کچھ لوگ کہتے ہیں اگر گاندھی جی کا بریف
کیس گورے ریل سے باہر نہیں پھینکتے اور اسے اپنے برابری کی بنیاد پر سفر کی
اجازت دیتے، تو ہندوستان میں کبھی بھی آزادی کی تحریک اس طرح کامیاب نہیں
ہوتی اور اسے گاندھی جیسا لیڈر نہیں ملتا- اسی طرح کچھ دوست کہتے ہیں کہ
اگر حکومت نواب اکبر بگٹی شہید کے ساتھ گفت وشنید کرتی اور اپنے وعدوں کا
پاس رکھتی، تو آج بلوچستان میں آزادی کی تحریک نہیں چلتی- گویا یہ تحریک
معروضی حالات کا پیدا کردہ نہیں، نہ ہی یہ آقا و غلام کے درمیان رشتوں کے
تضاد کا آئینہ دار ہے، بلکہ ایک حادثاتی تحریک ہے-
ہماری نظر میں ان دونوں مثالوں کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں-اگر
ہندوستان میں گاندھی جی نہیں اٹھتا، تو کوئی اور آزادی کا پرچم لے کر نکلتا
اور پاکستان سے بلوچستان کی آزادی کے لیے نواب اکبر بگٹی شہید نہیں تو کوئی
اور سالار میدان میں اترتا- تاریخ میں ایسے موڑ پر شخصیتوں کا کردار ضرور
اہم ہوتا ہے-لیکن ان شخصیتوں کے کردار میں نکھار ان کاوہ عمل لاتا ہے جو
حقیقت کو اجاگر اور جھوٹ وفریب کاری کے خاتمے کا سبب بننے میں کلیدی حیثیت
رکھتا ہے- مثال کیلئے سرکاری حمایت یافتہ سردار، نواب اور نوابزادوں کی طرف
دیکھنا ضروری ہے- جن کی شخصیت باعث عبرت وشرمساری ہے، جو بلوچ قوم کے قتل
عام میں یا تو خاموش ہیں یا اس کا حصہ ہیں دوسری طرف وہ بلوچ نواب اور
سردار عام بلوچ کے سامنے قابل تقلید و قابل احترام ہیں جو اس مشکل گھڑی میں
بلوچ قوم کے ساتھ ہیں- بعض دفعہ ایک ہی باپ کی اولاد ہوتے ہوئے ایک بھائی
اپنے عمل سے رسوا اور دوسرا سرفراز و بلند ہوتا ہے- جو لوگ نواب اکبر بگٹی
شہید کو قریب سے جانتے ہیں، وہ اس بات کی ہزار بار گواہی دیں گے کہ وہ
بلوچی ننگ و ناموس پر کبھی بھی سودا بازی نہیں کرتے تھے- لہٰذا جب بلوچ وطن
اور ننگ وناموس کی طرف ناپاک ہاتھ بڑھنے لگے تو آپ جیسا باشعور، دلیر اور
باہمت پیر مرد خاموش تماشائی نہیں بن سکتا تھا- یوں انہیں وطن کیلئے سرخرو
ہونے کا موقع ملا اور نواب صاحب نے اسے ہمیشہ کی طرح وقت شناسی سے کام لیتے
ہوئے ہاتھ سے جانے نہیں دیا- وہ“گورا“جو تین چار پشتوں سے حاکم تھا اور
ہندوستان کے لوگ ان کے غلام تھے- اس کے سوا دوسرا عمل کر ہی نہیں سکتا تھا
کہ اپنی حاکمیت کے گھمنڈ میں“گاندھی جی“یا کسی اور ہندوستانی کو اپنے ساتھ
برابری میں بیٹھنے نہ دے اور اسی طرح چار جنگوں کے بعد بلوچوں کو ہر بار
دھوکہ دینے میں کامیاب ہونے اور انہیں١٩٤٨ء س لیکر آج تک لوٹنے اور اندر سے
کھوکھلا کرنے کے بعد اسلام آباد کا حاکم نواب اکبر بگٹی شہید کے ساتھ مزید
فراڈ کے سوا کچھ اور نہیں کرسکتا تھا- وہ گزیشتہ باسٹھ برس سے مسلسل بلوچ
قوم کی تزلیل کررہے ہیں-ایک ریاست کے الحاق کے کاغذات پرایک میجر کے
زیرنگرانی دستخط کروانا یا ایک کرنل کے ہاتھوں گورنر مکران خان قلات کے
بھائی“آغا عبدالکریم خان“ کے ایک سو پچاس ساتھیوں سمیت سرنڈر و گرفتاری،
نواب نوروز خان جیسے قومی ہیرو کا ایک اسسٹنٹ کمشنر کے سامنے ہتھیار ڈالنے
میں اپنے سرداروں کی شرمناک شرکت کے باوجود، بلوچ قیادت اسلام آباد سے کسی
