غزالی اور اقبال کی فکر۔۔۔۔۔۔ایک جائزہ

علامہ غزالی‘ غلامی کو پسند نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک‘ غلام سے بہتر سلوک کیا جانا چاہیے۔ وہ غلام کو آزاد کر دینا مستحسن فعل قرار دیتے ہیں۔ علامہ غزالی نے اس جانب بھی اشارہ کرتے ہیں کہ وقت آقا کو غلامی کی زنجیریں پہنا سکتا ہے۔

اقبال غلامی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک‘ غلامی ذہنوں کو پس ماندہ بنا دیتی ہے۔ غلاموں کی صلاحیتیں‘ مالک اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال میں لاتے ہیں۔ اس طرح غلام اپنی ذاتی شناخت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس‘ آقا کی خودی مستحکم ہوتی چلی جاتی ہے۔ غلام کی خودی کی ضعیفی ہی فرعونیت کو جنم دیتی ہے۔ اسی بنا پر اقبال نے غلامی کو لعنت قرار دیا ہے۔
غلامی‘ غلام سے وہ کہلوا دیتی ہے جو وہ کی بھی صورت اور حالت میں کہنا پسند نہیں کرتا۔ دانستہ اور نادانستہ بھی‘ غلامی کے متعلق اقبال کے نظریات کرختگی لیے ہوئے ہیں۔ وہ غلامی کو‘ بےبسی کا نام دیتا ہے۔
اقبال کہتے ہیں۔
بدن غلام کا سوزعمل سے ہے محروم
کہ ہے مرور غلاموں کےروز وشب پہ حرام

علامہ غزالی کے نزیک‘ ہر شخص کے ساتھ مساوی سلوک ہونا چاہیے‘ کیونکہ ہر شخص بطور انسان‘ مساوی ہے اور ہر شخص جواب دہ ہے۔ اقبال اسلامی تہذیب وثقافت میں مساوات انسانی کا اصول انتہائی ترقی یافتہ سمجھتے ہیں۔ رموز خودی میں‘ حریت اور مساوات کو ایک ساتھ بیان کرتے ہیں۔
کہتے ہیں
تاشکیب امتیازات آمدہ
در نہاد او مساوات آمدہ

آقائے دوعالم نے‘ جب درس مساوات دیا‘ تو استحصالی اور مقتدرہ طبقے سیخ پا ہو گیے۔ اقبال زندگی کے ہر شعبے میں‘ وحدت کے قائل ہیں۔ فرد کی خودی‘ اجتماع کی خودی کی طرف بڑھتی ہے۔ اجتماع‘ معیشت اور سعی وعمل میں‘ فرد سے اشتراک کرتا ہے اور اس اشتراک کے بدلے‘ پذیرائی بخش کر اس کی زندگی کو متحرک بنا دیتا ہے۔ یہ استدراک اخوت و محبت کے بغیر‘ ممکن ہی نہیں۔
ان کا کہنا ہے۔
ہوس نے کر دیا ہے ٹکرے ٹکرے نوع انسان کو
اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زبان ہو جا
ایک دوسری جگہ کہتے ہیں۔
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی

غزالی اشتراک عمل‘ استدراک اجتماع اور اشتراک معاش کے قائل ہیں۔ اس اشتراک میں‘ عدل اور اور دیانت داری کو لازم قرار دیتے ہیں۔ اقبال اشتراکی نظام سیاست کو‘ جمہوری نظام سیاست سے بہتر خیال کرتے ہیں۔ وہ کارل مارکس کو پیغبر بےجبریل کے لقب سے ملقوب کرتے ہیں۔ جمہوری نظام میں‘ ملوکیت کی روح قائم رہتی ہے۔ جب کہ اشتراکی نظام سیاست‘ اس کو بالکل فنا کر دیتا ہے۔ اشتراکیت‘ جمہوری نظام کے پروردہ لوگوں میں اضطراب پیدا کر دیتی ہے۔
جمہوریت کیا ہے‘ اس کی حقیقت اقبال کی زبانی سنیے۔
جمہوریت اک طرزحکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں‘ تولا نہیں کرتے
کارل مارکس کے بارے اقبال کا کہنا ہے-
روح سلطانی رہے باقی تو پھر کیا اضطراب
ہے مگر اس یہودی کی شرارت کا جواب
وہ کلیم بے تجلی وہ مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب

