قارئین جناح پور اور بریگیڈئر
امتیاز کے حوالہ سے ہمارا یہ سلسلہ ابھی جاری ہے کیوں کہ ابھی انکشافات کا
سلسلہ بھی جاری ہے اور بریگیڈئر امتیاز کے بعد آئی ایس آئی اور فوج کے کئی
سابق افسران سے میڈیا نے رابطہ کیا اور جناح پور اور بیانوے کے کراچی
آپریشن کے متعلق کئی مزید باتیں سامنے آئی ہیں۔ جیو ٹی وی کے پروگرام کیپٹل
ٹاک میں شو کے دوران حامد میر نے کراچی آپریشن کے ایک اہم کردار اور اس وقت
کے ڈی جی رینجرز اور سابق آئی ایس آئی آفیسر میجر ندیم ڈار سے ٹیلیفون پر
رابطہ کیا۔
حامد میر نے ان سے جناح پور کے حوالے سے سوال کیا تو میجر ندیم ڈار نے جواب
دیا کہ “ جناح پور کے نقشے میں نے خود برآمد کئے تھے، انہوں نے کہا کہ
بیانوے کے آپریشن میں میری تعیناتی لیاقت آباد نمبر دس کے ڈی اے فیلڈ آفس
میں تھی۔ اس دوران میں نے خود الطاف حسین کےگھر نائن زیرو اور ایم کیو ایم
کے ہیڈ کواٹر واقع الکرم اسکوائر میں چھاپہ مارا تھا اور ہم نے تین دن تک
وہاں کی تلاشی لی تھی جہاں سے ہزاروں کی تعداد میں پمفلٹ اور جناح پور کا
نقشہ برآمد کیا تھا۔ اس موقع پر حامد میر نے ان سے استفسار کیا کہ بریگیڈئر
امتیاز کا کہنا ہے کہ جناح پور کے نقشہ ڈرامہ تھا، اس کے جواب میں میجر
ندیم ڈار نے غیر متوقع طور پر یہ کہا کہ “ بریگیڈئر امتیاز میرے سینئر ہیں
لیکن میں معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں“ ( یہاں یہ بات
واضح رہے کہ کسی بات پر یہ کہنا کہ یہ غلط کہہ رہے ہیں یا انہیں پتہ نہیں
ہے ایک الگ بات ہے اور کسی کو اس کے منہ پر یہ کہہ دینا کہ یہ جھوٹ بول رہے
ہیں بہت بڑی بات ہے )انہوںنے مزید کہا کہ بریگیڈئر امتیاز تو کبھی کراچی
سینٹرل آئے ہی نہیں وہ کیسے جناح پور کی تردید کررہے ہیں۔ انہوں نے نجی ٹی
وی سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ “ اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں کے قاتل
متحدہ کے شہود ہاشمی ( اے پی ایم ایس او کراچی کا سابق انچارج،) کو جب
گرفتار کیا تو بریگیڈئر امتیاز نے دھمکی دی تھی کہ اسے رہا کردو ورنہ
تمہاری وردی اتروا دونگا۔ جنرل نصیر اختر کے بارے میں انہوں بتایا کہ وہ تو
اتنے کرپٹ ہیں ان کے خلاف تو میں نے اس وقت بھی آواز اٹھائی تھی۔ انہوں نے
بتایا کہ صرافہ بازار کراچی سے بھارتی کرنسی اور سونا برآمد کیا تھا، جس پر
ہمیں پیسوں کی آفر ہوئی لیکن ہم نے انکار کیا اور مقدمہ درج کرا دیا لیکن
جنرل نصیر نے مقدمہ درج ہونے کے باوجود ملزمان کوزبردستی چھڑایا تھا۔(
کیپٹل ٹاک جیو ٹی وی میں ٹیلیفونک گفتگو بدھ ٢٦ اگست،روزنامہ امت کراچی
جمعرات ٢٧ اگست )
قارئین بریگیڈئر امتیاز نے ایک اور دعویٰ بھی کیا کہ “ جنرل حمید گل کی
ہدایت پر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے پاس پیسوں کا بریف کیس لیکر
گیا تھا اور ان کو دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے کا کہا
تھا۔ تاہم انہوں نے وہ بریف کیس واپس کردیا اور دائیں بازو کی جماعتوں کی
حمایت سے انکار کردیا تھا “ یہ بریگیڈئر امتیاز کا بیان ہے۔ اس حوالے سے جب
جنرل حمید گل سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس کی تردید کی اور کہا کہ “
بریگیڈئر امتیاز کو میں نے الطاف حسین کے پاس بھیجا تھا لیکن وہ کوئی سیاسی
پیغام لیکر نہیں گئے تھے بلکہ الطاف حسین کو یہ بتایا تھا کہ کراچی میں
بھتہ خوری، دہشت گردی اور دیگر جرائم عام ہیں اور آپ کی جماعت ( ایم کیو
ایم ) پر ان جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔ لہٰذا آپ اس طرف توجہ دیں۔“
جنرل حمید گل کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے اگر کوئی انکوائری کی جاتی ہے تو
وہ اس میں اپنا بیان دینے کو تیار ہیں۔
دوسری جانب بریگیڈئر امتیاز کے قریبی ساتھی اور اینٹی کرپشن کے سابق