اور رویہ و سلوک کا طلبگار رہے گا، تو یہ اس کی بھول ہے-
نواب اکبر بگٹی شہید کے ساتھ تمام مذاکرات کو ہر صورت میں ناکام ہونا تھا،
کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ اسلام آباد کو بالکل یہ یقین ہوگیا تھا کہ اب
بلوچ کسی مزاحمت کے قابل نہیں رہا- جس قوم نے اتنی تزلیل برداشت کی ہو اور
اس دوران مزید تقسیم در تقسیم کر کے اس حد تک لائی گئی ہو کہ ہر ایک
رہنما(نواب مری ، سردار مینگل اور نواب بگٹی کے علاوہ) صرف اور صرف اپنے
مفاد کی بات کرتا ہے کسی بھی بڑے سے بڑے سیاستدان کی باتوں میں بلوچ قومی
انٹرسٹ کے مطالبات کا کہیں بھی گمان نہیں-
ذاتی مفادات کے حصار میں گرفتار ایک دست نگر قوم اپنی ملکیت پر کہاں کھڑی
ہوسکتی ہے اسے حق ملکیت سے ہمیشہ کیلئے دستبردار کرنے کے لیے ایک دھکا کی
ضرورت ہوتی ہے اور اس دھکے سے لڑھک کر پستیوں کی طرف جانے کو تیار ہے تو
ٹھیک، نہیں تو بھرپور طاقت کے اسے کچل کر اسے اس قومی حیثیت کے مزید غرور
سے محروم کیا جائیگا- اسلام آباد کی اس طرح کی سوچ کے پیچھے ان کے قاصدوں
کا یہ اظہار یہ بالکل کافی ہے، جو انہوں نے بلاجھجک کہا ہے کہ بلوچستان کے
بڑے بڑے لیڈر مجبوری میں سخت بیانات جاری کرتے اور ان کے بیانات سے آگ
برستی ہے- لیکن اسلام آباد کے اعلیٰ حکام کے سامنے غیر معمولی طور پر غیر
متوقع بہت نرم و لچکدار دکھائی دیتے ہیں- اس ڈپلومیٹک حملے کو اگر عام زبان
میں ترجمہ کیا جائے تو اس کا مطلب ہے یہ ناراضی و مزید برداشت نہیں کریں گے
جیسے بیان دینے والے اس قدر ناراض نہیں اور ان کا مزید لاامتناعی ہے وہ
اپنے مطالبات پر کبھی بھی ثابت قدم نہیں رہتے- وہ اپنے لوگوں کو خوش کرنے
کیلئے یہ بیان دیتے ہیں لیکن اسلام آباد سے ان کی خفگی محض لفاظی ہے- وہ
اسلام آباد کے اشاروں پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے، شاہ سے زیادہ شاہ کے
وفادار نکلتے ہیں۔
ان کم خریدوں کی جھرمٹ میں مرکز نے نواب اکبر بگٹی شہید و کمانڈر بالاچ مری
کو ہر حساب سے تنہا سمجھا- اس خیال اور ایسے غرور میں مبتلا قوم کمزور و
ناتواں اور غلام سمجھے جانے والی قوم کے ساتھ دوسرا رویہ اختیار کرہی نہیں
سکتی- اس ملک کی سب سے بڑی جمہوری لیڈر بینظیر بھٹو بھی نواب اکبربگٹی شہید
کی جراًت وایمانداری سے سیخ پا ہوگئی تھیں- جب نواب صاحب نے ١٩٨٨ء میں صوبے
کا وزیر اعلیٰ بنتے ہی مرکز سے مطالبہ کیا کہ ہمیں گرانٹ و فنڈ کے نام پر
خیرات نہیں بلکہ ہمیں ١٩٥٢ء سے لیکر آج تک کے سوئی گیس کے حصے کے واجبات
ادا کئے جائیں اور آئندہ آمدنی کا حصہ بروقت ملنے کا میکانزم ترتیب دیا
جائے- یہ ایک معمولی مطالبہ تھا، لیکن اسلام آباد اس موضوع اور اس نوعیت کے
سوال پر سوچنے پر بھی آمادہ نہیں ہوا- کئی اخباروں کے اشتہارات صرف اس بات
پر بند کئے گئے جو نواب صاحب کے ایسے مطالبے کے تشہیر میں “مجرم“ قرار پائے-
اگر بلوچستان کے بارے میں اسلام آباد کے حاکموں کے ذہن میں غلام کا تصور
نہیں ہوتا، تو اس نوعیت کے ہر لحاظ سے جائز سوال و مطالبہ پر برہم ہونے کی
قطعتاً ضرورت نہیں تھی- ایک معمولی مطالبہ کہ گیس کمپنیوں کے بورڈ آف
