فلسفہ خودی‘ اس کے حدود اور ڈاکٹر اقبال

خودی‘ استعدادی قوت کا نام ہے‘ جو کسی چیز یا ذی روح وغیرہ سے مخصوص کر دی گئی ہوتی ہے۔ تاہم یہ اضافہ پذیر ہے۔ اسی طرح اس میں کمی بھی آتی رہتی ہے۔ اس میں اضافہ یا کمی کی بھی‘ حدود مخصوص ہوتی ہیں۔ کمی‘ اضافے کی راہ لے سکتی ہےاور اضافہ زوال کا رستہ اختیار کر سکتا ہے۔

اضافے اور کمی کی صورت میں‘ اس کی استعداد کار میں فرق آ جاتا ہے۔ یہ استعداد کار ہی فرد واحد‘ قوموں یہاں تک‘ کہ پوری انسانی زندگی برادری کی موجودہ صورت حال کو تبدیل کر سکتی ہے۔ کائنات کی کوئی شے‘ ایک دوسرے سے غیرمتعلق نہیں۔ ایک کا کیا‘ دوسرے اور دوسرے سے دوسروں کو متاثر کرتا ہے۔ یا اس میں دوسروں کو متاثر کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔

اس میں اضافے کی بہت سی صورتیں موجود ہوتی ہیں یا ہو سکتی ہیں۔

١- کسی حاجت‘ ضرورت‘ مفاد یا غرض کے تحت‘ دو یا دو سے زائد افراد ایک پلیٹ فارم بنا سکتے ہیں۔ یہ اجتماع وقتی یا دیرپا بھی ہو سکتا ہے۔

٢- کاز‘ کسی بھی نوعیت کا ہو‘ اس کے زیر اثر لوگوں کا باہمی انسلاک ممکن ہوتا ہے۔ اس کے لیے افراد اکٹھے کر لیے جاتے ہیں یا ہو جاتے ہیں۔

٣- ردعملی صورتیں بھی شخص کو‘ شخص کے قریب لے آتی ہیں۔

٤۔ ہنر متحرک زندگی کا بڑا اہم عنصر ہے۔
ا۔ایک ہنر سے متعلق شخص ایک دوسرے کے قریب رہتے ہیں یا آ سکتے ہیں۔
ب۔ مقابلہ بازی راہ پاتی ہے۔
ج۔ سیکھنے والے میدان میں اترتے ہیں۔
د۔اس ہنر کے ضرورت مند ان سے رابطہ میں رہتے ہیں۔

٥- مذہب اور نظریہ‘ بڑے مضبوط عناصر ہیں۔ یہ اشحاص کے اتحاد کا ذریعہ بننے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

٦۔ رنگ‘ نسل علاقہ اور زبان‘ انسانی زندگی میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ جہاں ان کے حوالہ سے عصبیت جنم لیتی ہے‘ وہاں باہمی تعلق اور رابطہ بھی جگہ پاتا ہے۔

٧۔ سیاسی‘ فلاحی اور سماجی گروپ تشکیل پاتے رہتے ہیں۔ یہ شخص کو‘ بہت سے حوالوں سے‘ دوسرے اشخاس سے پیوست کرتے ہیں۔

٨- قبیلہ اور قوم‘ شخص کو شخص سے نتھی رکھتے ہیں۔

٩۔ مزاجوں میں ملتی مماثلتیں شخصی قربت کا سبب بنتی ہیں۔

١٠۔ ہم مزاج اور ہم خیال ہونے کی وجہ سے‘ چاہے ان کی صورت وقتی اورلمحاتی ہی کیوں نہ ہو‘ شخص کا شخص سے‘ ارتباط پیدا کرتی ہیں۔

١١۔ دو غیر جنس بھی ہم رکاب چل سکتےہیں۔

١٢۔ ہم عمری بھی اس ذیل میں بڑا معتبرذریعہ ہے۔

١٣- سماجی رسم و رواج او ہم شغلی اس ضمن میں بڑا اہم ذریعہ ہے۔

درج بالا سطور میں چند ایک کا ذکر کیا گیا ہے ورنہ اس کی بہت سی صورتیں موجود ہیں۔ یہاں تک کہ باہمی اختلافات کو بھی نظر انداذ نہیں کیا جا سکتا۔ ان تمام صورتوں میں آگہی‘ اعتماد‘ حوصلہ‘ کچھ کرنے کا جذبہ‘ ہنر‘ تجربہ‘ عادات‘ اطوار اور کسی دوسرے کی شخصیت میں پوشیدہ خاص جوہر اور کمال‘ جو وہ استعمال میں نہیں لا رہا ہوتا‘ ہاتھ لگتے ہیں۔ ان عناصر سے شخصی خودی کو توانائی میسر آتی ہے اور شخص کا وجود استحقام پکڑتا ہے۔ اس میں‘ میں ہوں‘ کو تقویت میسر آتی ہے۔

بالکل اسی طرح‘ خودی زوال کا شکار بھی ہوتی ہے۔ اس کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ان میں تنہائی سب سے مہلک ہے۔ وہ خود الگ تھلگ ہو جاتا ہے۔ سوسائٹی اس کو الگ تھلگ کر دیتی ہے۔ کوئی بھی صورت ہو سکتی ہے۔

