علم عمرانی کے مطابق کسی بھی ریاست کے قیام کے لیے چار
عناصر کا ہو نا لازمی ہے۔ علاقہ، آبادی، حکومت اور اقتدار اعلیٰ وہ چار
عناصر ہیں جو کسی بھی ریاست کی بقا کے ضامن ہوتے ہیں ان میں سے کسی بھی ایک
عنصر کے قائم نہ ہونے سے ریاست کا وجود باقی نہیں رہتا ہے اور آج کے اس
جدید دور میں بغیر ریاست کے زندگی کا تصور ناممکن ہے مغربی عمرانی افکار کے
مطابق اقتدار اعلیٰ عوام ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں اقتدار اعلیٰ سے مراد خدا
کی ذات لی جاتی ہے گویا ہمارے ہاں تصور ریاست میں ہر کوئی خدا کی ذات کو ہی
جوابدہ ہے اور ہر کسی سے اس کے امور کے بارے میں یوم حساب کو ضرور پوچھا
جائے گاپاکستان کو ایک اسلامی ملک سمجھا جاتا ہے اور اس کا سرکاری اور
آئینی نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے گویا یہاں پر حکومت اور اس کے ادارے
اور ان میں کام کرنے ولا ہر کوئی اپنے اعمال کے بارے میں خدا کو لازمی
جوابدہ ہے اگر آج ہم پاکستانی ریاست کا بغورمطالعہ کریں تو اس سے متعلق کئی
ایک سوالات ضرور سامنے آتے ہیں پاکستانی ریاست میں علاقہ بھی ہے اور آبادی
بھی ہے اقتدار اعلیٰ پر سب کا یقین بھی ہے اور ایمان بھی ہے مگر حکومت کی
موجودگی پر ہی سب سولات اٹھ رہے ہیں کیا آج حکومت کی اپنے علاقے اور لوگوں
پر کوئی گرفت ہے؟یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جس نے اس ریاست کی بقا پر خود ایک
سوالیہ نشان چھوڑ رکھا ہے ملک میں طالبان کی موجودگی اور ان کے اثر و رسوخ
نے ریاست پر حکومتی گرفت کے بارے میں بھی کئی ایک سوالات کو جنم دیا ہے اگر
آج یہ کہا جائے کہ ملک میں دو متوازی نظام ہاے حکومت چل رہے ہیں تو یہ بے
جا نہ ہو گا طالبان ملک میں جب اور جہاں چاہتے ہیں کاروائیاں کرتے ہیں اب
وہ نظام مملکت میں طاقت کے زور پر مداخلت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اب ہر روز
درجنوں پاکستانیوں کو موت کی وادی میں بھیجنا حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے کے
ہی مترادف ہے اپنے غیر موافق مسلک کے لوگوں کا بھر پور قتل عام حکومت پر ان
کے بھاری ہونے کی ہی علامت ہے فورسسز پر آئے روز ان کی کاروائیوں نے ہمارے
جوانوں کے حوصلوں کو پامال کیا ہے اب ہمیں کسی کو شہید یا جاں بحق لکھنے کے
لیے ان ہی کی طرف دیکھنا پڑتا ہے میڈیا پر حملوں کے بعد اب ان ہی کے SOPپر
عمل کرنا پڑتا ہے پاکستانیوں کے ذہنوں میں یہ سوال ضرور جنم لیتا ہے کہ ان
کی فوج کے سابق سربراہ اور صدر کے خلاف تو آرٹیکل 6حرکت میں آتا ہے اور
آئین پر پورے زور شور کے ساتھ عمل کرنے کی بات کی جاتی ہے مگر ملک میں دہشت
گردی کی کاروائیوں کا برملا اعتراف کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات کا نوحہ
پڑھا جا تا ہے کہا جاتا ہے اور وہاں آئینی ضرورتوں کو پورا کرنے کی بات
کیوں نہیں کی جاتی ہے جس دن سے ملک میں دہشت گردی کی کاروائیاں شروع ہوئی
ہیں اس دن سے ہی ایک سوچ کے حامل لوگ طالبان سے مذاکرات کو ڈھنڈورا پیٹ رہے
ہیں حالیہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی مذاکرات کی الف لیلا نے
کافی شہرت پائی اور ہر طرف سے مذاکرات کرنے کا شور بلند ہوا مگر اب وقت نے
ثابت کر دیا ہے کہ ہم نے صرف وقت ہی برباد کیا ہے اور انہیں مضبوط ہونے کا
موقع فراہم کیا ہے عمران خان،فضل الرحمان ،سمیع الحق کوئی قابل ذکر کردار
ادا نہ کر سکے یہ لوگ خواہ مخواہ ان کے لیے رائے عامہ ہموار کرتے رہے مگر
انہوں نے ان کو بھی خاطر میں نہیں لایاہے موجودہ حکومت کا خیال ہے کہ وہ
ملک میں سرمایہ کاری کے ذریعے انقلاب برپا کر دے گی تو یہ اس کی خام خیالی
ہے موجودہ حالات میں یہاں سرمایہ کاری کیے لیے تو کیا کوئی سیر و سیاحت کے
لیے بھی نہیں آتا ہے اور اگر کوئی ہسپانوی سائیکلیسٹ بھولے سے پاکستان میں
داخل ہوا بھی ہے تو اسے گولیوں سے زخمی کر دیا گیا ہے اب اگر فوج نے کچھ
کاروائی ان دہشت گردوں کے خلاف کی ہے تو اس پر جن لوگوں نے افسوس کا اظہار
کیا ہے انہیں اب اپنے نظریے پر نظر ثانی کرنا ہو گی خود حکومت کو بھی اپنے
موجودہ طرز عمل پر سوچنا ہو گا اب قوم اپنے وزیر داخلہ کو تلاش کر رہی ہے
بطور اپوزیشن لیڈر آگ کے گولے برسانے والے اب معلوم نہیں کس بینکر میں جا
کر چھپ بیٹھے ہیں اگر حکومت اس معاملے میں یوں ہی گم سم رہی تو پھر ریاست
کا وجود خطرے میں اور اگر اس ریاست کو بچانے کے لیے کوئی اور ادارہ آگے
بڑھا تو قوم اس کے ساتھ ہی ہو گی ویسے بھی اب لوگوں کا یہ خیال ہے کہ حکومت
پر انہی لوگوں کی گرفت مظبوط ہوتی جا رہی ہے جنہوں نے عدالت میں پیشی کے
وقت مشرف کا راستہ تبدیل کیاتھا آج سیاسی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج درپیش
ہے حکومت سمیت طالبان سے مذاکرات کے حامی لوگ معلوم نہیں کس خوش فہمی میں
مبتلا ہیں انہیں ملک میں لگی ہوئی آگ کیوں محسوس نہیں ہو رہی انہیں ملک میں
بہتا ہوا خون کیوں نظر نہیں آرہا ہے؟اگر ان کے ذہنوں میں یہ بات ہے کہ ان
کے آنے سے امن ہو جاے گا اور یہ بچ جائیں گے تو یہ ان کی بھول ہے کیونکہ
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں |