دریائے جہلم کے کنارے
واقع”بھیرہ“ضلع سرگودھا کا ایک تاریخی قصبہ ہے،جس کا شمار پنجاب کے اُن
علاقوں میں ہوتا ہے جو قدیم زمانے سے بر صغیر پر حملہ آوروں کی گزر گاہ اور
قیام گاہ رہے ہیں،تاریخ بتاتی ہے کہ326 ق م میں یونان کے ظالم فاتح سکندر
اعظم کا اُس وقت کے حکمران راجہ پورو(یونانی تلفظ پورس)سے فیصلہ کن معرکہ
اسی قصبے کے قرب و جوار میں ہوا تھا۔مشہور چینی سیاح ہیون سانگ نے اپنے سفر
نامے میں بھیرہ کا تذکرہ ”علم و فنون “ کے مرکز کی حیثیت سے کیا ہے۔جب
سلطان محمود غزنوی ہندوستان پر حملہ آور ہونے کیلئے آیا تو اُس نے بھیرہ
میں بھی قیام کیا،مغلوں نے جب ہندوستان پر قسمت آزمائی شروع کی تو اُس کی
گزرگاہ میں بھی بھیرہ ایک اہم قیام گاہ تھا،1540ء میں ایک فوجی مہم کے
دوران شیر شاہ سوری بھی کچھ عرصے کیلئے بھیرہ میں مقیم رہا،اِس قیام کے
دوران شیرشاہ سوری یا اُس کے کسی جانشین نے یہاں ایک عالی شان مسجد تعمیر
کی جو اپنی وسعت،خوب صورتی اور عمارتی شکوہ کے لحاظ سے مسلمانوں کی شان و
شوکت کا شان دار مظہر تھی۔
جب مغلوں کے زوال کے بعد پنجاب پر سکھوں کی حکومت قائم ہوئی تو بادشاہی
مسجد لاہور کی طرح یہ مسجد بھی سکھا شاہی سے محفوظ نہ رہ سکی اورسکھوں نے
مسجد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔1857 ءکی جنگ آزادی کے بعد جب ہندوستان کی
حکومت کا نظم و نسق حکومت برطانیہ نے اپنے ہاتھوں میں لیا تو مقامی لوگوں
سے بہتر تعلقات استوار کرنے کا فیصلہ کیا گیا،جس کے نتیجے میں مقبوضہ مساجد
کو واگزار کیا جانے لگا،چنانچہ 1860 ءکے لگ بھگ بھیرہ کی اِس تاریخی مسجد
کی دوبارہ تعمیر ہوئی، جس کا سہر ا اُس دور کے ممتاز اورجید عالم دین علامہ
احمد الدین بگوی کے سر جاتا ہے،انہوں نے یہ کارنامہ کسی حکومتی سرپرستی کے
بغیرمسلمانوں کی مدد سے سر انجام دیا،خیال رہے کہ علامہ احمد الدین بگوی
وہی عالم دین ہیں جوبادشاہی مسجد لاہور کی واگزاری کے بعد اُس کے پہلے ا
مام و خطیب مقرر ہوئے۔
بھیرہ سے تعلق رکھنے والے خاندان بگویہ کا شمار اُن قدیم علمی گھرانوں میں
ہوتا ہے،جن کی خدمات کا سلسلہ ساڑھے تین صدیوں پر محیط ہے،اِن میں حضرت
مولانا قاضی احمد الدین بگوی (جنھوں نے حضرت شاہ ولی اللہ کی درس گاہ سے
استفادہ کیا اورشاہ اسحاق دہلوی سے سند حدیث حاصل کی)،مولانا ظہور احمد
بگوی،مولانا افتخار احمد بگوی،علامہ برکات احمد بگوی اور مولانا ابرار احمد
بگوی جیسے نامور لوگ شامل ہیں،یعنی اِس خاندان کے علماءوفضلاءکئی سوسالوں
سے دین ومذہب اور علم وادب کی خدمت کررہے ہیں،ڈاکٹرانوار احمد بگوی صاحب کا
بھی تعلق اسی خانوادے سے ہے،پنجاب کے مردم خیزقصبے بھیرہ میں پیدا ہونے
والے ڈاکٹر انوار احمد بگوی نے اپنے تعلیمی مدارج اعلیٰ نمبروں سے طے
کیے،کنگ ایڈوڈ میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کیا،بعد ازاں پنجاب کے
