شہید کون غازی کون ؟

 ہم ہی قتل کر رہے ہیں
ہم ہی قتل ہو رہے ہیں
گولی اِدھر سے چلتی ہے توکلمے کی صداکے ساتھ چلتی ہے ۔گولی سینہ پار کرتی ہے تواُدھر سے بھی لا الہ کی گونج سنائی دیتی ہے۔کون قاتل ٹھہرا کون شہید ؟کون مقتول ہوا کون غازی؟ کون جنت کا مستحق ہوا کون جنت سے محروم ہوا؟ایک سپاہی وطن کی سا لمیت کے لیے جذبہ شہادت سے آگے بڑھا اور جان سے گزر گیا تو دوسرا کلمے کی سربلندی کے لیے یہود ونصاریٰ کے خلاف برسرپیکار ہوتے ہوئے جان جانِ افرین کے سپرد کر گیا ۔ طائران ِخوشالحان درختوں پر حیران و پریشان ہیں آخر وہ کس کی مدد کو پہنچیں قاتل کی یا مقتول کی؟ غازی کی یا شہید کی؟ مجاہد کی یا سپاہی کی؟وطن عزیر کی خاطر لڑنے والے کی یا کلمہ حق بلند کرنے والے کی؟آخر وہ کنکر پھینکیں تو کس پر۔؟آج مملکت خداداد پاکستان تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے حق پر کون ہے باطل پر کون؟ کس کوحق کا علمبردار ٹھہرایا جائے اور کس کو باطل کا۔۔ ایک طرف کا دعویٰ کے مملکت خداد اد کی سا لمیت اور امن عامہ کی قیام کے لیے دہشت گردی کے خلاف جدوجہد ہورہی ہے دوسری طرف کا دعویٰ کے کلمہ کی سربلندی اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے اسلام دشمن قوتوں سے برسرپیکار ہیں۔ ایک طرف کا الزام کے امریکہ کی جنگ میں اتحادی بن کر اپنے ہی مسلمانوں کا گلہ کاٹ رہے ہیں۔ دوسری طرف کا الزام کے دہشت گردی، خود کش دھماکوں کے ذریعے معصوم شہریوں کا قتل عام کر رہے ہیں ۔ کتنی ستم ظریفی کی بات ہے غیروں کی جنگ میں ہم ہی قتل کر رہے ہیں اور ہم ہی قتل ہو رہے ہیں۔نہ جانے ہم کس کو فائدہ اور کس کو نقصان پہنچا رہے ہیں؟

آج کل موضوع زیر بحث شہادت کس کو نصیب ہوئی اور بے موت کون مارا گیا؟اور یہ معاملہ شروع ہوا امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کے بیان سے جس میں انہوں نے کہا اگر امریکی مرے تو شہید نہیں کہلوا سکتا تو امریکہ کی جنگ میں اس کے شانہ بشانہ لڑنے والے کی شہادت بھی سوالیہ نشان ہے۔شاید اس بیان سے اس حالیہ جاری جنگ میں شہیدہونے والے ہزاروں شہدا کی روحیں بھی تڑپی ہوں گی ان کے ورثا بھی غمگین ہوئے ہوں گے اور ہونا بھی چاہیے جس کا جوان بیٹا وطن کے لیے جان قربان کر دے اور شہادت کی منزل بھی نہ ملے تو دکھ تو ہوتا ہے۔ پھر عام سپاہی کا کیا قصور وہ تو حکم کا پابند ہے وہ تو اتنا شعور نہیں رکھتا ۔امریکی اتحادی توصاحب اقتدار حکمران اور پاک آرمی کے بڑے افیسران ہیں محاذوں پر تو عام سپاہی لڑتے ہیں۔وہ کیا کریں؟ اب یہاں یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ وہ نوکری چھوڑ دیں اگر نوکری چھوڑ دیں توملکی کی موجودہ معاشی صورتحال میں بال بچوں کا پیٹ کیسے پالیں ؟