خودی زوال کا شکار ہو یا ترقی کی منازل طے کر رہی ہو‘ صفر پر نہیں آتی۔ یہ بھی کہ وہ لامحدود نہیں ہوتی۔ فرش‘ عرش‘ کرسی غرض سب کچھ اس زد یا دسترس میں آ جائے‘ تو بھی اسے لامحدود نہیں کہا جا سکتا‘ کیونکہ پوری کائنات حددوں میں ہے۔ جب اسے لامحدود ہونے کا گمان گزرتا ہے‘ نابود ہو جاتی ہے۔ نمرود فرعون اور سکندر کو یہی گمان گزرا‘ تو ہی ہلاکت سے دوچار ہوئے‘ کیوں کہ کائنات لامحدود نہیں۔ دوسرا فنا کا عنصر‘ ہر کسی سے منسلک ہے۔ لامحدود صرف اور صرف الله کی ذات گرامی ہے‘ جس کا فنا کے ساتھ تعلق نہیں۔ فنا اس کی تخلیق کردہ ہے۔ خودی کے لامحدود ہونے کے لیے دو رستے ہیں۔

میں ہوں کو لامحدود کے تابع کر دے۔ اس ذیل میں بلال اور عمر بن عبدالعزیز کو بطور مثال لیا جا سکتا ہے۔ وہ عملی طور پر اپنا مستحکم وجود رکھتے تھے

میں ہوں کو ختم کرکے‘ لامحدود میں مدغم کر دے۔ منصور اور سرمد‘ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ یہ دونوں‘ عملی طور پر‘ موجود کی حاجت سے بالاتر تھے۔

ساری کائنات کی خودی مجتمع ہو جائے‘ تو بھی وہ لامحدود نہیں ہو پاتی۔ انسان الله کی اشرف اور احسن مخلوق ہے۔ کائنات میں موجود ہر شے اور ذی روح کی خودی‘ اس کے برابر نہیں اور یہ ان کی گرفت سے باہر ہے۔ اس کی سوچ کے حلقے‘ کائنات کے حوالہ سے لامحدود ہیں۔ یہ کیا کر ڈالے یا کروٹ لے‘ کوئی نہیں جان پاتا۔ یہ سب کچھ ہو کر بھی‘ مخصوص حدوں میں ہے۔ منصور اور سرمد سے لوگوں کو اس میں نہ رکھیے۔ اسی طرح‘ اس محترم خاتون کو بھی الگ رکھیے‘ جسے خاوند اور اپنی اولاد کی شہادت کی فکر نہیں۔ اس کی خودی‘ نبوت سے منسلک تھی۔ نبوت الله سے منسلک تھی۔ اگر اس کی خودی کائنات کے دائرہ میں ہوتی‘ تو اسے خاوند‘ بچوں کے ساتھ ساتھ نبی کی بھی چنتا ہوتی۔

اس سطع کی تخصیص کی صورت نہ ہوتی۔ یہ بھی کہ جبلی اور ممتا کے حوالہ سے‘ وہ سب سے پہلے اپنے بچوں کا پوچھتی۔ اس کے بعد خاوند اور اس ذیل میں تسلی پا کر نبی کا پوچھتی۔ بیٹوں کی شہادت کا سن کر‘ اپنے آپے میں نہ رہتی۔ آج اگر بیٹوں کی عید پر قربانی کا حکم یا سنت موجود ہوتی‘ تو سچ یہی ہے‘ میرے سمیت‘ کوئی مسلمان ہی نہ ہوتا۔ زبانی کلامی کہہ دینا اور بات ہے‘ اس کہے پر عمل کرنا اس سے قطعی الگ بات ہے۔ اس حوالہ غور کیا جائے تو‘ خودی کا ایک دائرہ اور حلقہ مخصوص و محدود ہو جاتا ہے۔

اقبال کا یہ شعر‘ بڑا واضح ہے اور اس میں کوئی علامت اور استعارہ موجود نہیں۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے‘ بتا تیری رضا کیا ہے

خودی کو کر بلند
اتنا کہ
ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے
خود پوچھے
بتا تیری رضا کیا ہے