اس تحسین کے باوجود‘ وہ اشتراکی نظام کو پیٹ پوجا ہی کا نام دیتے ہیں۔ ملوکیت والے‘ کسانوں اور مزدوروں کی محنت کو‘ خراج بنا کر‘ طاقت حاصل کرتے ہیں۔ اشتراکیت والے بغاوت کا نام دے کر‘ دوسروں سے طاقت چھین کر‘ اپنے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔ گویا دونوں عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔
ہر دو جان ناصبور و ناشکیب
ہر دو یزداں ناشناس آدم فریب
زندگی ایں را خروج آں را خراج
درمیاں ایں دو سنگ آمد جاج

غزالی جموریت کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک ریاستی امور انجام دینے کے لیے ایک لائق اور قابل ترین شخص کی ضرورت پڑتی ہے۔ جسے بذریعہ انتخاب مقرر کیا جا سکتا ہے۔

اقبال جمہوریت کو ملوکیت کی ارتقائی شکل قرار دیتے ہیں۔ جمہوری نظام حکومت میں ذہانت کو پنپنے اور آگے بڑھنے کے مواقع میسر نہیں آتے۔ مسند اقتدار پر ادنی درجہ کے لوگ قابض ہو کر عوام اور محنت کا استحصال کرتے ہیں۔

غزالی کے نزدیک‘ نظم قائم رکھنے کے لیے ایک قانون کی ضرورت ہےاور یہ قانون ساز ایک مجلس جو حالات کی سیاسی ہم آہنگی کو پیش نظر رکھ کر‘ مرتب کر سکتی ہے۔

اقبال بھی‘ خلافت کی امین جماعت کے لیے‘ ایک مجلس خلافت کا ہونا ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس میں علما کو ایک موثر جزو کے طور پر ہونا چاہیے۔

غزالی معاشرے میں‘ انصاف کو جزو لازم سمجھتے ہیں۔ اس سے خیر سگالی اور جذبہءترقی پیدا ہوتا ہے۔ انصاف‘ اشتحکام ریاست میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ان کے نزدیک انصاف کا‘ ایک دن کسی کی ستر سالہ عبادت سے بہتر ہے۔

اقبال انصاف کو خودی کا راز قرار دیتے ہیں۔ غزالی جابر سلطان کی سلطان کی اطاعت میں مضائقہ نہیں سمجھتے۔ اقبال اس کی اطاعت کے قائل نہیں ہیں۔ کیونکہ اس سے خودی کو نقصان پہنچتا ہے۔
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشءگندم کو جلا دو
اگر ایسا کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔
اے مرد خدا تجھ کو قوت نہیں حاصل
جا بیٹھ غار میں وہ الله کو کر یاد
آئین جواں مرداں حق گوئی و بےباکی

الله کے شیروں کو آتی نہیں روباہی غزالی مذہب اور سیاست کو دو الگ سے نظام ہا زیست نہیں مانتے۔ ان کے نزدیک‘ اگر سیاست کی بنیاد مذہب پر استوار ہو گی‘ تو ریاستی امور خوشگوار طور پر انجام پائیں گے۔ اقبال بھی اس نظریے کے قائل ہیں۔
فرماتے ہیں۔
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

غزالی کا نظریہءریاست سرحدوں کا محتاج ہے۔ اقبال کی مملکت قید زمان و مکان کی پابندیوں سے آزاد ہے۔ وہ قید زمان و مکان سے بالاتر خلافت ارضی کو مانتے ہیں۔
مکاں فانی مکیں آنی ازل ترا ابد ترا
خدا کا آخری پیغام ہے تو جاوداں تو ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس سمت میں چاہے صفت سیل رواں چل
وادی یہ ہماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا ہے

غزالی معاشرے کی تنظیم میں‘ عورت نظرانداز نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے‘ جب جانوروں میں دونوں جنسیں‘ کاموں کے لحاظ سے‘ ایک جیسے کام کرتی ہیں‘ تو عورت کو افزایش نسل اور نسل کی بقا کے لیے استعمال کرتے رہنا‘ کہاں کی دانش مندی ہے۔ عورت مرد کے ساتھ اور دوسرے فرائض انجام دے سکتی ہے۔

اقبال عورت کو اجتماعی خودی کا ضامن قرار دیتے ہیں۔

اقبال کے نزدیک‘ عورت کو بھی وہی انسانی حقوق حاصل ہیں‘ جو مرد کو حاصل ہیں‘ لیکن دونوں کا دائرہ عمل‘ الگ الگ ہے۔ ان کے خیال میں‘ اسلامی معاشرے میں‘ عورت پابند بھی ہے اور آزاد بھی۔
کہتے ہیں۔
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اس کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں

