
تبدیلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ساجن
دل چاہتا ہے آپ کے کالے چشمے کے اندھے کنوؤں میں ڈوب جاؤں۔ پیار میں گھل
گھل کر آپ کی پارٹی کی آدھی ادھوری رہ گئی ہوں۔ بس اتنا بتا دیجیے کہ
ہماری پہلی اور اب تک کی آخری ملاقات میں آپ نے مجھ سے دو گھنٹے تک جو
گفتگو کی تھی، اس میں میرے حُسن کی تعریف اور اظہارِ محبت ہی کر رہے تھے
نا۔ پلیز فون مت کیجیے گا، تحریری جواب دیجیے گا۔
آپ کی
دل رُبا بانو |