مئی کی تپتی دھوپ اورصحرا ئے تھر کی گرم ریت اوپر سے اپنا
جوبن دیکھاتا سورج اور جہاں پینے کے صاف میٹھے پانی کی شدید قلت بلکہ پینے
کے پانی کا نام و نشان تک نہ ہوں، وہاں قحط سالی کا پیدا ہونا تو لازمی ہے،
صحرائے تھر کی عوام اپنی پیاس بجھانے کو میٹھے پانی کو ترستی ہيں، یہ لمحہ
پانی کے حوالے سے رحمت رب جلیل کی ایک تفسیر ہے، ہم پینے کے میٹھے پانی کو
کس قدر ضائع کرتے ہیں، اور صحرا کے باسی اپنی پیاس بجھانے کے لیے میلوں کا
سفر طے کرتے ہیں-
اب صحرائے تھر میں قحط سالی بیماریوں نے بھی بیسرا کرلیا ہے، درجنوں بچے
مختلف بیماریوں کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے گے باقی قحط سالی سے
متاثرہ افراد مختلف بیماریوں اور دردناک اذیت کا شکار ہیں، ٹی وی چینلز پر
انسانی جسم کے پنجر دیکھ کر شدید دکھ کا احساس ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں
انسانوں کی کوئی قدروں قیمت نہیں ہیں، یہاں لوگ کتے بلی کی طوح مرتے ہیں،
دہشت گردی سے بم دھماکوں سے ٹارگٹ کلنک سے،بھوک غربت افلاس اور بے روزگاری
سے اور اب قحط سالی سے مررہے ہیں،
ملک میں دہشت گردی ٹارگٹ کلنگ بم دھماکوں غربت بھوک افلاس بے روز گاری
جرائم اور توانائی کے بحرانوں کا بیسرا تو پہلے سے ہیں اور اب صحرائے تھر
میں قحط سالی خشک سالی بیماریوں اور موت نے بھی بسیرا کرلیا ہے-
قدرت نے پاکستان کو چاروں موسم دیے میٹھے پانی کے دریا پہاڑ زرخیز زمین اور
معدنی دولت سے مالا مال سر زمین عطا کی ہے۔ تھر کا یہ علاقہ جہاں لوگ پانی
کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں،وہاں زیر زمین کوئلے کے معدنی انبار لگے
ہیں۔ ہم نہ تو اس زیر زمین ذخیرے سے کچھ فائدہ حاصل کرسکے اور نہ ہی تھر کے
باسیوں کو جن کی تعداد بمشکل دو لاکھ بھی نہیں ہے ان کو پینے کے پانی کی
فراہمی کا اہتمام کرسکے-
سندھ حکومت تھر اور سندھ کے کلچر کو نمایاں کرنے میں ایک اندازے کے مطابق
چھ ارب روپے خرچ کرکے ناچ گانے کا اہتمام کرتی ہے، لیکن چند کروڑ روپے کے
منصوبے شروع کرکے تھر کی عوام کو پانی فراہم نہيں کر سکی، قحط سالی اور خشک
سالی کے ایام میں انہیں متبادل یغنی اندرونی مہاجر بنا کر چند ماہ کے لیے
خوراک کا انتظام کرنے سے بھی قاصرہے، یہ کیسی حکومت ہے؟ کہ پیپلزپارٹی جن
کے قائد کا نعرہ روٹی کپڑا اور مکان تھا، وہ اپنے سندھ کے غریب ہاریوں کے
لیے روٹی کپڑا اور مکان تو بہت دور کی بات ہے، ان کے لیے پانی اور روٹی کا
انتظام کرنے سے بھی قاصر ہے، یہ مجرمانہ غفلت قابل معانی نہیں ہے، انہيں
کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ ان غریب سندھ کے ہاریوں کے لیے مسئلے کے حل کےلیے
کم ازکم ایک اجلاس ہی بلا لیتے، این ڈی ایم اے نے دو ماہ قبل ہی وارننگ دی
تھی سندھ حکومت کو کہ بارشیں کم ہونے کی بناء پر قحط سالی کا خطرہ ہے اس
لیے منصوبہ بندی کرلی جائے مگر حکومت کو تو جوں تک نہیں رینگی، سندھ حکومت
نے اس عرصے میں سندھی ثقافت کے نام پر جو کچھ کرتی رہی وہ ٹی وی ناظرین سے
چھپا ہوا نہیں ہے۔ تھر کا معاملہ تو بہت دور کی بات ہے، سندھ میں انکی
حکومت کے دوران بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے مزار کے زیريں کمرے
میں جو حرکات تسلسل سے ہوتی رہی ہیں میڈیا نے اسکے دستاویزی ثبوت بھی عوام
کے سامنے پیش کئے، اسکے بعد کہنے کو کیا رہ گیا ہے-
مجموعی طور پر پاکستان سال ہا سال سے بیڈ گورننس کا شکار ہے لیکن اس واقعات
نے سندھ حکومت کی مجرمانہ غفلت اور بے حسی کو طشت از بام کردیا ہے، صحرائے
تھر کی دل ہلادینے والی خبروں نے ہمارے قومی احساس کو جھنجوڑا ہے، جس میں
درجنوں ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہیں، اس واقعے کی زمہ داری بھی ماضی کی طرح
ایک دوسرے پر ڈالی جارہی ہے، امدادی کاموں کے اعلانات اور رفوٹو سیشن کی
تیاریاں ہورہی ہے، لیکن کوئی نہیں جو ان ترجیحا صحرا کے ان باسیوں کی زندگی
تبدیل کرنے میں سنجیدہ منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہو۔
وفاق اور پنجاب کی حکومت نے جن اقدامات کا اعلان کیا ہے وہ ناکافی ہے
حکومتی اقدامات سے صحرائے تھر کے متاثرین کے زخموں کو مرہم نہیں مل سکتا،
لیکن بحریہ ٹائون کے ملک ریاض نے اپنی زاتی حیثیت میں 20 کروڑ روپے کی
امداد کا اعلان کرکے ایک کار خیر کارنامہ کیا ہے، دوسرے مخیر حضرات کو بھی
اس جانب توجہ دینی چاہیے، اسی طرح این جی اوز سیاسی جماعتوں اور میڈیا کو
بھی تھر کو فوکس کرنا چاہیے، یہ ایک قومی المیہ ہے،ان تمام مسائل کی بنیادی
وجہ ہماری حکومتوں کی سمت اور ترجیحات کا درست نہ ہونا ہے، ہمارا معاشرہ
معاشی سیاسی سیکورٹی اور اخلاقی اعتبار سے شدید انحطاط کا شکار ہے،
وفاقی حکومت کو یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ بجلی گیس کے بحران میں ڈوبی
قوم کو دس سال بعد پانی کے بحران کا سامنا ہوگا اسکے لیے منصوبہ بندی کی
ضرورت آج ہے، ورنہ دہشت گردی اور توانائی کے بحران کو حل کرنے کی طرح پانی
کے مسئلے کو حل کرنے کا سرا بھی آئندہ حکومتوں کے ہاتھ سے نکل جائے گا- |