غزالی‘ حاحات کی تکمیل کے لیے‘ ایک عمدہ معاشی نظام کی ضرورت کو نظرانداز نہیں کرتے۔ اس کے لیے‘ وہ ایک دوسرے سے‘ ناتا جوڑنے کو لازمی قرار دیتے ہیں۔ یہ ناتا جتنا مضبوط ہو گا اتنا ہی کھرا پن ہو گا۔ معاشی نظام بھی اتنا ہی مضبوط ہو گا۔ ان کےنزدیک‘ کسب حلال سے‘ اپنے کنبہ کی کفالت‘ ایک طرح کا جہاد ہے۔

اقبال کے نزدیک‘ انسان اپنا فیصلہ اور ارادہ استعمال کرتا ہے۔ معین مقصد حاصل کرنے کے لیے مساعی وقف کرتا ہے۔ اس کے نزدیک اسباب معیشت کی فراہمی اخلاق کے اصولوں کے مطابق اس وقت تک نہیں ہو سکتی۔ جب تک کہ‘ ذات واحد کی حاکمیت نہ تسلیم کر لی جائے اور اس کے ساتھ‘ فرد اور جماعت کے حقوق کا تعین نہ ہو۔ فرد کو ایسےرزق کی طرف بڑھنا چاہیے‘ جس سے‘ اس کی خودی پامال نہ ہواور وہ باعزت زندگی بسرے۔
کہتے ہیں۔
اے طائر لاہوتی اس رزق سے مؤت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

غزالی ہر شخص پر‘ وہ علم حاصل کرنا ضروری سمجھتے ہیں‘ جس کا وہ معاملہ کرتا ہے۔

اقبال علم کی قدر کرتے ہیں اور ان کے خیال میں‘ علم حواس کی بےداری ہے۔ علم سے‘ طبعی قوت ہاتھ آتی ہے۔ اس کو‘ دین کے ماتحت رہنا چاہیے۔ وہ علم کو‘ عارضی حقیقت نہ سمجھتے تھے بلکہ اسے حفظ خودی اور حفظ حیات کا سرمایہ تصور کرتے تھے۔ یہی نہیں‘ وہ علم کو‘ امراض ملت کی دوا خیال کرتے تھے۔
فرماتے ہیں۔
زندگی کچھ اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے
زندگی سوز جگر ہے‘ علم ہے سوز دماغ
علم میں دولت بھی ہے قدرت بھی ہے لذت بھی ہے
ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ

گویا جب تک علم دل میں جگہ نہیں بنا لیتا‘ انسان راہنمائی سے محروم رہتا ہے۔

غزالی فقر کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک‘ فقر وہ ہے‘ جس کے پاس اپنی ضرورت کی چیز نہ ہو۔ آدمی کے لیے‘ پہلے اپنی ہستی مطلوب ہے‘ پھر مال و غذا اور اسی طرح‘ بہت سی چیزیں درکار ہیں۔ یہ ان کا حاجت مند ہے اور غنی ہے۔ غزالی ایسی اشیا کے ترک کی طرف توجہ دلاتے ہیں‘ جو حاصل ہونا قدرت میں نہ ہوں۔
اقبال چھین لینے اور برباد کر دینے کے بھی قائل ہیں۔
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشءگندم کو جلا دو

اقبال فقر کو قناعت اور خودداری کے ساتھ توکل بصارت اور بصیرت کو ضروری خیال کرتا ہے۔ مزید یہ کہ وہ فقر سے مراد افلاس اور تنگ دستی نہیں لیتے بلکہ استغنا اور لاپرواہی کو مراد لیتا ہے۔ اس کے نزدیک دولت‘ جوہر جواں مردی کی ہے۔
حاجت سے مجبوری مردان آزادن آزاد
کرتی ہے حاجت شیروں کو روباہ
محرم خودی سے جس دم ہوا فقر
تو بھی شہنشاہ میں بھی شہنشاہ
اگر جہاں میں میرا جوہر آشکارا ہوا
قلندری سے ہوا تونگری سے نہیں

غزالی تجزیاتی تفکر سے مایوس ہو کر صوفیانہ تجربات کی طرف راغب ہوئے۔ انھیں مذہب کے لیے ایک آزاد اساس نصیب ہوئی۔ اقبال رومی کو غزالی کے مقابلہ میں اسلام کی اصل روح سے قریب تر خیال کرتے ہیں۔
22-7-1980

maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 190915 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.