یہ صوبہ سندھ کا ضلع تھرپارکر ہے، جس کا کل رقبہ 19،638
مربع کلومیٹر ہے۔ آخری مردم شماری 1998ءکے مطابق اس ضلع کی کل آبادی
955812ہے، جس میں سے صرف 4.54 فیصد ہی شہروں میں مقیم ہے۔ اس کے شمال میں
میرپور خاص اور عمرکوٹ کے اضلاع، مشرق میں بھارت کے بارمیر اور جیسلمیر کے
اضلاع، مغرب میں بدین اور جنوب میں رن کچھ کا علاقہ ہے۔ 1990ءتک عمرکوٹ اور
میرپورخاص کے اضلاع ضلع تھرپارکر کا حصہ تھے، جس کا صدر مقام میرپور خاص
شہر تھا۔ 31 اکتوبر 1990ءکو اسے دو اضلاع میرپور خاص اور تھرپارکر میں
تقسیم کر دیا گیا۔ تھرپارکر کا ضلعی صدر مقام مٹھی ہے۔ عمرکوٹ کو 17 اپریل
1993ء کو ایک الگ ضلع بنایا گیا۔تھرپارکر کا بیشتر علاقہ صحرائے تھر پر
مشتمل ہے۔ جس کا شمار دنیا کے نویں بڑے صحرا کے طور پر کیا جاتا ہے، جو
بنیادی طور پر ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں سے آباد ہے۔ اس ضلع میں تھرکول
سمیت متعدد معدنیات کے بڑے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ سندھ کے اس علاقے کے
مکینوں کی زندگی میں بارش کاعمل دخل کافی زیادہ ہے، اگر کسی سال اس علاقے
میں بارش نہ ہو تو یہاں قحط کی سی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ یہاں یہ سلسلہ
ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک بارش نہ ہونے کے
باعث چودہ بار یہ علاقہ قحط کی زد میں آچکا ہے۔ اس بار بھی اس علاقے میں
بارش نہ ہوئی تو گزشتہ تین ماہ سے علاقہ قحط سالی کا شکار ہے۔ اب تک سوا دو
سو کے لگ بھگ بچے اس قحط سالی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اورہزاروں لوگ بھوک ،
پیاس اور دواﺅں کی قلت کا شکار ہیں۔ 25سو سے زاید بیمار افراد اب بھی
ہسپتالوں میں زیرعلاج ہیں۔ لوگ موت کے پنجوں سے اپنی جان چھڑانے کے لیے
متاثرہ علاقے سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ تھرپارکر کے 42سو دیہات میں
سے سینکڑوں نقل مکانی کی وجہ سے خالی ہوچکے ہیں اور مقامی ذرائع کے مطابق
تھرپارکر کے2 لاکھ خانداں موجودہ قحط سے متاثرہوئے ہیں۔ گزشتہ تین ماہ سے
تھرپارکر میں موت کا رقص جاری ہے، لیکن سندھ کا صاحب اقتدار اور حکمران
طبقہ فیسٹیول منانے میں مشغول تھا، تھرپارکر میں جنم لینے والے المیے کی
انہیں کوئی خبر تک نہ ہوئی، جب میڈیا نے سندھ کے کرتا دھرتا حضرات کو اس
قحط کی جانب متوجہ کیا تو اس پر بھی وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے میڈیا
کو ہی ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا کہ میڈیا بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہا ہے۔
حکومت نے متاثرین قحط کی مدد کرنے کا اعلان تو کیا تھا، لیکن اس کے باوجود
تھر میں بدانتظامی اور حکومتی بے حسی کے باعث انسانی المیے کی صورتحال
سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہے۔ تھرپارکر کے گوداموں میں پڑی گندم کی
ہزاروں بوریوں میںسے صرف 9سو بوریاں ہی تقسیم ہو سکی ہیں۔انتظامی نااہلی
اور بے حسی کے باعث سرکاری عملدار ضلع میں موجود گندم تقسیم کرنے میں بھی
ناکام رہے ہیں۔ تھرپارکر کے دیہات کے مکینوں نے ڈاکٹرز کی موبائل ٹیموں کو
