برکتی صاحب کی اپیل مونگیری لال کے حسین سپنوں کی طرح ہے

باسمہ تعالیٰ

2014کالوک سبھاالیکشن کئی اعتبارسے دلچسپ ثابت ہوگا،ایک طرف جہاں حکمراں اتحاد یوپی اے کی عزت داؤ پرلگی ہوئی ہے وہیں پچھلے دس سالوں سے سیاسی بن باس کاٹ رہی بی جے پی نے دہلی کے تخت پرقبضہ جمانے کے لیے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔اس درمیان ایک بار پھرسے ملک میں تیسرے محاذ کے تجربہ کودہرائے جانے کی حتی الامکان کوشش کی جارہی ہے،لیکن ان سب سے زیادہ عجیب وغریب اوردلچسپ معاملہ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ محترمہ ممتابنرجی اوران کے ہمنواؤں کاہے۔جب سے الیکشن کی گہماگہمی شروع ہوئی ہے ان کے ہمنوامستقل یہ نعرہ دے رہے ہیں کہ دیدی کودلی کی گدی پربٹھاناہے،اوراس تحریک میں سب سے پیش پیش ان کے ایک خاص مصاحب اور بزعم خودمسلمانوں کے رہنماجناب نورالرحمن برکتی صاحب ہیں جومستقل دیدی کو یہ خواب دیکھارہے ہیں کہ آپ مستقبل کی وزیراعظم ہیں،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ محترمہ ممتابنرجی ایک تیزطراراورمتحرک سیاسی شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی محنت اورشبانہ روزکی جدوجہدسے آج مغربی بنگال کی سربراہی کافریضہ انجام دے رہی ہیں،لیکن اس سے بھی بڑی اورتلخ حقیقت یہ ہے کہ وہ مستقل مزاج نہیں ہے،آج برکتی صاحب یہ دلیل دیتے نظرآرہے ہیں کہ مودی جیسے موذی شخص کوروکنے کے لیے دیدی کادلی کی گدی پربیٹھناضروری ہے لیکن وہ اس حقیقت کوبھول جاتے ہیں کہ وزیراعظم کی کرسی تک پہونچنے کے لیے جن اعدادوشمارکی ضرورت پڑتی ہے دیدی اس سے کوسوں دورہیں۔دیدی جی برکتی صاحب کوبہت قریب رکھتی ہیں اوران پرحدسے زیادہ اعتمادکرتی ہیں اوراس قربت اوراعتمادمیں وہ یہ بھول جاتی ہیں کہ بنگال میں برکتی صاحب سے بھی بڑی شخصیات ہیں جنہیں مسلم طبقہ میں کچھ نہ کچھ مقبولیت حاصل ہے جب کہ برکتی صاحب کاحلقہ شایدٹیپوسلطان مسجدسے باہرکچھ بھی نہیں ہے ،لیکن اس کے باوجودوہ دیدی کے منظورنظرہیں،ممکن ہے دیدی کوان کے اندرکچھ خوبیاں نظرآتی ہوں یاانہوں نے یہ باورکرارکھاہوکہ بنگال کے مسلمان ان کی جھولی میں ہیں لیکن حقیقت کااس سے دوردورکابھی واسطہ نہیں ہے۔برکتی صاحب بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہونچنے کے لیے جن اعدادوشمارکی ضرورت پڑتی ہے ترنمول کانگریس اس سے کوسوں دورہے لیکن شایدوہ دیدی کوخوش کرنے کے لیے یاپھراپناکوئی مقصدحاصل کرنے کے لیے دیدی کووزیراعظم بنانے کا نعرہ لگارہے ہیں اورمسلمانوں سے اپیل کررہے ہیں کہ اگرمرکزسے مودی کودوررکھناہے تو دیدی کوووٹ دیں اورانہیں دلی کی گدی پربٹھائیں۔افسوس ہے برکتی صاحب کی اس سوچ اورحقائق سے اس چشم پوشی پر!