ڈائریکٹرز میں بلوچستان کو نمائندگی دی جائے، ڈیرہ بگٹی فورسز کے ذریعے
گھیرے میں لینے کی کیا ضرورت تھی-
ایسا ہی درست مطالبہ اسلام آباد کے سامنے رکھنے کی پاداش میں نواب صاحب کے
خلاف اسی کی دہائی سے ریشہ دوانیوں میں شدت پیدا کی گئی اور بات آخر اس حد
تک پہنچ گئی کہ بینظیر بھٹو نے نواب صاحب کا عمل دخل گیس کمپنی سے مکمل طور
پر ختم کردیا- تمام معاہدات جو نواب صاحب اور اس کے والد صاحب کے ساتھ مرکز
نے پی پی ایل کی شکل میں کئے گئے تھے سب سے ڈنڈے کی زور پر انکاری ہوئی
دوسری طرف نواب صاحب کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان کھڑا کیا گیا اور یہ افواء
پھیلائی گئی جیسے اسلام آباد گیس کے واجبات ابھی تک ادا کرتا آیا ہے لیکن
نواب بگٹی نے اسے بلوچوں تک نہیں پہنچایا ہے- یہ ایک گھناؤنا جھوٹ تھا
حقیقت یہ تھی کہ جب ١٩٥٢ء میں برٹش کمپنی نے نواب محراب خان بگٹی(نواب اکبر
بگٹی کا والد) سے جو معاہدہ کیا تھا اس کی رو سے کمپنی اس علاقے میں جو بھی
چیز استعمال کرے گی اس کا معاوضہ مالک کو ادا کرے گی- اس میں لکڑی، پانی،
ریت غرض جو بھی چیز استعمال میں لائی جائے گی، اس کا معاوضہ زمین کے مالک
کو ادا کیا جائے گا- کمپنی نواب صاحب کی زمین کے کرایہ کو معاوضہ کہہ کر
مکروہ جھوٹ سے عام بلوچ کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہی تھی تاکہ وہ اس سلسلے
میں نواب صاحب کے اسٹینڈ کی حمایت نہ کریں- اس کے علاوہ بلوچی رواج کے
مطابق سردار کے مہمان خانے، خوشی غمی، بجار قبیلے کے لوگ دیتے ہیں تقریباً
پندرہ سو کے قریب بگٹی گیس کمپنی میں ملازم تھے وہ اس خوشی غمی میں اپنی
تنخواہ کا دس فیصد نواب صاحب کو دیتے تھے- کمپنی اس کو بھی واجبات کی مد
میں گن کر غلط افواہیں پھیلاتی رہی- اس زہریلے پروپیگنڈے کے ساتھ ساتھ نواب
صاحب کے مخالفین کو بینظیر کی حکومت نوازنے لگی- وہ لوگ جو ضیاء الحق کے
زمانے میں اسلام آباد کے قریب آگئے تھے، وہی لوگ پیپلز پارٹی کیلئے نواب
صاحب کو کنارہ کرنے کے لیے قابل قبول ہوئے، جس سے یہ بات واضح ہوئی کہ
اسلام آباد نواب بگٹی کی آواز کو دبانے کیلئے شیطاں سے بھی اتحاد کو راضی
ہے تاکہ ایسا نہ ہوکہ نواب صاحب اس مسئلے کو ڈیرہ بگٹی کے دائرے سے نکال کر
بلوچستان کے سیاسی مسائل س جوڑ دے-
جب کسی قوم کے رہنما اس حد تک ناعاقبت اندیش ہوتے ہیں تو انہیں کوئی حق
نہیں دیتا، بلکہ انہیں خیرات بھی اس قت تک ملتی رہے گی کہ جب تک ان کے
درمیان کوئی سردار مینگل، نواب مری و نواب بگٹی جیسے لوگ ہوں گے- انہیں
تنہا و الگ کرنے کیلئے سرکار کچھ قبائلی و سیاسی لیڈروں کے سامنے خیرات کے
ٹکڑے پھینکتی رہے گی- اس چیز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ضیاءالحق کے مارشل لاء
کے سیاسی پیداوار نواز شریف نے بھی نواب صاحب کی استقامت کی ڈر سے انہیں
صوبے میں بھاری اکثریت رکھنے کے باوجود حکومت بنانے نہیں دیا- صوبائی
اسمبلی میں ١٤ نشستیں رکھنے کے باوجود نواب بگٹی کی، جمہوری وطن پارٹی(جے
ڈبلیو پی) پیچھے اور نواز شریف کی مسلم لیگ، تاج جمالی کی سربرائی میں آگے
