ایک ماہ قبل سندھ میں ثقافتی دن منایا گیا ،لگ بھگ ڈیڑھ
ارب روپے مردے کے ٹیلے کہلانے والے موئن جو دڑو پر مجرے اور بے حیائی میں
لٹادیئے گئے،اور خوب پاکستان کی ثقافت کو دوسرے ممالک میں روشناس کرایا،
ٹوئٹر پر طالبان کے حوالے سے بیانات دینے والے شعلہ ٹوئٹر بلاول بھٹو ،موئن
جو دڑو سے دریافت کیئے گئے وزیر اعلی اور جیل سے فارغ التحصیل زرداری صاحب
جنکی لاچ کسی اور صوبے نے نہیں صرف سندھ نے ہی رکھی مگر انھوں نے ایک بار
پھر جمہوریت پر عمل کرتے ہوئے داد رسی پر تو اکتفا کیا اور ہمارے وزیر اعلی
نے کوتاہی بھی تسلیم کی مگر یہ تو جمہوریت کا حسن ہے کہ کچھ بھی کرلو آپ
کو کوئی عہدے سے ہٹا نہیں سکتا ،صرف 200 بچے ہی تو مرے ہیں شرم تم کو مگر
نہیں ۔ہمارء حکومت نےعملی طور پر تو کچھ نہ کیا مگر ہر دفعہ کی طرح اس دفعہ
بھی حکومت کی دم پر میڈیا نے پیر رکھ کر ضرب لگائی تو سندھ حکومت نے 20
کروڑ امداد کا اعلان کر کے اپنا فرض ادا کردیا ،یہ وہ حکومت ہے جو چوہدری
اسلم کی شہادت پر دو کروڑ ،ملزمان کی سر کی بولی کروڑوں میں دیتی ہے مگر
تھر کے عوام کے لیئے 20 کروڑ۔۔۔؟۔۔۔۔اس سے اچھا اقدام تو ۔بحریہ ٹاون کے
ملک ریاض نے فوری طور پر 20 کروڑ اور دوسری امداد روانہ کرکے کیا،ان سب سے
قبل دینی فلاحی ادارے جن میں سر فہرست جماعت الدعوتہ ,جماعت اسلامی اور
دیگر مذہبی فلاحی ادارے بغیر کسی اعلان اور ٹی وی پر آئے بغیر عملی طور پر
تھر کے باشندوں کے زخموں پر مرہم ڈال چکے تھے،جب کہ ایم کیوایم ،مسلم لیگ
ق،مسلم لیگ ن ، پی پی پی اور دیگر جماعتوں نے بھی اپنی ٹیمیں روانہ کرنے
اور امداد کا اعلان کیا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے وزراء اور حمکران
فحاشی کے نام پر ڈیڑھ ارب روپے لٹانے سے دریغ نہیں کرتے مگر تھر کے لیئے
جہاں دو سو سے ذائد بچے بھوک سے مرگئے ہوں وہاں 20 کروڑ کی امداد سمندر میں
قطرے کے برابر ہے ۔۔۔پی پی پی کا وہ نعرہ روٹی ،کپڑا اور مکان کہاں چلا گیا
۔۔۔۔؟ نہ مکان ملا،نہ روٹی اور نہ کپڑا ، ملی تو موت۔۔ ملی تو بھوک ،ملی تو
امداد وہ بھی نہ ہونے کے برابر،یہ ضرور ہوا کہ اس دفعہ تھر میڈیا کی ہیڈ
لائن کی زینت بن گیا- |