پھر یہ دلیل دی جاسکتی ہے نوکری چھوڑ کر توکل علیٰ اﷲ کرے لیکن اُس کے لیے مطلوبہ ایمان کا معیار کہاں سے آئے؟ ہم بھی کن سوالوں میں پڑھ جاتے ہیں اصل سوال ہے مجرم کون ہے یہ کس نے ایسی جنگ چھیڑی ہے جس میں مارنے والا اور مرنے والا دونوں پاکستانی، خود کش بمبار بھی تو نشانہ بننے والے معصوم شہری بھی ، ڈرون اٹیک میں مرنے والے بھی کلمہ گو پاکستانی اور ڈروں اٹیک کا ساتھ دینے والے بھی کلمہ کا ورد کرنے والے پاکستانی ۔ آخر اس ملک کو کس کی نظر کھا گئی۔وطن دوست کون ہے اور وطن دشمن کون ؟ امریکہ کا ساتھ دینے والا یا دہشت گردی کا آلہ کار بننے والا؟ اب کس کو الزام دیا جائے ایک کو غلط کہیں تو خود کش دھماکے کے ذریعے جان جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ دوسرے کو موردالزام ٹھہرائیں توغداری کا مقدمہ بھگت کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ساری زندگی سڑنا پڑتا ہے۔ منور حسن نے جو بیان دیا سو دیا حالانکہ اس سے بھی دو ہاتھ بڑھ کر آگے بیان مولانا فضل الرحمن صاحب نے دیا ’’امریکہ کے ہاتھوں اگر کتا بھی مرے گا تو میں اس کو شہید کہوں گا‘‘بلاشبہ یہ شہید جیسے مقدس لفظ کی بھی توہین تھی لیکن حسب عادت وہ جلد تائب ہو گئے -

قطع نظر امیر جماعت نے کیا بیان دیا ذرا نیوٹرل ہو کر دیکھیں تو کیا یہ جنگ امریکہ کے مفادات کی جنگ نہیں؟ کیا وطن عزیز میں9/11سے پہلے خودکش دھماکے ہوتے تھے؟ 9/11میں نقصان کس کو ہوا؟ٹاور کس کے گرے؟ اسامہ بن لادن کہاں کا رہنے والا تھا؟جہاز گھرانے کا لزام کس پرجنگ کے لیے پاکستان کیوں؟ جنگ کے یہ ڈانڈے پاکستان تک کیوں اور کیسے پہنچے؟9/11کوورلڈ ٹریڈ سینٹر سے توسارے یہودی غائب ہوئے اور جنگ کا رخ افغانستان کے ذریعے پاکستان میں۔کیا طُرفہ تماشا ہے۔ کیا یہ ایک سوچی سمجھی سازش نہ تھی؟ دوسری طرف جن پرقبائلیوں پر آج دہشت گردی کا لزام ہے کیا یہی قبائلی کل کووطن کے سب سے بڑے محافط نہ تھے؟ کیا انہوں افغانستان کے محاذ پر روس کو شکست دے کر وطن کی سا لمیت کا ثبوت نہیں دیا تھا؟اگر سرخ ریچھ گرم پانیوں تک پہنچ جاتا تو اس کے بعد پاکستان کے لیے کتنی مشکلات ہوتیں کیا کوئی سوچ سکتا ہے؟ کیا انہی قبائلیوں نے اس وقت آزادکشمیر کاخطہ آزاد نہیں کروایا تھا؟ جب جنرل گریسی نے پاک آرمی کا چیف ہوتے ہوئے بھی گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ کیا 9/11سے پہلے تک یہی قبائلی تکمیل پاکستان کے لیے کشمیر کے محاذ پر جنگ نہیں لڑ رہے تھے؟آخر وہ کون سے محرکات ہیں جنہوں نے ان کو اپنی ہی فوج پر ہتھیار اٹھانے پر مجبور کردیا۔ پھر امریکہ کا عین اُس لمحے ڈروں اٹیک کر کے حکیم اﷲ محسود کو مار دینا جب مذکرات کا عمل آگے بڑھ رہا تھا اور قریب تھا کہ یہ دہشت گردی، افراتفری اور بے چینی کا طوفان تھم جاتا۔