آگئی- تاج جمالی نواب صاحب کی نسبت اسلام آباد کو ہر لحاظ سے سوٹ کرتا تھا-
ایک تو یہ خاندان جدی پشتی مسلم لیگی ہے، دوسرا تاج جمالی وہ شخص تھا جو
اپنے اور اپنے جیسے دوسرے بلوچستان کے تمام لیڈروں( مری، مینگل، بگٹی صاحب
کے بغیر) کے بارے میں اکثر کہتے تھے“جب ہم اسلام آباد میٹنگ کے لیے جاتے
ہیں تو ہمارے پاس ایک سفید کاغذ ہوتا ہے اور وہ بھی ہم سے پہلے ٹیبل پر
رکھا ہوتا ہے جبکہ نواب بگٹی صاحب جب جاتے ہیں تو وہ پوری تیاری کے ساتھ،
ہر مسئلے کی الگ فائل بنا کے جاتے ہیں- اسلام آباد کے بیوروکریٹ ہمیں اعداد
و شمار میں الجھا دیتے ہیں- جس سے ہمیں بالکل پتہ نہیں چلتا کہ کیا اچھا،
کیا برا ہے- لہٰذا اپنی کم علمی کی وجہ سے ہم خاموش ہوجاتے ہیں اس کیفیت
میں وہ جو بھی تجویز دیتے ہیں ہم ہاں کر کے واپس آجاتے ہیں، جبکہ نواب بگٹی
صاحب کے سامنے اسلام آباد والوں کا منہ کھلتا- اس کے پاس ان کے ہر سوال کا
دلیل کے ساتھ جواب موجود ہوتا ہے- مختصراً یہ کہ ہم اسلام آباد والوں کے
سامنے بھیگی بلی بنتے ہیں جبکہ نواب بگٹی کے سامنے ان کی بولتی بند ہوجاتی
ہے“-
نواب صاحب کی یہی قابلیت اسلام آباد کے ارباب اقتدار کی آنکھ میں ہمیشہ
کانٹے کی مانند کھٹکتی رہی- ١٩٩٠ء میں نواز شریف نے بینظیر بھٹو کے روکے
ہوئے واجبات ادا کئے- لیکن مجموعی طور پر نواب صاحب جس طرح زیر عتاب تھے
اسی طرح مسلسل دباؤ میں رہے- یا یوں کہا جائے کہ مرکز اپنی مجبوری کے تحت
کبھی ہاتھ ڈھیلا کبھی سخت رکھتا، لیکن ان کی خواہش ہمیشہ یہی رہی کہ نواب
بگٹی کو کیسے راستے سے ہٹایا جائے یا کم از کم اسے کم اثرکیا جائے-
اسی کی دہائی میں ضیاءالحق سے لیکر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں جماعتوں
نے ان کے مخالفین کی جی کھول کر مدد کی- غلام قدر مسوری، احمدان راہیجہ اور
خان محمد کلپر کی سرپرستی کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی گئی- بے شمار
سازشیں کی گئیں ایسی ہی ایک گھناؤنی سازش کے تحت نواب صاحب کے جوان سال
بیٹے سلال بگٹی کو کوئٹہ کے بھرے بازار میں ٢جون ١٩٩٣ میں شہید کیا گیا-یہ
وہ ضرب کاری تھی کہ کسی بھی باپ کو ہمیشہ کیلئے ہر لحاظ سے اپاہج بناسکتی
ہے لیکن نواب بگٹی نے انتہائی جرات سے اس غم کو نہ صرف سہنے کی قوت دکھائی،
بلکہ دشمنوں کیلئے غیر متوقع طور پر کمزور ہوئے اور نہ ہی آپ کے ارادوں کے
قدم لڑکھڑائے- بقول نواب صاحب یہ غم اتنا شدید تھا کہ جب ڈاکٹر نے بے
اعتنائی سے کہا، سلال ہم میں نہیں رہے تو میں نے محسوس کیا زمین میرے پاؤں
کے نیچے سے کھسک گئی وہ لمحہ اتنا بھاری گزرا کہ میں گر بھی سکتا تھا آپ
نےاس غم کی شدت کی یوں وضاحت کی تھی“ سلال بیٹا تھا اور ہر باپ اپنی اولاد
سے پیار کرتا ہے لیکن اس کے غم میں یہ احساس مزید شدت لاتی ہے کہ وہ تو بے
گناہ نوجوان تھا اس نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا تھا“ جبکہ نواب صاحب کے
دشمنوں کو اس چیز کا بخوبی علم تھا اس لئے انہوں نے پیٹھ پیچھے اس جگہ وار
کیا جہاں سب سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے- (جاری) |