کسی بھی ملک کا سربراہ جب کسی
دوسرے ملک کے دورے پر روانہ ہوتا ہے تو اس دورے کی خارجی سطح پر تیاری کے
لیے کم از کم ٥ سے ٦ مہینے لگتے ہیں۔ جبکہ ہمارے صدر صاحب کی ٹیم اتنی تیز
ہے کہ دو، تین مہینوں میں ہی تین سے چار ملکوں کے طویل دورے تیار کر لیتی
ہے۔ یا پھر ہمارے صدر صاحب ہی دو، تین مہینوں ایوان صدر سے اکتا جاتے ہیں
اسی لیے اپنی اکتاہٹ دور کرنے کے لیے ملکوں، ملکوں کی سیر کو نکل جاتے ہیں۔
صدر صاحب کے وفد میں بھی ایسے ایسے لوگ شامل ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر غصہ کم
اور ہنسی زیادہ آتی ہے۔ وفد میں وفاقی کابینہ تو آٹے میں نمک کے برابر ہوتی
ہے البتہ وزیر خارجہ کی جگہ وزیر داخلہ ضرور موجود ہوتے ہیں۔ اب صدر صاحب
کے برطانیہ کے دورے کو ہی لے لیجئے اس میں (سابق) مشیر پٹرولیم کا کیا کام۔
جب کسی ملک کا سربراہ کسی دوسرے ملک دورے پر جاتا ہے تو وہ صرف اس ملک کی
اعلیٰ قیادت سے ملاقات کرتا ہےاور دارلحکومت سے باہر جھانک کر بھی نہیں
دیکھتا۔ جبکہ اس کے برعکس ہمارے صدر صاحب جب چین کے طویل دورے پر گئے تو
صوبوں کے دارلحکومتوں کی سیر بھی کر آئے اور چین کے مختلف عہدوں پر فائز
سیکٹریوں سے ملاقات کا شرف بھی حاصل کیا ان تمام دوروں کی وجہ سے جس طرح
ہمارے ملک کا وقار متاثر ہو رہا ہے اور جس طرح عوام کا پیسہ ضائع کیا جا
رہا ہے اس کا ازالہ کون کرے گا؟ |