کیا امریکہ کی اس گیم کا حصہ نہیں کہ اس ملک میں دہشت گردی کا بازار گرم رہے تاوقتیکہ اس ملک کے حصے بخرے کر دیے جائیں اس ملک کا ایٹمی پروگرام رول بیک کر دیا جائے۔ آخر کب تک ہم غیروں کا آلہ کاربنے رہیں گے؟ کوئی بھی محب وطن پاکستانی ملک میں پھلی ہوئی دہشت گردی کو پسند نہیں کرتا خواہ کوئی نعرہ تکبیر بلند کر کہ کرے یا جیوئے پاکستان کا نعرہ لگا کر لیکن فارسی کا یہ مقولہ صدیوں سے آزمودہ ہے’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ جب آپ لال مسجدمیں کسی کی معصوم اور پاکباز بہن اور بیٹی کو صرف اس لیے شہید کر دیں کہ وہ قرآن کا سبق پڑھتی ہے اور دوسری طرف ناچ گانے والیوں کو کھلی چھٹی دیں تو اُس بھائی یا باپ کے لیے دنیا اندھیر ہو جاتی ہے، وہ یقینا انتقام کی آگ میں جلتا ہے۔ جب آپ ڈرون حملے کے ذریعے مسجد میں 80ننھے منھے معصوم بچوں کو اس لیے شہید کر دیں کہ یہ قران پڑھ رہے ہیں اور کل کو دہشت گرد بن جائیں گے تو پھر ان کے ورثا کو انتقام کی آگ میں جلنے سے نہیں روک سکتے۔جب آپ کسی معصوم اور بے گناہ کی جان آسمان کی بلندیوں سے ڈرون گرا کرلے لیں اور اس سے امید کریں کہ وہ ملک میں امن عامہ کے قیام کے لیے قانون نافذ کرنے والوں کا ساتھ دے تو یہ مضحکہ خیز امید سے زیادہ کچھ نہیں۔ جب اُس کا سب کچھ لٹ گیا، کسی کاباب، کسی کی ماں، کسی کی معصوم بہن، کسی کا ننھا منھا بھائی، کسی کا پورا خاندان تو پھر اس کے لیے امن و عامہ، وطن کی سا لمیت، معصوم لوگوں کی جانوں کی حفاظت کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ جب اس کے معصوموں کا کسی کو خیال نہیں آیا تو وہ اتنا’’حوصلہ‘‘ کہاں سے لائے کے چُپ سادھ رہے۔ اور یہ دہشت گردی، یہ جنگ و جدل، یہ خون خرابے کا بازار اس وقت تک کم نہیں ہو گا جب تک ڈروں اٹیک بند نہیں ہوں گے۔جب اِدھر سے مارنے کا سلسلہ رکے گا تو اُدھر سے بھی سلسلہ تھمے گا۔ جب کسی ایک بے گناہ کو ماریں گے تویقینا آپ اس کے گھر کے دس افراد کو انتقام کی بھٹی میں جھونک دیں گے جتنا جلدی ہم امریکہ کی اس نام نہاد جنگ سے نکلیں گے اتنا ہی جلدی ہم ملک کو سنبھالا دے سکتے ہیں۔ پھر ان امریکیوں کا کیا کل کو اسامہ اور ملا عمر ان کے دشمن تھے، وہ نہ رہے تو بیت اﷲ محسود اور پھر حکیم اﷲ محسود نہ جانے یہ سلسلہ کب تک چلے اور امریکہ کے اس پری پلان ڈرامہ کا ڈراپ سین آخرکب ہو گا؟ اگر آج بھی ہم نہ سنبھلے تونتیجہ وہی ہو گا جو ہو رہا ہے-

Touseef Afaaqi
About the Author: Touseef Afaaqi Read More Articles by Touseef Afaaqi: 7 Articles with 6743 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.