شور اور پاکستانی عوام

چند روز قبل مجھے ایک کام کے سلسلے میں دوسرے شہر جانا پڑا کام انتہائی ضروری تھا خوش قسمتی سے دوسرے شہر جانے کے لیے مِنی بس نصیب ہوئی کام کی نوعیت کی وجہ سے اِسی سواری پر صد شکر کرنا پڑا ۔جب گاڑی چلی تو احساس ہوا کہ اس میں شور تو کچھ اور ہی نو عیت کا ہےشُور کی وجہ سے کان پھٹ ہی جاتے اگر گاڑی تھوڑا سفر کرنے کے بعد سانس لینے کے لیے رُک نہ جاتی تو ۔مِنی بس کےتمام اپنی نازک حالت کا چیخ چیخ کر بتا رہے تھے کہ وہ مزید کام نہیں کر سکتے جیسے ہی مِنی بس کی رفتار بڑھائی جاتی اُتناہی زیادہ گاڑی کے پرزے دوہائی دیتے مجھے یوں لگا کہ میرے ملک کی حالت اِس گاڑی جیسی ہے بالکل مِنی بس کے پرزہ جات کے شور جیسا شور تمام سرکاری ، نیم سرکاری اداروں اور چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے آتا ہے اور اِس شور میں عوام کی آواز تو دَب کے رہ جاتی ہے۔

ہمارے ملک میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بہت سا شور ہوتا رہتا ہےکبھی تو یہ شور ایک کم سِن بچی پہ بزدلانہ حملے پر ہوتا ہےاور ساری پاکستانی عوام کی ہمدردیاں اِس بچی کے ساتھ ہوتی ہیں ایک بار پِھرعوام اِس کے لیے نوبل انعام کے حصول کی دعائیں کر رہی ہوتی ہے انعام نہ مِلنے پراِس کی ہمت بندھائی جاتی ہے یہ کہہ کر کہ وہ تو خود نوبل ہے اِتنے میں اُس بچی کی ایک کتاب منظرِ عام پر آتی ہے عوام کو اگر یہ کہہ دیا جائے کہ کتاب اچھی ہے تو وہ بچی ہیرو اور اگر کتاب میں خامیاں ہیں تو عوام اِس بچی کے خلاف،بہرحال ہم صرف شور کی بات کر رہے ہیں ہمارے پیارے ملک میں تو سیاسی جماتیں بھی بہت شور کرتی ہیں اقتدار میں آنے سے پہلے بہت کچھ کرنے کے دعوے ہوتے ہیں جیسا کہ غربت،لوڈشیڈنگ، دہشت گردی ختم کر کے ملک کو امن کا گہوارہ بنا دیں گے یہ تو ابھی شکر ہے کہ کوئی حکومت کچھ کرتی نہیں۔ اگرکرنے پہ آ جائےتوکچھ بھی کر سکتی ہے، پاکستان کی ناوکو پار لگانے کی بجاے ڈبوبھی سکتی ھے، جو سیاسی پارٹی بڑے جوش و خروش سے اقتدار میں آتی ہے، مگر وہ پہلے دو سال تک آرام فرماتی ہےاور جیسے ہی عرصہ اقتدار کا اختتام قریب آتاہے وہ پارٹی اپنی اپنی تجوریاں بھر کر بیرونِ ملک تشریف لے جاتی ہے اور عوام بے چاری صرف شور سنتی رہتی ہے۔

کبھی شور سنائی دیتا ہےکہ امریکی ڈرون حملوں کی اِجازت حکومتِ پاکستان نے دی اور کبھی وہی ھکومتِ پاکستان یہ شور کرتی سنائی دیتی ہے کہ ڈرون حملے پاکستان میں موجود تمام مسائل کی جڑ ہے کبھی کسی حکومت نے طالبان کو پیدا کیا جہاد کا قاعدہ پڑھا کر اُنکو غیروں کی جنگ میں دھکیل دیا پِھر اُسی غیر کے لیے طالبان کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیا پھر ایک وقت آیا کہ عجیب سا شور ہر سُو پھیل گی کہ طالبان اور حکومتِ پاکستان مزاکرات کی میز پہ بیٹھیں گے مگر یہ بھی صرف شورہی تھا پھر خبر آئی کہ امریکہ نے مذاکرات میں خلل ڈال دیا ۔شاید آپ بھی غیر ملکی امداد کا شور سن چکے ہوں گے مگر اعوام کی غربت کے ساتھ جو محبت ہے وہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ۔مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے نعرہ لگایا تھا کہ غریب ختم کر دیں گے یقننا اُنکا مطلب غربت کو ختم کر کے غریبوں کا معیارِ زندگی بلند کرنا ہی ھوگا ۔ اگر ملک میں ہونے والی خودکشیوں کی تعداد میں اضافہ اسی طرح جاری رہا تو بہت جلد غریب واقعی ختم ہو جائیں گے۔غریبوں کے لیے وہ حکومت اچھی ھے جسکے اقتدار کے دوران ان کو روٹی ملے۔اس وقت بہت سارے لوگ پیارےوطن کے حکمرانوں سے ناامید ہو چکے ہیں ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو اپنے عزیزواقارب کو خودکش حملوں میں یا ڈرون حملوں یا پھر غربت کی جنگ میں کھو چکے ہیں۔ان کے قریب ہماری کوئی منزل نہیں ہے -
Hina Saeed
About the Author: Hina Saeed Read More Articles by Hina Saeed: 2 Articles with 1021 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.