ڈائریکٹر ملک ممتاز کا کہنا ہے کہ “ بریگیڈئر امتیاز ایک چلا ہوا کارتوس
ہیں، وہ اس وقت چاہتے ہیں کہ انہوں کوئی اسامی ملے اور وہ اپنی مہارتیں
دکھا سکیں۔ یہ صاحب نیب سے سزا پا کر کر مشرف کے دور میں اڈیالہ جیل میں
تھے۔ اس دوران انہوں نے کوشش کی کہ آصف زرداری کے ساتھ معافی تلافی کر کے
اچھے مراسم بنائیں۔ اب جب یہ دیکھ رہے ہیں کہ فلاں کو فلاں عہدہ مل گیا ہے،
فلاں، فلاں جگہ پر چلا گیا ہے۔ ان میں وہ بھی ہیں جو کرپشن میں فرنٹ مین
تھے اور آج بہت اعلٰی پوزیشن پر ہیں تو انہوں نے کہا میرا بھی کچھ کرو، جس
پر انہیں کہا گیا کہ جناب کچھ کر کے دکھاؤ، تو اب یہ کچھ کر کے دکھا رہے
ہیں کہ دیکھو میں کیسے نواز شریف کو دفاعی پوزیشن میں لاتا ہوں۔ “ ایم کیو
ایم سے بریگیڈئر امتیاز کے تعلق کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں
ملک ممتاز صاحب نے انکشاف کیا کہ “ یہ تعلق آج کا نہیں ہے، میں جب ١٩٩١ میں
جلا وطنی کاٹ رہا تھا لندن میں تو اس دوران الطاف حسین فرار ہوکر وہاں گئے،
ہم نے سنا کہ الطاف حسین کو جہاز میں سی آف امتیاز نے کیا تھا۔ ان کا تعلق
اس وقت سے تھا، ایک اور راز کی بات بتاؤں کہ لندن میں ہم ایک مظاہرہ کرنے
گئے جام صادق کے خلاف تو وہاں جام صادق علی اور الطاف حسین ایک ہی جگہ
موجود تھے۔ ( واضح رہے کہ کراچی کا آپریشن جب شروع کیا گیا تھا تو اس وقت
جام صادق علی مسلم لیگ ن کے اہم رہنما تھے )
قارئین ملک ممتاز صاحب نےاور بھی بہت سارے انکشافات کیے ہیں لیکن وہ خالصتاً
بریگیڈئر ( ر) امتیاز کی ذات کے حوالے سے ہیں اس لئے ہم ان کا یہاں ذکر
نہیں کریں گے البتہ یہ بتاتے چلیں کہ ملک ممتاز صاحب نے انکی کرپشن کے کئی
ثبوت پیش کئے ہیں۔
اب ان تمام باتوں کو سامنے رکھیں تو یہ تصویر واضح ہوتی ہے کہ ایم کیو ایم
کے جرائم پیشہ اور قاتل کارکنوں کو بریگیڈئر امتیاز اور جنرل نصیر اختر نے
شیلٹر فراہم کیا۔ دوسرا یہ کہ بریگیڈئر امتیاز کی ایم کیو ایم سے ہمدردی
بیانوے سے قائم ہے۔ تیسرا یہ کہ بریگیڈئر امتیاز ایک کرپٹ فرد ہیں۔ چوتھی
اور آخری بات یہ کہ بریگیڈئر امتیاز نے جو جو بھی انکشافات کئے ہیں تمام
ذرائع اور سابق آئی ایس آئی اور آرمی افسران نے اس کی تردید کی ہے۔ جنرل
ندیم ڈار نے ان کو جھوٹا قرار دیا۔ غلام مصطفیٰ کھر نے ان کو مناظرے کا
چیلنج دیا، جنرل حمید گل نے الطاف حسین کو رقم کی پیش کش کرنے کے بریگیڈئر
امتیاز کے دعویٰ کو غلط کہا ہے اور کسی بھی انکوائری کے سامنے پیش ہونے پر
آمادگی ظاہر کی ہے۔ ملک ممتاز کے مطابق انہوں نے بے انتہا کرپشن کی ہے اور
ان کا ایم کیو ایم سے تعلق کم و بیش اٹھارہ سال پرانا ہے۔
ان تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بریگیڈئر امتیاز کا “ ضمیر جاگنے اور سچ
بولنے “ کا دعویٰ غلط ہے بلکہ اس کے پس پردہ کچھ اور مقاصد ہیں اور جو
مقاصد سامنے نظر آرہے ہیں ان میں سر فہرست سابق صدر مشرف کے ٹرائل سے لوگوں
کی توجہ ہٹانا، بارہ مئی کے حوالے سے تحقیقات اور انکوائری کو مشکوک بنانا،
اور ایم کیو ایم کو ایک جرائم سے پاک اور سیاسی گروہ ثابت کرنے کی کوشش ہے۔
انہوں نے کوشش کی ہے کہ اس طرح دیگر فوائد کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کے
دامن کو بھی صاف کردیا جائے۔ لیکن ان کی یہ کوشش بری طرح ناکام ہوگئی ہے۔
اگر زندگی رہی تو اپنے اگلے کالم میں ہم بریگیڈئر امتیاز کے انٹرویو کے بعد
ایم کیو ایم کے واویلہ مچانے، حساب طلب کرنے، نواز شریف پر چارج لگانے کے
بعد دو ہی دن میں دوبارہ دفاعی پوزیشن پر آنا اور وضاحتیں کرنے پر بات کریں
گے اور کوشش کریں گے کہ جناح پور کی حقیقت بھی بیان کریں یہاں یہ واضح رہے
کہ جناح پور کا قصہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے اور یہ کوشش ابھی تک جاری ہے |