آئین کی اسلامی دفعات پر عمل نہ کرکے پاکستان کی روشن
خیال حکومتوں نے طالبان کا فتنہ کھڑا کیا ہے۔ جسے ہم جدید دورِفتن کہ سکتے
ہیں۔ پہلا دورِفتن حضرت علی (رض) کے دورِ خلافت میں مسلمانوں کی خانہ جنگی
تھی جسمیں کہا جاتا ہے کہ ستّر ہرار سے زائد مسلمان شہید ہوئے اور اس خانہ
جنگی کا خاتمہ اس خوف سے ھؤا کہ اگر یہ جاری رہی تو اُس وقت تک مسلمانوں نے
جتنے علاقے حاصل کرلئے تھے وہ تمام فتوحات ضائع ہو جائیں گی اور مفتو ح
قومیں خدا نخواستہ مسلمانوں کو شکست دے کر انکی عورتوں اور بچوں کو کنیز و
غلام بنا لیں گی۔
خانہ جنگی سے جو خطرہ اسوقت تھا وہ اسوقت بھی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ
کیا خانہ جنگی کے بعد پاکستان، جسکی فوجی قوّت جو پہلے ھی بھارت سے کم ہے،
اپنے ازلی دشمن بھارت کا مقابلہ کرنے کے لائق رہ جائے گا؟ یاد رہے کہ طویل
گوریلا جنگوں سے فوجیں تھک جاتی ہیں اور حکومتیں دیوالیہ ہوجاتی ہیں۔ اگر
بھارت جارحیت کرتا ہے تو خانہ جنگی کے ماحول میں کیا ہمارا حوصلہ بھی ویسا
ہی ہوگا جیسا1965 میں تھا۔ دوسری مثال مسلم اسپین کی ہے جس پر مسلمانوں نے
سیکڑوں سال حکومت کی وہاں بھی مسلمانوں کی خانہ جنگی نے اسپین کے عیسائیوں
کو غالب کردیا اور انہوں نے مسلما نوں کو نکال باہر کیا۔
موجودہ خانہ جنگی کا خاتمہ کچھ مشکل نہیں۔ حکومت فوجی کاروائی روک کر اعلان
کرے کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ سب ہتھیار ڈال دیں۔ حکومت یکم جولائی
سے (یعنی جلد از جلد ) آئین کی اسلامی دفعات پر خلوصِ دل سے عملدرآمد شروع
کردے گی۔ اس عمل میں آئین کی اسلامی دفعات کی حقیقی روح کے مظابق نئے
الیکشن کرانا اور نئی حکومت کے ذریعے معیشت سے سود کا خاتمہ کرانا سرِفہرست
ہوگا۔ اس اعلان سے 80 فیصد طالبان اور دیگر ذیلی تنظیمیں حکومت کے حامی بن
جائینگے۔ اس کے بعد حکومت کے خفیہ ادارے اور سچے طالبان مل کر طالبان کے
بھیس میں دشمن کے تخریب کار ایجنٹوں کا پتہ لگا کر ان کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ |