وہ جب اپنے گاؤں میں رہتا تھا اور صبح سویرے موذّن کی حیّ
علی الصلٰوہ کی آواز سن کر گاؤں کی پگڈنڈیوں سے گزرتا ہؤا، جانبِ خانہ خدا
گامزن ہوتا تھا تو نسیمِ سحری کے خوشبودار اور فرحت بخش جھونکے اسکا خیر
مقدم کرتے تھے، لیکن جب سے وہ “اسلامی جمہوریہ“ پاکستان کی پارلیمنٹ کا
ممبر منتخب ہؤا اور ارکانِ اسمبلی کے “اسلام آباد“ کے رہائیشی علاقے میں
سکونت پذیر ہؤا تو جب بھی اپنی رہائش گاہ سے صبح سویرے مسجد جانے کے لیئے
نکلتا تو نسیمِ سحر کے بجائے سگریٹ و “چرس “ کے ناگوار ترین تیز بھبکے اور
“شراب خانہ خراب “ کی غلیظ بدبو اسکا استقبال کرتی اور ڈھولک کی تھاپ پر پسِ
پردہ حوا کی لاچار بیٹیوں کے پاؤں سے بندھی مجبور پائلوں کی آوازیں اُس کے
وجود میں نشتر کے تیر برساتیں۔
لیکن وہ یہاں بڑے بڑے مگر مچھوں کے درمیاں نو وارد تھا اور “شہری روایات و
آداب “ سے نا آشنا اور جب وہ ان کے استاد اور ایوانِ صدر کے مکین کی جانب
داد رسی کی امید سے نظر ڈالتا تو وہاں بھی ماحول کچھ زیادہ مختلف نظر نہ
آتا۔ دِن گزرتے گئے، مہ و سال گزرے اور رفتہ رفتہ ایوانِ صدر کے مکینوں کے
چہرے بھی بدلے، بھر اس نے اپنی پارٹی بھی بدل لی۔ اب اسے کچھ ایسے چہرے نظر
آنا شروع ہوئے جو “نظریہ ُپاکستاں“ کے اگر مکمل مطیع و فرمانبردار تو نہیں
تھے لیکن باغی بھی نہ تھے تو اسکے اندر کچھ ہمت جمع ہوئی۔ صبر کا پیمانہ تو
پہلے ہی لبریز تھا اب اس نے اپنے ساتھی، قومی اسمبلی و سینیٹ کے ممبران جو
انتہائی گھٹیا، غیر اخلاقی اور غیر اسلامی حرکات میں ملوّث تھے انکو بے
نقاب کرنے کی ٹھان لی، ناقابلِ تردید ثبوت اکٹھا کیئے اور ایک دِن آئینی و
قانونی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی کے سامنے تمام
دستیاب ثبوت پیش کر دیئے۔ یہ بڑی نا انصافی ہو گی اگر ہم بھیڑئیے کی کھال
پہنے ہوئے گیدڑوں کے درمیان حق بات بلند کرنے پر غیرتِ ملّی اور جرءاتِ
ایمانی سے آراستہ و پیراستہ اس عطیم انسان جمشید احمد دستی، ممبرِ قومی
اسمبلی کو خراجِ تحسین پیش نہ کریں۔ اللہ ان کواعلیٰ ترین اجر عطا فرمائے
کہ جب انسان دنیا سے رخصت ہوتا ہے اور ربِّ جلیل کے حضور پیش ہوتا ہے تو
یہی صدقہ جاریہ اسکا سرمایہ حیات ہوتا ہے۔
دنیا بھر میں جہاں جمہوریت کی جڑیں گہری ہیں وہاں عوام کے منتخب نمائندوں
کو مقدس حیثیت دی جاتی ہے۔ کیونکہ وہ عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیئے اور
معاشرے میں انصاف کا نظام قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیئے قوانین
بنانے کا اہم ترین فریضہ انجام دیتے ہیں اور اگر کوئی ممبر خود کو عطا کردہ
اس تقدس کو پامال کر تے ہوئے کوئی بھی خلافِ قانون کام کریے تو وہاں کا
نظام اسے نشانِ عبرت بنا دیتا ہے۔ دنیا بھر میں اپنے ضمیر کی آواز پر لبّیک
کہنے والے لوگ ہر جگہ موجود ہیں،اور وہاں کی سول سوسائیٹی انکی ہم آواز
ہوتی ہے لیکن پاکستان کے اخلاق باختہ ماحول میں میں یہ انہونی بات لگتی ہے۔
جمشید دستی صاحب کے انکشافات پر ہمارا مغرب نواز میڈیا پنجے جھاڑ کر اُس
عظیم شخص کے پیچھے پڑگیا ۔ مغرب کے ذہنی غلام اور ڈالروں کے انبار پر برائے
فروخت کا بورڈ تھامے، رنگ برنگی ٹائیوں کی نمائش کرتے یہ جوان اینکر اور
منہ بگاڑ بگاڑ کر جمشید دستی جیسے باضمیر اور غیرت مند مسلمان پر اپنی شعلہ
اگلتی نگاہوں کے تیر برساتے یہ بوڑھے طوطے مغرب کی ذھنی غلامی میں ساری
اخلاقی، قانونی اور اسلامی حدود و قیود پار کر جاتے ہیں۔ اور مغربی انتہا
پسندوں کے رٹائے ہوئے الفاظ دُہرانا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن مغرب کی اُن
اچھی روایات پر اپنے کان، ناک اور منہ بندکر لیتے ہیں کہ اگر وہاں کے عوامی
نمائندے کہیں ذرّہ برابر بھی اخلاق باختگی کے مرتکب پائے جائیں (چاہے وہ
خلوت میں ہو یا جلوت میں) احتساب کا کوڑا بلا تاخیر حرکت میں آتا ہے اور
میڈیا تو آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے جبتک کہ وہ بدکردار اپنے انجام تک نہ
پہنچے۔
لیکن ہمارا میڈیا الٹی گنگا بہا رہا ہے اور پرویز ہود بھائی جیسے بیہودگی
کے علمبردار اور ان جیسے دوسرے لبرل فاشسٹ جمشید دستی کو اپنے بغل میں بٹھا
کر اسکا ایسا گھیراؤ کر رہے ہیں جیسے مجرموں کی نقاب کشائی کرنے والا یہ
عظیم انسان بجائے خود مجرم ہو۔ جمشید دستی صاحب کے انکشافات مملکتِ خداداد
اور اسکے کروڑوں عوام پر بہت بڑا احسان ہے۔ ہم اسپر انکو جتنا خراجِ تحسین
پیش کریں کم ہے۔ ہمیں دعاء کرنی چاہیئے کہ جس طرح عوامی نماہندوں میں سے
ایک جوانِ رعنا نے ببانگِ دہل نعرہ حق بلند کیا ہے اسی طرح ہماری سول و
ملٹری بیوروکریسی، عدلیہ، پولیس، میڈیا، تعلیم، صحت الغرض ہر سرکاری اور
غیر سرکاری محکموں سے مردانِ حق نکلیں اور تمام قانون شکن اور اخلاق شکن
پوشیدہ حرکات کا پردہ فاش کریں کہ امّید کی کرنیں ایسے ہی نمودار ہونگیں (انشاءاللہ)۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے۔
|