میڈیا اور خود احتسابی

دنیا بھر میں ذرائع ابلاغ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ ہمارے ہاں بھی میڈیا کی اہمیت مسلمہ ہے۔گرچہ ہماری حالیہ مطبوعہ صحافت میں مولانا ظفر علی خان اور آغا شورش کشمیری جیسے نا مور صحافیوں جیسا اسلوب، شائستگی، طرحداری اور ہنر کا ری مفقود ہے۔ تاہم تمام تر جدت اور ترقی پسندی کے با وصف ، یہ نا شائستگی اور غیر اخلاقی پن جیسے عناصر سے قدرے دور ہے۔ دوسری طرف تمام تر تیز رفتاری، اثر آفرینی اور بے لاگ پن کے باوجود ،ہمارا الیکٹرانک میڈیا منفی رحجانات کا حامل دکھائی دیتا ہے۔ قابل افسوس امر ہے کہ سبقت اور بر تری کی اندھی دوڑ ، خبر میں تحقیق، تصدیق، اور غیر جانبداری جیسے اہم عناصرکو نگل چکی ہے۔ یہی رحجان تبصروں اوتجزیوں کی صورت بیشتر ٹاک شوز میں دکھائی دیتا ہے۔ جہاں میزبان کا منتہائے مقصود مدعو کیے گئے مہمانوں کو باہم لڑانا اور غیر شائستہ جملے بازی پر اکسانا ہوتا ہے۔ بسااوقات تو گفتگو اخلاقیات و آداب کی تمام حدیں پھلانگتی گالم گلوچ کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے۔دورِحاضر میں انہی خصوصیات کو کسی بھی میزبان اور پروگرام کی کامیابی کی ضمانت گردانا جا تا ہے۔ کیونکہ ریٹنگ ـــ ـــــکا تعاقب مقصدِ اولیٰ ہے۔ محض چند ہزا ر ٹی وی سیٹوں پر نصب آلات کی مدد سے حاصل کیے گئے نمونے کوچودہ کروڑ آبادی کا رحجان قرار دینے کا نام ’’ ریٹنگ‘‘ ہے۔ جسکے طریقہ کار اور مصدقہ ہونے پر بہت سے سوالات تاحال زیر بحث اورجواب طلب ہیں۔پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی مار دھاڑ اور چیخ و پکار سے لبریز ٹاک شوز اور خبر نامے کی بہ نسبت سرکاری ٹی وی تا حال طرز سخن میں شائستگی اور دھیما پن برقرار رکھے ہوئے ہے۔ مگر مواد(contents) کا پھیکا پن اور محدود موضوعات طبیعت کو اچاٹ اور بد مزہ کرنے کاسبب ہوتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب علم و ذہانت اور زبان و بیان پر عبور کو اچھے صحافی کی لازمی خصوصیات تصور کیا جاتا تھا۔ پرنٹ میڈیا میں فی زمانہ بھی یہ رحجان کسی حد تک موجود ہے مگر الیکٹرانک میڈیا پر ان معاملات کو در خورد اعتناء نہیں سمجھا جاتا۔ خاص طور پر خواتین اینکرز کے معاملے پر تو ہم انتہائی سطحی پن کا شکار ہیں۔ گنتی کی پڑھی لکھی یا صحافی پس منظر کی حامل خواتین کے علاوہ ، بیشتر میزبان خواتین محض چہرے مہرے کی بنیاد پر بھرتی کی جاتی ہیں۔ انہیں زیر بحث مو ضوعات کی مناسب معلومات ہوتی ہیں نہ طرز گفتگو کا سلیقہ ۔ پروڈیوسر یاتحقیق کار کی جانب سے سوالات کی ایک فہرست تھما دی جاتی ہے ۔ سو دوران پروگرام بے ڈھنگے پن اور مضحکہ خیز انداز میں کسی ربورٹ کی مانند یہ سوالات داغ دیتی ہیں۔ جن میں گفتگو کا بہاو، تسلسل اور بسا اوقات صحیح مو ضوع بھی ملحوظ نہیں ہوتا۔