محکمہ صحت سے منسلک ہوگئے،دوران ملازمت اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے اور
بہترین کارکردگی پر وزیر اعلیٰ پنجاب سے طلائی تمغے اور سند سے نوازے
گئے،دفتر میں قومی زبان اردو کو رائج کرنے کی جدوجہد پر بابائے اردو ڈاکٹر
سید عبداللہ سے نشان سپاس پایا،اپنی خاندانی روایات کے مطابق ڈاکٹر انوار
احمد بگوی کو بچپن ہی سے علم وادب سے دلچسپی رہی،آپ دوران تعلیم کنگ ایڈوڈ
میڈیکل کالج کے سالنامے ”کیمکول “کے مدیر بھی رہے۔
ڈاکٹر انوار احمد بگوی کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں،جس میں ” خمینی وفردوسی
کی سرزمین“،’تقریرات مسلم“،”بھیرہ تاریخ و تمدن اوردی ہسٹری آف
سرگودھا“،”انڈکس ماہنامہ شمس الاسلام بھیرہ“،”مخطوطات بگویہ کتب خانہ بھیرہ
“ وغیرہ شامل ہیں،ڈاکٹر صاحب اسلام،سیاست،عمرانیات،طب،تنقید اور سیروسیاحت
جیسے موضوعات پربھی متعددمقالات بھی لکھ چکے ہیں،لیکن آپ کا سب سے بڑا اور
بلند پایہ کارنامہ خاندان بگویہ کے علماو مشائخ کے علمی،ملی اور سماجی
خدمات کے تذکرے پرمبنی ساڑھے تین سو سالہ تاریخ ”تذکار بگویہ“ کی تین ضخیم
جلدوں کی تدوین ہے، تذکاربگویہ کی جلد اول خاندان بگویہ کے مورث اعلیٰ
مولانا حافظ نور حیات بگوی سے مولانا ظہور احمد بگوی(1650ءتا1945ء) تک کے
علما و مشائخ کے کارناموں کے تذکرے پر مبنی ہے ،جبکہ جلد دوم(1945ءتا
1975ء) میں مولانا افتخار احمد بگوی،مولانا حکیم برکات احمد بگوی ،مجلس
مرکزیہ حزب الانصار،شعبہ تصنیف وتالیف و مکتبہ،تحریک پاکستان اور حزب
الانصار،اہم قرار دادیں،قیام پاکستان،تحریک ختم نبوت 1953ءاور مجلس عمل
تحریک ختم نبوت بھیرہ اور آثار بگویہ وغیرہ کے حالات وواقعات کا ذکر کیا
گیا ہے،اِن دونوں کتابوں کے مطالعے سے قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے،جیسے وہ
اِن ادوار میں اکابر علما ءکی جدوجہد کے مختلف مراحل اپنی آنکھوں سے دیکھ
رہا ہے ۔
زیر نظر کتاب”تذکار بگویہ جلد سوم“ خطوط ومراسلات،حالات اور خدمات(1883ءتا
2010ء) بھی دراصل اِسی سلسلے کی تیسری کڑی ہے،جس میں برصغیر کے مشاہیر
علماء، مبلغین، اساتذہ اور مشائخ کے چنیدہ خطوط ومراسلات شامل کتاب کیے گئے
ہیں،یہ خطوط اپنے دامن میں تاریخ کا سرمایہ سمیٹے ہوئے ہیں اورا پنے عہد کے
پر آشوب المیوں اور تلخ وشیریں حالات وحوادث ومسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے
اُس دور کی سیاسی الجھنوں،سماجی روایات،اخلاقی قدروں،ذہنی رجحانات اور
نفسانی رویوں کی بھی عکاسی کرتے ہیں اور لکھنے والوں کے مزاج و طبیعت سے
آگاہی فراہم کرتے ہیں،جس سے ہمیں اِن شخصیات کے بارے میں جاننے کا موقع
ملتا ہے،درحقیقت یہ تحریریںاپنے اندر برصغیر کی تہذیب وثقافت کے تمام
خدوخال سمیٹے ہوئے ہیں اور اِن کے مطالعے سے اہل علم کے فکری اختلافات اور
باہمی تعلقات کا اندازہ ہوتا ہے۔
قارئین محترم !مکاتیب دراصل مکتوب نگار کی شخصیت کے سر بستہ رازوں کی کلید
