غربت سے تنگ قاتل ماں ۔۔۔۔ تخت ِلاہور و اسلام آباد

یہ کوئی نئی بات تو نہیں کہ چند روز پہلے غربت سے تنگ آکر اک ماں نے اپنے دو لخت جگر کو خود ہی قتل کر دیا۔ اس ماں نے اپنے ایک 2سال کے بیٹے یوسف کو گلا دبا کر مارا اور 8سالہ مناہل کو پانی میں ڈبو کر مارا۔ماں کا کہنا ہے کہ سسرال والے انھیں ایک ٹائم ہی کھانا دیتے تھے ۔ شوہر نااہل بے کار اور ڈرگ یوزر ہے ۔ شوہر اور سسرال والے اسے دبئی جانے اور وہاں جسم فروشی کرنے پیسے کمانے اور انھیں بھیجنے کی پر اسرار تھے جس سے خاتون ہمیشہ انکاری رہی ہے۔اس تعصب کی بنا پر وہ اس پر اس کے بچوں کو ہمیشہ تشد د اور بھوک کی نظر کرتے تھے۔

اپنے بچوں کی بھوک و افلاک دو سالوں سے برداشت کر رہی تھی۔ آخر کار مجبوراََ اسے ایسی قدم اٹھانا پڑا۔سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ آخر اس ماں نے ایسا کیوں کی کہ اپنے پیدائش و لخت ِ جگروں کو اس نے خود ہی قتل کر ڈالا؟ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ماں اپنے لخت جگر کو کبھی کوئی تکلیف برداشت نہیں کرتی اسے حد سے زیادہ افسوس ہوتی ہے مگر یہاں بھی بات وہی ہے کہ اس ماں کو حد سے زیادہ اپنے اولاد سے محبت نظر آتی ہے ۔ اس نے اپنے اولاد کی پرورش کی خاطر دبئی جانے سے انکار کی جو بالکل قابل تعریف بات ہے ۔ اس نے جسم فروشی سے انکار کی ہے بھی ایک مسلم ہونے کی ثبوت ہے کہ اس کے دل میں خوفِ خدا تھا کہ اس نے انکار کر دیا، جبکہ اس کے عیوض ظلم و جبر برداشت کی۔ بقول اس کے اس کو بچوں سمیت ایک وقت ہی نامکمل کھانا فراہم کرتے تھے ۔ جس کی تکلیف دو سال سے یہ برداشت کر رہی تھی ۔ آخر صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوا تو اپنے بچوں کی بھوک و افلاک برداشت نہ کرتے ہوئے اس نے اپنے ہی ہاتھوں اپنے بچوں کی تکالیف سے نجات دلانے کے لیے اس نے انھیں قتل کر دیا ۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس نے ہر اس دن اپنے ان بچوں کو قتل کرنے کی کوشش ضرور از ضرور کی ہوگی جس دن سسرال اور اس کے نااہل شوہر نے انھیں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا ہے۔ انھیں بھوک دیا اور اسے جسم فروشی پر مجبور کی ہوگی۔ لیکن آخر انسان زات ہے اس سے صبر کا پیمانہ لبریز ہو ا اوراس نے اس قدم کو ہی راہ نجات سمجھا اور عمل کر کے خو د کو اس دنیا اور آخرت میں بدنام دیا۔

اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت ساز ادارے و قوانین اسے مجرم قراد دے کر اسے سزا دیں گے اور بات ختم ۔ لیکن حقیقت میں حکومت اسے سزا دے کر سب سے بڑی غلطی کر رہی ہے ۔ میں بھی مانتا ہوں کہ یہ خاتون مجرم ہے اس نے غلط کی ہے مگر اس سے زیادہ مجرم تو وہ لوگ ہیں جو اس واقع کی اصل زمہ دار ہیں جن کی وجہ سے ایسا قدم اٹھایا گیا ہے۔ حکومت نااہل شوہر اور سسرال کو عبرت ناک سزا اور سرِ عام دے پاکستان کو یہ پیغام دے کہ اگرکسی شوہر نے ایسا سوچا اور کسی سسرال نے ایسی کوئی بکواس کی تو وہ بھی اس طرح عبرت ناک سزا کے حق دار ہونگے،وہ نہیں بچیں گے۔تب کسی حد تک اس کے واقعات میں کمی پیش آئے گی و دیگر صورت اس طرح کی واقعات میں اضافگی ملے گی۔

اگر یہ عورت اپنے شوہر اور سسرال کو قتل کر کے ا ن سے نجات حاصل کرتی تب بھی یہ مجرم بھی، خود کشی کرتی تب بھی یہ غلط اور اس کے بچے بھوک و افلاک کی شکا ر ہوتی اور اس کی بیٹی چند سال بعد جسم فروشی پر مجبور کی جاتی اور اس کا بیٹا یوسف بھی چائلڈ لیبر کی شکار ہوتا اوت دونوں کی زندگیاں تباہ و برباد نظر آ رہے تھے ۔ اگر یہ خاتون اپنے بچوں کو لے کر بھاگ جاتی تو کہاں جاتی یہ ظالم معاشرہ کیا مدد کرتی ؟

