اپنے گزشتہ کالم ( بریگیڈیر ( ر)
امتیاز کا متنازعہ انٹرویو ) میں ہم نے عرض کیا تھا کہ اس حوالے سے مزید
باتیں اپنے اگلے کالم میں شامل کریں گے تو یہ کالم اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
دراصل یہ متحدہ کے قائد کا ایک اور ڈرامہ تھا جو کہ بری طرح فلاپ ہوگیا۔
انہوں نے میڈیا پر مگرمچھ کے آنسو بہائے اور نواز شریف سے مطالبہ سوال کیا
کہ وہ جواب دیں کہ انہوں نے کراچی میں بیانوے کا آپریشن کیوں نہیں رکوایا؟
پندرہ ہزار بے گناہ کارکنوں کے خون کا حساب کون دے گا؟ لیکن اس میں انہوں
نے ایک بار پھر یہ احتیاط رکھی کہ موجودہ پی پی پی حکومت جس کے یہ اتحادی
ہیں اس کا سرے سے کوئی نام ہی نہیں لیا گیا جبکہ اہل کراچی اچھی طرح جانتے
ہیں کہ کراچی میں بد ترین آپریشن پی پی پی کی حکومت میں کیا گیا تھا اور
جنرل (ر) نصیر اللہ بابر کراچی میں ایک خوف کی علامت بن گئے تھے۔ ایم کیو
ایم کے بقول ان کے جو کارکن ماورائے عدالت قتل کیے گئے وہ پی پی پی دور میں
قتل کیے گئے۔ لیکن مفاد پرستی کی سیاست کا تقاضہ تھا کہ آنسو تو بہائے
جائیں لیکن اقتدار کو بھی کوئی خطرہ نہ پیدا ہو اس لیے پی پی پی سے کوئی
سوال نہیں کیا گیا بلکہ صرف میاں نواز شریف کی ذات کو ہدف تنقید بنایا گیا۔
تجزیہ نگاروں اور سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ سارا ڈرامہ بارہ مئی کی
تحقیقات رکوانے اور جنرل مشرف کے ٹرائل سے قوم کی توجہ ہٹانےکی ایک بھونڈی
کوشش تھی جو کہ خود متحدہ ہی پر پلٹ گئی ہے اور اب متحدہ قومی موومنٹ کو
لینے کے دینے پڑ گئے ہیں کیوں کہ بریگیڈیر امتیاز کے یہ شوشہ چھوڑنے کے بعد
بات یہیں ختم نہیں ہوگئی بلکہ اب نئے سرے سے اس کے حوالے سے باتیں سامنے
آرہی ہیں اور تمام حقائق یہ بتا رہے ہیں کہ یہ آپریشن کراچی میں جرائم پیشہ
افراد کے خلاف تھا جس میں اکثریت متحدہ قومی موومنٹ جو کہ اس وقت مہاجر
قومی موومنٹ تھی اس کے کارکنان کی تھی۔ اس لیےایم کیو ایم نے اپنی سیاسی
پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس آپریشن کے خلاف واویلا مچایا تاکہ اپنے
کارکنان کے جرائم کو چھپا کر انکو شیلٹر فراہم کیا جائے۔
کور کمانڈر سندھ جنرل (ر) نصیر اختر نے واضح طور پر یہ کہا کہ جناح پور کا
معاملہ تو بہت بعد میں اٹھایا گیا اصل میں آپریشن کراچی میں جرائم پیشہ
افراد کے خلاف تھا اور یہی بات سابق سربراہ آئی ایس آئی جنرل اسد درانی نے
بھی کہی کہ وہ آپریشن کسی سیاسی جماعت کے خلاف نہیں تھا بلکہ جرائم پیشہ
افراد کے خلاف تھا اور انہوں نے مزید کہا کہ اس میں بھارتی عناصر ملوث تھے۔
ایم کیو ایم کا کہنا ہےکہ ہم پر ظلم ہوا اور ہمارے پندرہ ہزار کارکن ایک بے