گزشتہ کچھ عرصہ سے ٹی وی صحافت میں ہم نے سیاسی طنزو مزاح (political satire)کے نام پر ایک نیا رجحان متعارف کروارکھا ہے۔ دنیا بھر میں ایسے پروگراموں کا ایک اہم مقصدناخواندہ یا نیم خواندہ افراد کو تفریحی انداز میں سیاسی ، معاشی اور سماجی معاملات کے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہوتا ہے۔جبکہ ہم نے ناچ گانے ، غیر معیاری و غیر اخلاقی مذاق،ذومعنیٰ جملے بازی ، خواتین کی غیر ضروری مو جودگی سے مزین ان پروگراموں کے ذریعے تھیٹر کا کلچر ٹی وی پر متعارف کروا دیاہے۔ سیاست دانوں اوردیگر افراد کی تضحیک و تذلیل کو طنز و مزاح قرار دے کر لطف لینا ہماری بے ذوقی اور سطحی پن کے مظہر ہے۔ بیشترتفریحی پروگرام بھی اسی زبوں حالی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب پی ٹی وی کے ڈرامے نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ پڑوسی ملک بھارت میں بھی ذوق و شوق سے دیکھے اور سراہے جاتے تھے۔ آج بھی بھارتی اسکولوں اور اکیڈمیوں میں پی ٹی وی کے ابتدائی دور کے ڈرامے دکھا کر اداکاری اور ہدایت کاری کی تربیت دی جاتی ہے ۔ مگر ادھر یہ حال کہ ہم بھارت کی نقالی میں اپنے ڈراموں کو اپنی تہذیب و اخلاقیات سے انتہائی دور کر بیٹھے ہیں۔ خود پی ٹی وی کے ڈرامے جو ایک وقت میں قابل تقلید تھے آج قابل افسوس حد تک اسی بھیڑ چال کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے ڈراموں کی کہانی اور موضوعات فقط پسند کی شادی اور محبت کی داستانوں تک محدود دکھائی دیتے ہیں۔ بیشتر ڈراموں میں جو صورتحال دکھائی جاتی ہے وہ ایک خاص طبقہ کی نمائندگی کرتی ہے جن کاہمارے عام طبقات اور دینی، تہذیبی ،سماجی اور اخلاقی روایات سے دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا ۔ برہنہ گوئی اور غیر اخلاقی پن آغاز میں فقط اشتہارات تک محدود تھا۔ مگر اب یہ وبا ہمارے ڈراموں میں سرائیت کر چکی ہے۔ زیادہ عرصہ پرانی بات نہیں غالباً میاں نوازشریف کا دوسرا دور حکومت تھا جب پی ٹی وی کے ڈرامے میں ایک مرد اداکار کے قومہ کی حالت میں سوئی اپنی بیوی کا ہاتھ تھامنے کے منظر پر اگلے روز کے اخبارات لوگوں کے احتجاج اور تنقیدسے بھرے پڑے تھے۔ اب ہمارے موضوعات، حرکات و سکنات ، جملوں ، مناظر میں کھلا ڈلا پن نمایا ں دکھائی دیتا ہے۔ غیر ملکی ڈراموں کی بھر مار اور انکی تہذیب و ثقافت کی ترویج نے سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے۔ ایرانی فلم میں ہیروئن پردے اور حجاب میں اداکاری کر کے آسکرایوارڈ میلے تک پہنچ جاتی ہے اور ہم ڈراموں میں بھی حیا باختگی اور غیر اخلاقی پن سے گریز پر آمادہ نہیں۔گلیمر اور جدت کے نام پرملبوسات، موضوعات، طرز سخن اور طرز زندگی کو بھارت یا مغرب کے رنگ میں ڈھالے ہوئے ہیں۔حالانکہ جدت کا تعلق موضوعات کی وسعت اور تخلیق کے معیاری پن اور پیغام کی پختگی سے ہوتا ہے نہ کہ غیروں کی نقالی اور عریاں فکری کی ترویج سے۔یہ طرزِ فکرہماری ذہنی پسماندگی ا ور احساس کمتری کا مظہر ہے ۔یہی حال بیشتر مارننگ شوز میں دکھائی دیتا ہے جہاں گھنٹوں بلا تکان لایعنیٰ گفتگو سننے کو ملتی ہے اور شاذ ہی کوئی سنجیدہ سماجی موضوں زیرِبحث ہوتا ہے۔ اس صورتحال کو تبدیل ہونا چاہیے۔عوام الناس کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے پروگرامز، ڈراموں اور ٹی وی چینلز کا بائیکاٹ کریں۔ کارپوریٹ کلچر کا بنیادی اصول ہے کہ consumer is the king یعنی صارف بادشاہ تصورہوتا ہے۔ سو ٹی وی چینلز کے صارفین یعنی نا ظرین ایسے غیر معیاری ، غیر اخلاقی اور سطحی پروگراموں کابائیکاٹ کر کے ٹی وی چینلز کو کسی قدر راہ راست پر لا سکتے ہیں ۔ اس حوالے سے حکومت وقت پر اولین ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ عام طور پر حکومتیں آزادی اظہار پر قدغن کے الزام سے بچنے کی غرض سے حالاتِ حاضرہ کے پروگراموں کی ضابطہ بندی سے گریزاں ہوتی ہیں۔ مگر تفریحی مواد ، ڈراموں وغیرہ کا قبلہ درست کرنے میں حکومتی اداروں کو کیا امر مانع ہے؟ پیمرا جیسے اداروں کی موجودگی میں بھی اگر چینلز کی سمت درست نہیں ہوتی تو یہ حکومتی اداروں کی کمزوری ، نا اہلی اوربد انتظامی کا مظہر ہے۔اس معاملہ کی اصلاح ِاحوال حکومتی توجہ کامتقاضی ہے۔

خود میڈیا کوبھی اپنا قبلہ درست کرنے اور خود احتسابی کا نظام وضع کرنے کی بے انتہا ضرورت ہے۔ در حقیقت ناظرین غیر معیاری اورسطحی پن کے حامل شورش زدہ پروگرامز دیکھ کر اکتاچکے ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے سے پرائیویٹ نیوزچینلزجن مالیاتی مشکلات کا شکار ہیں اسکی ایک وجہ غالباعوام الناس کی یہی بیزاری ہے جسکی وجہ سے انکی مانگ اور اثر آفرینی ماند پڑ چکی ہے۔ سو میڈیا مالکان کو اس حوالے سے سوچنا پڑے گا۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں جب یہ ٹی وی چینلز اپنا وقار، ساکھ اور اثر انگیزی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حوالے سے حکومت ، عوام الناس اور خود ٹی وی چینلز کو کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ میڈیا کو واقعتا تعلیم، تفریح اور معلومات کا ذریعہ بنایا جا سکے۔

Lubna Zaheer
About the Author: Lubna Zaheer Read More Articles by Lubna Zaheer: 40 Articles with 28514 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.