اسلام آباد حملہ:مذاکرات مخالف قوتیں ایک بار پھر متحرک

کچھ قوتیں پہلے دن سے ہی مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی سرتوڑ کوششوں میں سرگرداں ہیں۔ جن کی ایک بار نہیں کئی بار متعدد رہنماﺅں کی جانب سے نشاندہی کی گئی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب طالبان اور حکومت جنگ بندی کا باقاعدہ اعلان کرچکے ہیں، پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی محفوظ ترین جگہ ضلع کچہری میں انتہائی منظم انداز میں ہونے والا حملہ مذاکرات مخالف قوتوں کی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔ پیر کے روز اسلام آباد میں ایک زور دار حملے کے نتیجے میں 12افراد جاں بحق اور 35کو زخمی ہوگئے۔ اسلام آباد میں ایف ایٹ کچہری میں صبح نو بجے کے قریب حملہ آوروں نے دستی بم پھینکے اور گولیاں برسانا شروع کر دیں ۔ اس واقعے میں ایڈیشنل اینڈ سیشن جج رفاقت اعوان بھی جاں بحق ہو گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق آٹھ سے دس لینڈ کروزروں میں گیارہ سے بارہ مسلح لوگ تھے۔ انہوں نے مختلف اطراف سے حملے کیے۔ پولیس اور حملہ آوروں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا، مگر پولیس ان کو کنٹرول نہیں کر پائی۔ عمومی طور پر دو سو سے زاید پولیس اہلکار ہر وقت ضلع کچہری میں موجود ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی موجودگی بھی ضرور ہوتی ہے، لیکن پیر کے روز ہونے والے واقعہ کے دوران ایسا محسوس ہوتا تھا، جیسے یہاں پر پولیس اہلکار کبھی تعینات ہی نہیں تھے۔ پولیس کے مطابق بیس سے پچیس سال کی عمر کے یہ مسلح افراد کچہری ضلعی عدالتوں میں داخل ہوئے، پتلون شرٹ میں ملبوس ایک 25 سالہ نوجوان دیگر ساتھیوں کو حملے کی ہدایات دے رہا تھا۔ اسلام آباد پولیس کے ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کا کہنا تھا کہ یہ بہت سنگین اور پیچیدہ دہشت گرد حملہ تھا۔ حملے کی نوعیت اور سنگینی سے اندازہ ہوتا ہے کہ حملہ آور اعلیٰ تربیت یافتہ تھے۔ چالیس پولیس اہلکار اور دو کمانڈوز دستے اس علاقے کی حفاظت پر مامور ہیں، ضلع کچہری کا پورا علاقہ ایک طرح کی بھول بھلیاں ہیں۔ ایسے میں اعلیٰ تربیت یافتہ حملہ آور ہی اس طرح کی کارروائی کر سکتے تھے۔

دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا ان واقعات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم جنگ بندی کا اعلان کرچکے ہیں اور اس کارروائی سے ٹی ٹی پی کا کوئی تعلق نہیں۔ طالبان جنگ بندی کی کسی صورت خلاف ورزی نہیں کرسکتے۔ حالیہ دہشت گرد حملوں کو ہم سے نہ جوڑا جائے اور ہم آج کے واقعہ کی مذمت کرتے ہیں۔ تحریک طالبان سیز فائز کا اعلان کر چکی ہے اور اس اعلان پر تحریک طالبان کے تمام گروپ امیر فضل اللہ کی اطاعت کے پابند ہیں۔طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کا مزید کہناتھا کہ اسلام آباد میں نہ تو ہم نے حملہ کیا اور نہ ہی ہمارا کوئی ساتھی اس میں ملوث ہے، لیکن ہمارے واضح اعلان کے باوجود ہمارے خلاف پروپیگنڈا کیاجا رہا ہے۔ دہشت گردی کے پیچھے موجود ہاتھوں کو تلاش کرنا ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے اسلام آباد ضلع کچہری میں ہونے والے واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ جس نے بھی کیا وہ درندے انسانیت کے مجرم ہیں، اس حملے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔طالبان کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان کیا جا چکا ہے، پر امید ہوں کہ اس میں طالبان ملوث نہیں ہوں گے، لیکن اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ حملہ طالبان نے کیا تو میں اپنے آپ کو مذاکراتی کمیٹی سے علیحدہ کر لوں گا۔ جبکہ جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ اور طالبان مذاکراتی کمیٹی کے رکن مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ طالبان کی جانب سے اسلام آباد کچہری حملے سے لاتعلقی کا اعلان خوش آئند ہے۔ کچہری حملے سے ثابت ہو گیا کہ ملک میں اور کئی ایسی قوتیں موجود ہیں جو امن نہیں چاہتیں، ہم سب کو مل کر امن دشمنوں کو بے نقاب اور ان کی سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا۔ طالبان کی جانب سے حملے سے فوری طور پر لاتعلقی کا اظہار کرنے پر خوشی ہے، طالبان کو ایسے دہشت گردی کے واقعات پر فوری لاتعلقی ظاہر کرنا ہو گی ۔ امن دشمنوں کو بے نقاب کرنا ہو گا۔ امریکا ، بھارت مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت بغیر تحقیق کسی کارروائی کو طالبان کے کھاتے میں نہ ڈالے۔ مذاکرات ضرور کامیاب ہوں گے، مذاکراتی عمل کو داخلی سازشوں سے بچایا جائے۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا تھا کہ کہ پاکستان میں امن قائم کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکا ہے، جو یہاں امن دیکھنا نہیں چاہتا، وہ ہمارا دشمن ہے۔ ہم طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے فیصلے کی تائید کرتے ہیں، مذاکرات کامطلب ان عناصرکوالگ کرنا ہے جو ملک میں امن نہیں چاہتے، بیرونی قوتوں کے ایجنڈے پرکام کرنے والوں کو علیحدہ کرنا چاہیے۔

واضح رہے کہ ہفتے کے روز تحریک طالبان پاکستان نے ایک ماہ کے لےے غیر مشروط یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اعلان جید علمائے کرام کی اپیل اور طالبان کمیٹی کے احترام میں کیا گیا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد کا کہنا تھا کہ طالبان نے نیک مقاصد اور سنجیدگی کے ساتھ حکومت کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا ہے، ہم ہر فیصلہ شوریٰ کے اتفاق اور امیر کی تائید کے ساتھ کرتے ہیں، مذاکراتی عمل میں ڈیڈ لاک کے خاتمے اور جنگ بندی کے لےے ہماری طرف سے اپنی مذاکراتی کمیٹی کو دی گئی تجاویز کا حکومت کی طرف سے مثبت جواب دیا گیا ہے اور ان تجاویز پر عمل درآمد کی پراعتماد یقین دہانی کرائی جاچکی ہے۔حکومت اور طالبان مذاکراتی کمیٹیوں نے طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کا سلسلہ وہیں سے شروع ہوگا جہاں سے ٹوٹا تھا۔ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور تحریک انصاف کے رہنماﺅں سمیت متعدد سیاسی و مذہبی شخصیات نے بھی طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے عمل کو سراہاتے ہوئے حکومت سے بھی جنگ بندی کی اپیل کی تھی۔ جنگ بندی کے بعد مذاکرات مخالف پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے بھی مذاکرات کی حمایت کی تھی۔جس کے بعد اگلے روز ہی وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار نے اپنے ایک بیان میں طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کو مثبت قرار دیتے ہوئے حکومت کی جانب سے بھی جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے بعد فضائی کارروائیاں معطل کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ طالبان مذاکراتی کمیٹی کے کوآرڈینیٹر مولانایوسف شاہ کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کا اعلان عوام کے لیے خوش خبری ثابت ہوگا۔ کسی گروپ نے حملہ کیاتو اس کاسراغ لگائیں گے۔ دوبارہ شروع ہونیوالے مذاکرات کی کامیابی کے لیے پرامید ہیں۔ کوشش کررہے ہیں کہ مذاکراتی عمل آگے بڑھے اور دوبارہ شروع ہونیوالے مذاکرات کامیاب ہوں گے۔ حکو متی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ عرفان صد یقی کا کہنا تھا کہ طالبان کی جنگ بندی ایک اچھی پیش رفت ہے،مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ بننے والا پتھرہٹ گیاہے ، مذاکرات کے معاملے پرفوج اورحکو مت میں کوئی اختلاف نہیں۔ جبکہ حکومتی کمیٹی کے رکن رستم شاہ نے طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ طالبان کے مخالفین مذاکرات کو ڈیل ریل کرسکتے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد حملے کے بعد مذاکرات مخالف قوتوں کی سازشیں بے نقاب ہوگئی ہیں۔ جو دشمن طاقتیں لڑاﺅ اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت ملک کو خانہ جنگی کا شکار دیکھنا چاہتی ہیں، وہ مختلف حربوں سے ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ملک دشمن قوتیں روز اول سے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ جب مذاکرات کامیاب ہوتے نظر آتے ہیں، تو ملک دشمن قوتیں متحرک ہوجاتی ہیں۔جب بھی مذاکرات کی بات کی جاتی ہے تو مختلف حربوں سے انہیں ناکام بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔پہلے مذاکرات کی کامیابی کی امید نظر آئی تو امریکا نے حکیم اللہ محسود پر حملہ کرکے مذاکرات کو سپوتاژ کردیا، اس کے بعد مذاکرات کا عمل کچھ آگے بڑھنے لگا تو ملک میں متعدد حملے کرکے مذاکرات کو پٹری سے اتار دیا گیا۔حالانکہ طالبان کی جانب سے ان حملوں سے بھی اظہار لاتعلقی کیا گیا تھا۔اب ایک بار پھر اسلام آباد میں حملہ کیا گیا ہے جس سے طالبان اظہار لاتعلقی کرچکے ہیں۔ اس حملے کا اس کے علاوہ کوئی اور مقصد نظر نہیں آتا کہ مذاکرات کو ایک بار پھر پٹری سے اتارا جائے۔حالانکہ کئی بار پہلے بھی وزیر داخلہ سمیت متعدد رہنما اس بات کی نشاندہی کرچکے ہیں کہ مذاکرات مخالف قوتیں مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش کرسکتی ہیں۔مذاکرات کو ناکام بنانے کے لیے ملک میں بلیک واٹر جیسی خفیہ تنظیموں کے ذریعے کارروائی کی جاسکتی ہے۔ ملک میں بڑے پیمانے پر دشمن کے خفیہ عناصر اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں،ذرائع کے مطابق بلیک واٹر ملک میں مقامی این جی اوز اور ملکی اداروں میں اپنے بہت سے کارندوں کو بھرتی کروا چکی ہے۔ اس سلسلے میں اندرونی اور بیرونی سازشی عناصر کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا و بھارت کسی صورت طالبان سے مذاکرات کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرسکتے اور مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ ان حالات میں جب کہ حکومت اور طالبان جنگ بندی کا اعلان بھی کرچکے ہیں اور طالبان اسلام آباد حملے سے اظہار لاتعلقی بھی کرچکے ہیں، حکومتی کمیٹی اور طالبان کمیٹی برملا اس بات کا اظہار بھی کرچکی ہیں کہ کچھ قوتیں مذاکرات کو ناکام بنا سکتی ہیں،اس کے باجود اگر کوئی حملہ ہوتا ہے تو سب کی ذمہ داری ہے کہ ان حملوں میں ملوث قوتوں کو بے نقاب کر کے ان کی بیخ کنی کی جائے، ورنہ یہ دشمن قوتیں ملک میں امن کے ہرموقع کو بدامنی میں بدلتی رہیں گی اور یہ کبھی نہیں چاہیں گی کہ پاکستان میں امن قائم ہو۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 632570 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.