جواز آپریشن کی بھینٹ چڑھ گئے، ایم کیو ایم کا مؤقف ہے کہ ہمارے خلاف
آپریشن جناح پور کی بنیاد پر کیا گیا تھا جو کہ جھوٹ تھا جبکہ بریگیڈیر
امتیاز کے علاوہ اس وقت کی عسکری قیادت کا یہی کہنا ہے کہ جناح پور تو کہیں
بعد کا ایشو ہے لیکن آپریشن جرائم پیشہ افراد کے خلاف تھا۔ اس حوالے سے
محترمہ بے نظیر بھٹو کے سابق ملٹری سیکرٹری جنرل (ر) عبدالقیوم کا امت
اخبار کراچی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا ہے کہ میں بوری بند لاشوں کا عینی
شاہد ہوں، ( ویسے کراچی کا رہائشی ہونے کے باعث ہم بھی کئی لاشوں کے شاہد
ہیں ) انہوں نے مزید کہا کہ “ ان دنوں کراچی میں خاصی گڑبڑ تھی لہٰذا ان کا
کہنا ہے کہ آپریشن کرمنلز کے خلاف تھا، بہت سے کرمنلز ایسے تھے جو کہ ایم
کیو ایم کے ونگز کے نیچے پھنسے ہوئے تھے جبکہ متحدہ کو کہنا ہے کہ آپریشن
ہمارے خلاف تھا تو کوئی تو بات تھی، کراچی میں رہنے والوں کو پتہ ہے کہ اس
وقت کس طرح ٹارچر سیل برآمد ہو رہے تھے، بوری بند لاشیں مل رہی تھیں۔ حکیم
محمد سعید جیسی شخصیت کو قتل کیا گیا، میجر کلیم پر تشدد کیا گیا تھا، کسی
نے تو یہ سب کیا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ ١٩٩٣ میں بی بی کے ملٹری
سیکرٹری کے طور پر کراچی کا دورہ کیا تھا اور اپنی آنکھوں سے بوری بند
لاشیں دیکھی تھیں۔ اس وقت کراچی میں آگ لگی ہوئی تھی، لوگوں کی زندگی اجیرن
تھی، انہیں کسی قسم کا تحفظ حاصل نہیں تھا، دہشت گرد دندناتے پھر رہے تھے،
بہت سے پولیس اسٹیشنوں کے ایس ایچ اوز قتل کردیئے گئے تھے۔ بڑی اندوہناک
صورتحال تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اصل صورتحال کا جائزہ لینا ہے تو جنرل (ر) نصیر اللہ
بابر سے پوچھا جائے کہ اس وقت کیا ہورہا تھا لیکن ایسا نہیں کیا جائے گا
کیونکہ یہ سب کچھ بتانے والے اس وقت کولیشن میں بیٹھے ہیں۔ انہوں نے ایک
سوال کے جواب میں کہا کہ بریگیڈئر(ر) امتیاز معتبر نہیں ہیں وہ جب نیب
وغیرہ سے نکلے تو ان پر کرپشن کے الزمات تھے اور یہ سب کچھ اخبارات میں بھی
آیا تھا۔ جب کسی پر اس قسم کے الزمات ہوں تو وہ متنازعہ شخصیت بن جاتی ہے۔
لہٰذا ان کے بیانات کے مصدقہ ہونے بارے میں بھی شکوک و شبہات رہتے ہیں۔(
روزنامہ امت جمعرات ٢٧ اگست ٢٠٠٩ )
قارئین یہ بھی تصویر کا ایک رخ ہے اور ابھی اس حوالے سے کئی باتیں سامنے
آئی ہیں اور مزید سامنے آئیں گی۔ اگر زندگی رہی تو اس پر مزید بات کریں گے۔
یہاں یہ بات واضح کردیں کہ جو لوگ کراچی اور حیدرآباد وغیرہ میں رہتے ہیں
وہ تو اچھی طرح تمام حقائق کو جانتے ہیں لیکن دیگر شہروں کے رہنے والے عوام
کو اصل حقائق کا علم نہیں ہے اس لیے ہم کوشش کریں گے کہ قارئین تک حقائق
پہنچائیں۔ |