ہندوستانی سیاست میں مسلم ووٹ کی اہمیت کااندازہ اسی سے لگایاجاسکتاہے کہ ہرسیاسی جماعت اپنے ساتھ کسی نہ کسی مسلم چہرہ کوضروررکھتی ہے تاکہ مسلم ووٹ ان کی جھولی میں جائے،اوریہ مسلم چہرے بجائے اس کے کہ وہ مسلمانوں کی صحیح نمائندگی کریں وہ ان سیاسی جماعتوں اورشخصیتوں سے اپناالوسیدھاکرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں،قوم ان پراعتمادکرتے ہوئے وہ جن کے حق میں اپیل کرتے ہیں انہیں ووٹ کردیتی ہے،اورجب وہ جماعت کامیابی حاصل کرلیتی ہے توقوم کواجتماعی فائدہ پہونچانے کی بجائے فردواحدکی جھولی بھرکرپوری قوم کے استحصال میں مصروف ہوجاتی ہے،اورقوم اس وقت جاگتی ہے جب اس کاسب کچھ لٹ چکاہوتاہے،اورآزادی کے بعدسے اب تک ایساہی ہوتاآرہاہے اوریہی وہ بنیادی اوراہم وجہ ہے قوم مسلم کے ذلیل وخوارہونے کی۔یہ مسلم قوم ہندوستان میں اپنے ہی رہنماؤں کی ظلم وستم کاشکارہے،اورظلم وستم کاسلسلہ آج تک بدستورجاری ہے،یہی وجہ ہے کہ الیکشن کازمانہ آتے ہی نام نہادمسلم رہنما(بشکل علماء) سیاسی رہنماؤں کی طرح اپنی وفاداریاں بدلنی شروع کردیتے ہیں،اوراس میں شاہی دورحکومت گذرجانے کے باوجودبھی بزعم خود’’شاہی نوکر‘‘(شاہی امام)کہلانے والے لوگ بھی پیش پیش رہتے ہیں،ہندوستانی سیاست کی تاریخ گواہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے ادنی ٰ ذاتی مفادات کی وجہ سے پوری قوم مسلم کاسوداسیاسی جماعتوں کے ہاتھوں کرلیاہے اوراس سودے سے حاصل ہونے والی موٹی رقموں سے بینک بیلنس اوربنگلہ گاڑیاں حاصل کرلی ہیں یاکہیں کسی کونسل کی ممبری یاکسی سرکارہ ادارہ کی سربراہی اپنی جیب میں کرلی ہے۔لیکن گذشتہ چندسالوں سے ہندوستانی مسلمان بھی بہت حدتک بیدارہوچکے ہیں اورانہوں نے بھی یہ سمجھ لیاہے کہ یہ نام نہادرہنما(بشکل جبہ وودستارعلما)صرف اپنے ذاتی مفادکے لیے کبھی کسی سیاسی جماعت کے حق میں اپیلیں شائع کرتے ہیں کبھی کسی اورسیاسی جماعت کے حق میں اپیلیں شائع کرتے ہیں،باضابطہ طورپران اپیلوں کے لیے سودے بازی ہوتی ہے اب سیاسی جماعت پرموقوف ہے کہ کون کتنے میں بازی مارتاہے،اور2014کے عام انتخابات کے بگل بجتے ہی ایک بارپھرسے یہ کاروبارعروج پرہے،آپ دیکھیں گے کہ آئے دن اخبارات یاپمفلٹ کے ذریعہ کوئی نہ کوئی اپیل شائع ہوگی کہ فلاں پارٹی مسلم دوست ہے اسے ووٹ کریں،فلاں جماعت فرقہ پرست ہے اسے ووٹ نہ کریں،جب کہ میں سمجھتاہوں کہ جس طرح ہندوستان میں مسلمان سبھوں کوآزماچکے ہیں اورسب کی حکومت دیکھ چکے ہیں تو اب وہ ان اپیلوں کے دام فریب میں نہیں آئیں گے،اوراپنے ووٹ کافیصلہ خودکریں گے۔کیوں کہ اپیل کرنے والوں کوکبھی کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے ان کاہرکام ایک فون کے ذریعہ گھربیٹھے ہوجاتاہے دردرکی ٹھوکرکھانے پرمجبورہوناپڑتاہے انہیں جنہوں نے اپنے قیمتی ووٹ کے ذریعہ کسی رہنماکوایوان میں بھیجاہے یاکسی سیاسی جماعت کوحکومت بنانے کا موقع دیاہے،اسی لیے اس مرتبہ کے الیکشن میں بہت ہی پھونک پھونک کرقدم اٹھانے کی ضرورت ہے،نہ کہ ہمیشہ کی طرح بھیڑچال کی روش کواپناتے ہوئے کسی کی پراثراپیل سے متاثرہوکرکسی ایسی جماعت کوووٹ کردیں جوکہ پہلے سے بھی زیادہ بدترہو۔