ہر کوئی مفاد ات کی یار ہے ۔ اگر کوئی شخص اس پر رحم بھی کرتا تو وہ اس سے کوئی نا کوئی لالچ رکھتا ۔مہنگائی و بے روزگاری کی عالم میں یہ اپنے بچوں سمیت کب تک گھر سے باہر در پہ در اور بھوک میں گزارا کرتی ؟تو اسے ایسا دقدم اٹھایا کہ وہ خود تو وہی ظلم و ستم کی شکار ہے مگر اس نے اپنے بچوں کو تو آزاد کر دی ہے۔

بحرحال حکومت ! اربوں روپیہ کی اسمبلیاں بنا کر عوا م کی مشکلات کو دور کرنے کی باتیں کرتے ہیں ۔ اربوں روپیہ کی ترقیاتی کامیں سوچتے ہیں ، اربوں روپیہ ترقیات کی نام پر کرپشن کر کے دولت جمع کرتے ہیں۔ تخت لاہور اور تخت اسلام آباد کے مالک یوں تو بہت امیر ہیں دنیا کے امیروں میں شمار ہوتے ہیں پاکستان میں سب سے زیادہ دولت جمع کرنے والے لوگوں میں چھوتا نمبر پر ہیں مگر یہ دولت تو اس غریب ماں جیسی اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کی ہے جو بھوک کی وجہ سے اپنے اولادوں کو قتل کر ڈالے ہیں ۔ سندھ کے تھر علاقے میں بھی بھوک و افلاک نے سینکڑوں معصوم بچوں کو موت نے اپنی لپیٹ میں لی ہے ۔ مگر حکومت کے عالیٰ افسران و عہدے داران اربوں روپیہ کی استعمال سے باز نہیں آتے ۔ لاکھوں روپیہ اسمبلیوں میں خرچ ہوتے ہیں مگر عوام بھوک کی شکار ہے ۔خدا کی قسم یہ بے نظیر بھٹو ، ذولفقار بھٹو کی طرح ہی خالی ہاتھ لوٹ جائیں گے ۔ یہ دولت جمع کرنے والے اگر اپنی ضرورت کے مطابق ہی دولت جمع کریں تو کوئی ماں ایسا کبھی نہیں کرے گی۔ اگر حکومت بیت الامان کو درست طریقے سے چلائے ، روزگار فراہم کرے اور غربت کو مٹائے ، اپنے اربوں کی اخراجات کم کریں تو کوئی ماں اس طرح کبھی بھی نہیں کریگی۔

حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ خود بھوک سے سو جائے مگر اس کا رعایا کبھی نہ سوئے اگر ایسا ہوا تو خدا وقت کے ذمہ داے حاکم سے قیامت کے دن احتساب لے گا ۔لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اور صوبہ پنجاب کے تخت کے مالک پرانے حاکم ہیں ۔ ان کی دولت پاکستان میں چھوتے نمبر پر سب سے زیادہ فہرست میں ہے۔ ان کے گھروں کی یومیہ خرچہ 8 سے 10لاکھ روپیہ ہے ۔ کمروں میں پڑی کرسیاں و قالین بھی لاکھوں روپیہ کی ہیں ، جسم میں پہنی کپڑے بھی لاکھوں روپیہ کی ہی ہیں ۔ جوتے بھی لاکھوں روپیہ کی ہیں ۔ عام ریکارڈ کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وجودہ وزیر اعظم میاں نواز شریف اور موجودہ وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف دونوں بھائی ہیں عام طور پر شریف برادران کے نام کے ساتھ جانے جاتے ہیں شریف براداران 1.8 بلین ڈالر کے مالیت کے ساتھ اپنے ملک میں چو تھے نمبر پر امیر ترین ہیں۔یہ دولت غریب عوام کی ہے مگر احتساب کی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے ماتحت ہے۔ لاکھوں ، کروڑوں لوگ اس وقت بھوک و افلاک کی شکار ہیں مگر ان کو کوئی نظر نہیں آتا ہے۔ کاش کہ یہ لوگ اپنی اس غریبوں دولت سے لوگوں کو روزگار اور امان خانے بنا ئیں ، کفالت خانے بنائیں ، بھوک و افلاک سے عوام کو بچائیں اور لوگوں کی مالی تکالیف دور کریں تو کیا بات ہوگی ثواب کا ثواب اور عزت کی عزت ۔ اب تو لوگ انھیں گالیاں ہی دیتے ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے لوگ بھوک و افلاک کی شکار ہیں۔ ان کی وجہ سے ماں اپنے بچوں کو قتل کر رہی ہیں۔ کسی ماں کو شوک تو نہیں ہوتی ہے کہ وہ اپنے اولاد کو قتل کرے مگر مجبوری کی اہمیت و تکلیف وہی جانتاہے جس پر گزر ہاہو۔ حکومت کے مالک اپنے اربوں کھربوں روپیہ کی دولت کو غریبوں میں استعمال کریں تو کوئی اور ماں نہ خود کشی کریگی نہ ہی اپنے بچوں کو خود ہی قتل کرے گی۔
Asif Yaseen
About the Author: Asif Yaseen Read More Articles by Asif Yaseen: 49 Articles with 45970 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.