ہوتے ہیں اور شخصیت کی تمام گتھیاں سلجھانے میں اہم کردارادا کرتے ہیں،یہ
مکاتیب ہی ہیں جو کسی شخصیت کی زندگی کے پنہاں پہلو سامنے لانے میں ممد و
معاون ثابت ہوتے ہیں،لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مکتوب نگار اپنی زندگی
کے تمام نشیب و فراز،جذباتی میلانات،مستقبل کے اندیشہ ہائے دور دراز اور
اِس جہاں کے کار دراز کے متعلق مکتوب کی سطور کے ذریعے جو کچھ پیغام ارسال
کرتا ہے،وہ نوائے سروش کی صورت میں مکتوب الیہ تک پہنچ جاتا ہے،ڈاکٹر
خورشیدالاسلام نے لکھا ہے کہ” زندگی اپنی راہیں خود بنا لیتی ہے،خط اپنی
باتیں خود پیدا کر لیتا ہے....زندہ _رہنے کیلئے اور خط لکھنے کیلئے زندگی
کا احترام ضروری ہے۔“ یہ مسلمہ صداقت ہے کہ مکاتیب زندگی کی حرکت و حرارت
کے آئینہ دار ہوتے ہیں اورمکاتیب کا زندگی کے حقائق سے گہرا تعلق ہوتا
ہے،مکاتیب کی اساسی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اگرچہ اُن کا تعلق ایک فرد کی نجی
زندگی سے ہوتا ہے لیکن یہ اِس انداز سے زندگی کی کلیت اور جامعیت کی عکاسی
کرتے ہیں کہ پڑھنے والے کو اِن میں اپنی زندگی کے تمام موسم اترتے ہوئے
محسوس ہوتے ہیں،تذکار بگویہ کی جلد سوم قاری کو اِس احساس سے نکلنے نہیں
دیتی ہے ۔
تذکار بگویہ کی جلد سوم پانچ ابواب پر محیط ہے اورباب اوّل چار جز پر پھیلا
ہوا ہے جس میں مولانا ظہور احمد بگوی،مولانا افتخار احمد بگوی،مولانا ابرار
احمد بگوی اور صاحبزادہ انوار احمد بگوی کے نام ہندوستان بھر کے جید علما
ومشائخ اور ہندو مسلم رہنماؤں کے ساتھ اُن کے 680 خطوط کا منتخب ریکارڈ
شامل کیا گیا ہے،باب دوم مکتوب نگاروں کے حالات زندگی پر مشتمل ہے،باب سوم
میں تحریک خلافت و موالات کے دوران پیش آنے والے حالات و عوامل کے تذکرہ
ہے،باب چہارم مآثر اور خدمات کے حوالے سے ہے جبکہ باب پنجم تقریباً 300 کے
لگ بھگ اسکین شدہ دستاویزات پر مشتمل ہے،جس نے کتاب میں معنویت اور وسعت
پیدا کرکے اسے ایک مستند تاریخی اور قیمتی دستاویز بنادیا ہے۔صاحب مولف کا
طرز تحریر اِس قدر دلچسپ اور تاریخی دستاویز اور تحریروں کے انتخاب کا ذوق
اِس قدر ہمہ جہت ہے کہ قاری اِس ضخیم کتاب کو جہاں سے بھی پڑھنا شروع کرتا
ہے،اِس کے سحر میں گرفتار ہو جاتا ہے،یہ درست ہے کہ تذکار بگویہ کی تینوں
ضخیم جلدیں اگرچہ خاندان بگویہ کے صاحب علم و عزیمت اسلاف کی
دینی،روحانی،سماجی اور سیاسی خدمات کا احاطہ کرتی ہے،لیکن اِس کے مولف
ڈاکٹر انوار احمد بگوی نے اِس قدر محنت،ذہانت اور دیانت سے کام لیا ہے کہ
یہ ایک خانوادے کی نہیں،بلکہ برصغیر پاک و ہند میں علما و مشائخ کی تاریخ
کا ایک ایسا مستند باب بن گئی ہیں جو تاریخ کے شعبے سے دلچسپی رکھنے والوں
کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے،اِس اعلیٰ ،علمی اور تاریخی دستاویز مرتب
کرنے پرڈاکٹر انوار احمد بگوی اور جملہ معاون بھیرہ یقینا مبارک باد کے
مستحق ہیں۔ |