ہندوستانی سیاست کے اسی رجحان سے متاثرہوکرغالباممتادیدی نے بھی برکتی صاحب کوخود سے قریب کیااوروہ بھی اپناالوسیدھاکرنے کے لیے اس طرح کی بے تکی اپیلیں شائع کررہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ محترمہ ممتابنرجی ایک تیزطرارخاتون رہنماہیں،اورانہوں نے جس طرح سے اپنی سیاسی زندگی گذاری ہے اس کی مثال کم ازکم ہندوستان میں ملنی ناممکن نہیں تومشکل ضرورہے۔تقریباچاردہائیوں سے زائدعرصہ سے وہ سرگرم سیاست میں ہیں،انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کی شروعات کانگریس سے کی اورایک عرصہ تک خاتون کانگریس کی جنرل سکریٹری رہیں،انہوں نے اپنا پہلالوک سبھاالیکشن 1984میں لڑااورکامیاب ہوئیں جس میں انہوں نے مشہورکمیونسٹ لیڈرسومناتھ چٹرجی کوشکست دی تھی اورنوجوان پارلیمنٹرین کی حیثیت سے مشہورہوئیں،1997میں اختلافات کے باعث وہ کانگریس سے الگ ہوگئیں اورانہوں نے آل انڈیاترنمول کانگریس کے نام سے اپنی الگ پارٹی بنائی،جوبرکتی صاحب آج مودی کوروکنے کے لیے دیدی کودلی کی کرسی تک پہونچانے کاخواب دیکھ رہے ہیں انہیں یادہوناچاہیے کہ کبھی دیدی بھی ان ہی فرقہ پرستوں کی ٹولی میں تھیں،اوردیدی نے بھی وزارت کے فائدے اٹھائے ہیں،اتحادبدلنے میں دیدی بھی مشہورہیں،انہوں نے بی جے پی کی رہنمائی میں این ڈی اے میں شمولیت اختیارکی اوروزیرریل بنیں،پھربنگال میں سی پی ایم کوجڑسے اکھاڑپھینکنے کے لیے این ڈی اے سے الگ ہوکرکانگریس کے ساتھ ہوگئیں،اورجب کامیابی نہیں ملی تو ایک بارپھراین ڈی اے میں شامل ہوکرکوئلہ منتری بن گئیں۔2004میں ترنمول کو ذلت آمیزشکست کاسامنا کرناپڑااسی وجہ سے وہ دوبارہ یوپی اے میں شامل ہوگئیں2009میں ان کی پارٹی کے کئی رہنماپارلیمنٹ میں پہونچے اوروزارت میں بھی شامل ہوئے،پھرکانگریس کی مددسے بنگال میں بھی زبردست کامیابی حاصل کی اورآج وہ کانگریس کی بدولت ہی وزیراعلیٰ بنی ہوئی ہیں،لیکن ان کی غیرمستقل مزاجی نے ایک بارپھرانہیں یوپی اے سے نکلنے پرمجبورکردیاجب کانگریس نے پرنب مکھرجی کواپناصدارتی امیدواربنایاتو انہوں نے اس کی مخالفت میں یوپی اے اتحادسے الگ ہوگئیں۔آج جب کہ ایک طرف یوپی اے اتحادہے،دوسری طرف این ڈی اے ہے اورگیارہ پارٹیوں پرمشتمل تیسرے محاذ کاوجودہوچکاہے اورممتاجی ان تینوں اتحادمیں سے کسی شامل نہیں ہیں توپھرآخروہ کون سی طاقت ہے جوانہیں وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہونچائے گی،ایسابھی نہیں ہے کہ ترنمول ایک قومی پارٹی ہے وہ بھی علاقائی پارٹی ہے،ان سب حقائق کونظراندازکرکے برکتی صاحب کی یہ اپیل کہ مسلمان دیدی کووزیراعظم بنائیں،کیااس اپیل اوربرکتی صاحب کے اس خواب میں کوئی معنویت ہے؟اگرہے تو براہ کرم برکتی صاحب اس کی وضاحت فرمائیں!

Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 46347 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More