اس شعر کی تفہیم کی ذلیل میں یہ عناصر پیش نظر رکھیں۔
١- خدا خالق اور بندہ مخلوق ہے۔
٢۔ دونوں ہم مرتبہ اور ہم جنس نہیں ہیں۔
٣- دونوں کی آگہی کی سطع ایک نہیں۔
٤۔ بندے کا علم عطائی ہے۔ خدا کا علم ذاتی ہے۔
٥- خدا قائم بذات ہے۔ بندہ قائم بذات نہیں۔
٦- خدا ہر حوالہ سے بےنیاز ہے۔
٧- بندے کا ذاتی کچھ نہیں‘ جو ہے خدا کا دیا ہوا ہے۔ خدا کے پاس جو کچھ ہے‘ بلاشرک غیرے اس کا اپنا ہے۔
٨- خدا کو اس کی حدوں کے حوالہ سے کوئی نئیں جانتا اور ناہی جاننے کی بساط رکھتا ہے۔ اس کے برعکس‘ خدا بندے کو‘ اس سے کہیں زیادہ جانتا ہے۔۔
٩- کسی کار کا‘ کتنا عوضانہ کتنا بنتا ہے‘ وہ کرنے والے سے‘ کہیں بہتر اور زیادہ جانتا ہے۔
١٠- وہ دینے کے حوالہ سے‘ محتاج اور زیردست نہیں۔
١١- وہ فضل والا ہے اور توقع سے زائد دے سکتا ہے۔ توقع سے زائد دیا بلاشبہ فضل الله ہے۔
١٢- وہ عطا کے معاملہ میں‘ بخیل نہیں‘ غنی ہے۔
١٣- انسان کی مرضی‘ خدا کی مرضی کے ماتحت ہے۔ خدا کی مرضی‘ انسان کی مرضی کے ماتحت نہیں۔

ڈاکٹر اقبال کا یہ شعر‘ شرک سے لبریز ہے اور میں ہوں‘ کو اجاگر کرتے کرتے‘ فرعونیت کی طرف لے جاتا ہے۔ فرعون بھی یہی گمان رکھتا تھا‘ اپنی اس کج فہمی کی وجہ سے‘ ہلاکت سے دوچار ہوا۔ ایک عام آدمی کیا‘ نبی رسول بھی‘ اس طرح کی سوچ‘ نہیں سوچ سکتا۔ وہ اپنی مرضی تابع رکھنے اور ازن پر سربہ خم کرنے‘ کی صورت میں ہی‘ نبی ہے۔ بندہ بھی‘ تب بندہ ہے‘ جب وہ خدا کی مرضی کو ہی‘ حرف آخر‘ دل و دل و جان سے جانتا ہے۔

ڈاکٹر اقبال کا ایک اور شعر ہے۔

عبث ہے شکوہءتقدیر یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے

خودی کی سربلندی کے حوالہ سے‘ یہ شعر پہلے شعر سے قربت رکھا ہے۔ میں ناہیں سبھ توں‘ کے حوالہ سے‘ یہ درست ہے۔ ڈاکٹر اقبال اس نظریہ کے قائل نیہں ہیں اس لیے‘ اس پر‘ میں ہوں کا اطلاق ہوتا ہے۔ خودی کے تابع ہونے کی صورت میں‘ یزداں کی مرضی کا تابع ہے۔ کیسا‘ کس طرح اور کتنا طے کرنے کا حق‘ یزداں کے پاس ہی رہتا ہے۔ یہ شعر اس مفہوم کی طرف لے جاتا ہے کہ یزداں تقدیر کا معاملہ اپنی نہیں‘ اس کی مرضی اور ایما پر طے کرے۔

ڈاکٹر اقبال یہ شعر بھی ملاحظہ فرمائیں‘ کھلا آمریت کا پرچار ہے۔

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ اسمان کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے

١- ہر چیز‘ دوسری سے‘ فطری طور پر‘ وابستہ اور انحصار کرتی ہے۔
٢- یہ تو یزداں کو مکلف و مقلد کرنا ہے۔
٣- اس سے‘ خود غرضی کا پہلو سامنے آتا ہے۔
٤- خدمت میں‘ عظمت پوشیدہ ہے۔
٥- لو سب‘ دو کچھ نہ‘ میں خودداری کی موت ہے اور یہ مومن کا طور اور وتیرہ ہو ہی نہیں سکتا۔
٦- آپ کریم سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے۔ آپ کریم سب کے لیے تھے۔
٧- دے کر ہی حاصل ہوتا ہے۔
٨- دینے میں جو لطف پوشیدہ ہے‘ وہ لینے میں نہیں۔
٩- ا جہاں ہے تیرے لیے
ب تو نہیں جہاں کے لیے
جہاں خدمت گزار ہو- اس سے خدمت لینا تیرا حق ہے۔ خدمت تیرے فرائض میں نہیں‘ سے زیادہ غیر معقول کوئی بات نہیں ہو گی۔

اقبال کے فلسفہءخودی میں‘ سارتر اور نٹشے کے‘ قدم لیتا نظر آتا ہے۔ یہ بھی کہ وہ تذبذب کا شکار ہیں۔ کوئی بات‘ اس وقت تک بااثر نہیں ہوتی‘ جب تک کہنے والا عامل نہ ہو۔ اس ذیل کی زندگی کا دیانت دارانہ مطالعہ ضروری ٹھہرتا ہے۔ علما کرام‘ تحریر تقریر میں‘ ڈاکٹر اقبال کا حوا لہ دینے سے پہلے‘ ان کے کہے پر غور فرا لیا کریں۔ یہ انداز درست نہیں‘ چونکہ یہ بات ڈاکٹر اقبال کی کہی ہوئی ہے‘ اس لیے غلط نہیں ہو سکتی یا اس میں خامی ہو ہی نہیں سکتی۔

maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 190821 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.