خوش نصیب پاکستان

آج کل پاکستان کے جوحالات ہیں اس پر پاکستان کا ہر فرد فکر مند ہے ان حالات کو دیکھ کر ہر کوئی غمگین ہے ہر دل خون کے آنسو رو رہا ہے عام آدمی کے جذبات کو سمجھا جا سکتا ہے اسلام آباد کچہری کے واقعہ نے سب کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔امن و امان کی صورت حال پر ہر کوئی پریشان ہے ملک کے کسی بھی کونے میں اب کوئی بھی محفوظ نہیں ہے حکمرانوں کی صلاحیتیں کھل کر سامنے آئی ہیں مذاکرات یا آپریشن قوت فیصلہ کی کمی کا اب سب کو پتا چل گیا ہے حکومت تذبذب کا شکار ہے کہ کوئی چال تو نہیں چل رہا ہے کیا کہنے ان کی عقل کے کہ ابھی تک دشمن کو نہیں پہچان سکے ہیں دہشت گرد اس طرح ان کے اعصاب پر سوار ہوئے ہیں کہ ان کی بوکھلاٹ اب ان سے چُھپائی بھی نہیں جاتی ہے امریکہ،بھارت،روس اور اسرائیل کی سازشوں کا انہیں کیا معلوم ہو گایہ تو اب تک طالبان ،لشکر جھنگوی،جنداﷲ،جنود الحفصہ اور احرار الحند وغیرہ کے بارے میں بھی کچھ نہیں جان سکے ہیں کون کیا اور کہاں ہے انہیں کچھ معلوم نہیں ہے وزیر داخلہ پریس کانفرسوں ،اور پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں دہشتگردوں کے خلاف بیانات کے گولے داغتے پھرتے تھے انہوں نے ایسا جوابی تھپڑ ان کے منہ پر رسید کیا ہے کہ موصوف اپنے سرخ گال کو اپنے غصے سے تعبیر کرتے پھر رہے ہیں بلند و بالا دعوے سب ریت کی دیوار ثابت ہوئے ہیں پر شرم ہے کہ ان کو نہیں آتی ہے حکمران ہر شعبہ میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں ہر میدان میں ان کی نااہلی ثابت ہوتی چلی جارہی ہے حکومت کئی ماہ سے 23آئینی اور خود مختار ادروں کے سربراہوں کا تقرر نہیں کر سکی ہے ہسپتالوں میں ادویات موجود نہیں ہے۔سندھ کے ضلع مٹھی میں 32بچے غذائی قلت کے باعث موت کی وادی میں چلے گئے ہیں اور یہ بحران روز بروز بڑھتا جا رہا ہے بجلی ،گیس اور تیل کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ کیا جاتا ہے عام آدمی کا اب سانس لینا دشوار ہو چکا ہے کون کون سا نوحہ لکھا جائے اور کیسا کیسا مرثیہ پڑھا جائے یہاں تو ہر شام ،شام غریباں ہے اور ہر روز ،روز عاشور ہے مصیبت کی کربلا ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ہے کہا جاتا ہے کہ ناامیدی گنا ہ ہے یہ درست ہے مگر ان حکمرانوں سے خیر کی توقع کرنا بھی عبث ہے حکمرانوں سے مراد سب ہیں دائیں بازوکے لوگ بھی اور بائیں بازو کے افراد بھی فوجی حکمران بھی اور ٹیکنوکریٹ بھی سب ہی دیہاڑی دار مزدور ہیں قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہر کسی نے اپنی اپنی دیہاڑ لگائی ہے اور پھر وہ چلتا بنا ہے کسی نے بھی مستقل بنیادوں پر اس ملک کے لیے کوئی کام نہیں کیا ہے مگر قدرت ہم پر بار بار مہربان ہو جاتی ہے اور عالمی حالات ایسے پیدا ہو جاتے ہیں کہ بیرونی قوتوں کو ہماری ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے اسی ضرورت کے عوض وہ ہمیں پیسے دیتے ہیں اور ہماری روزی روٹی چلتی رہتی ہے اور یہاں کی اشرافیہ کے کاروبار پھلتے پھولتے رہتے ہیں قیام پاکستان کے بعد امریکہ کو ہماری ضرورت تھی ہم سے سیٹو اور سینٹو معاہدے کروائے گے ان معاہدوں کے بعد ہماری اقتصادی ترقی کی رفتار بھی تیز ہوئی اور دفاعی قوت میں بھی اضافہ ہوا مگر جب ان کی ضرورت ختم ہوئی اور مسلہ کشمیر اور 65کی جنگ میں ہمیں ان کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہ غائبس ہو گئے اس دوران پھر ہم لڑتے مرتے رہے ملک دو ٹکڑے ہو گیا اور ہم جمہوریت آمریت کا کھیل کھلتے رہے پھر بھلا ہو روس کا کہ اس نے افغانستان پر چڑھائی کر دی اور دنیا کو ایک بار پھر ہماری ضرورت محسوس ہونے لگی جہاد افغانستان کے نام پر بے پنا ہ پیسہ اس ملک میں آیا سب نے خوب مال بنایا اور صدقہ کھانے والے بھی ڈالر لینے لگے روس کے ٹوٹنے کے بعد پھر ہم اسی حالت میں واپس چلے گئے نواز شریف اور بینظیر جمہوریت کا کھیل کھیلتے رہے پھر قدرت ہم پر مہربان ہوئی اور9/11کا واقعہ پیش آگیا اور دنیا کو پھر ہماری ضرورت پڑ گئی مشرف آگے دنیا نے ہمیں اتنا پیسہ دیا کہ سب کا خوب کاروبار چمکا جنرل نے اس بار سب کو باہر کی اس دولت میں خوب نہلایا مگر جب دنیا کو ہماری ضرورت نہ رہی تو نہ ہی جنرل رہا اور نہ ہی پیسہ اور امن ۔ہم ایک بار پھر اپنی اصلی حالت میں لوٹ گئے۔ آج قدرت ایک بار پھر ہم پر مہربان ہونے جا رہی ہے مایوسی کی ٖضرورت نہیں ہے امید کی کرن پیدا ہو چکی ہے نئی سرد جنگ کی ابتدا ہونے جا رہی ہے یو کرائن کا مسلہ سر اٹھا رہا ہے روس اور امریکہ ایک بار پھر مد مقابل آ رہے ہیں ملک شام میں بھی ہماری ضرورت محسوس کر لی کئی ہے بحرین میں ہم نے اپنے بندے پہلے ہی بھیج رکھے ہیں سعودی عرب بھی ہماری طرف دیکھ رہا ہے۔ہم ایک بار پھر عالمی طاقتوں کی ضرورت بنتے جا رہے ہیں اور اب ہمیں ایک بار پھر سنھبالا دینا ان کی ضرورت ہے اور یہی پاکستان کی خوش نصیبی ہے -
 

hur saqlain
About the Author: hur saqlain Read More Articles by hur saqlain: 77 Articles with 61751 views i am columnist and write on national and international issues... View More