علاقے میں بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے۔ حکومت تحصیل ہسپتالوں اور دیہی مراکز
صحت میں بچوں کے ڈاکٹر بھیجنے میں ناکام رہی ہے، صرف ایک ضلعی ہسپتال میں
ڈاکٹرز کی سہولت موجود ہے۔ مزید 2500افراد کو مقامی ہسپتال میں داخل کرادیا
گیا ہے۔ عمرکوٹ کے پچیس دیہات میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔ نجی فلاحی
تنظیموں کی جانب سے امداد کی صورتحال قدرے بہتر ہے۔ بحریہ فاﺅنڈیشن کے
سرپرست ملک ریاض کی جانب سے بھیجی گئی امداد کے 3ٹرک تھرپارکر کی تحصیل
اسلام کوٹ کے دیہاتوں میں بھیجے گئے ہیں۔ صحرائے تھر میں امدادی سرگرمیوں
کا مرکز ضلعی ہیڈ کوارٹر مٹھی بنا ہوا ہے، جہاں سندھ حکومت، پاک فوج اور
رینجرز کے علاوہ مختلف سیاسی، مذہبی اور سماجی جماعتوں نے اپنے اپنے امدادی
کیمپ لگا رکھے ہیں، تاہم ضلع کے 2 ہزار 700 سے زاید دیہات میں صورتحال بدتر
ہے، جہاں اب تک نہ تو امداد پہنچی ہے اور نہ ہی میڈیکل ٹیمیں پہنچ پائی ہیں،
جس کے باعث یہاں کے مکینوں کی حالت بھوک و بیماری سے انتہائی خراب ہے۔
چاچھرو کے دیہاتوں بھگی سر، الداد جو تڑ، بھونئار، نارنو کولہی،نھرو بھیل
اور دیگر گاﺅں سے لوگ مویشیوں اور خاندان سمیت بیراجی علاقوں کی جانب نقل
مکانی کرنے لگے ہیں، لیکن ہزاروں افراد اس سفر سے بھی قاصر ہیں اور وہ
امداد کے سہارے اپنی سانسیں کاٹ رہے ہیں اور موت ان کا تعاقب کررہی ہے۔
مٹھی سول ہسپتال کے ڈاکٹروں کے مطابق روزانہ 50 سے زاید بچے ہسپتال میں
داخل ہوتے ہیں، ہسپتال میں مریضوں کی بڑی تعداد کو سہولتیں فراہم کرنے کی
گنجائش نہیں، جس کے باعث علاج میں مشکلات کا سامنا ہے۔ صحرا میں یہ کوئی
خاص موقع نہیں کہ بچے بیمار ہو رہے ہوں، یہاں سال بھر یہی سلسلہ رہتا ہے۔
سول ہسپتال میں بچوں کے علاج کے لیے سہولتیں بہت کم ہیں اور افسوس ناک بات
تو یہ ہے کہ یہاں انتہائی نگہداشت کا وارڈ ہی موجود نہیں ہے۔ مقامی ذرائع
کا کہنا ہے کہ سندھ حکمران جماعت پیپلزپارٹی، قوم پرست پارٹیوں، سول
سوسائٹی کے نمایندوں، مسلم لیگ(ن)، این جی اوز اور تھر میں عرصے سے غریب
تھریوں کے ووٹ سے کامیاب ہوکر اقتدار کے مزے لوٹنے والے ارباب خاندان اور
دیگر سیاستدانوں نے قحط کے دوران تھری بھائیوں کو بالکل تنہا چھوڑ دیا اور
اس مشکل گھڑی میں کوئی بھی ان کا پرسان حال نہیں ہے، مٹھی شہر سمیت کسی بھی
علاقے میں انہوں نے امدادی کیمپ نہیں لگائے اور نہ ہی ارباب خاندان کے لوگ
کسی امدادی سرگرمی میں نظر آرہے ہیں۔ دوسری جانب تھر میں غریب تھریوں کے
نام پر کروڑوں روپے کے فنڈز حاصل کرنے والی این جی اوز بھی غائب ہیں، یہ سب
اپنے اپنے مفادات کے لیے متحرک ہیں اور غریب قحط زدہ متاثرین کی مدد کے لیے
کوئی اقدامات نہیں کیے۔بلکہ سرکار کا تو یہ حال ہے کہ تھر میں بھوک اور
افلاس کے شکار لوگوں کی مدد کے لیے آنے والے وزیر اعلیٰ اور دیگر وزرا کی
سرکٹ ہاﺅس آمد پر شادی کی دعوت کا سماں دیکھا گیا۔ ایک ایسے وقت میں جب تھر
کے 42سو دیہات میں بچے، خواتین اور بوڑھے بھوک، پیاس اور دواﺅں کی قلت کا
شکار ہیں، وہیں سرکٹ ہاﺅس میں ہونے والی دعوت کے دوران وزرا کی کوفتوں،
مچھلی، بریانی، وائٹمیٹ اور دیگر ڈشوں سے تواضع کی گئی، تھر کے قحط زدہ
عوام کی دیکھ بھال کے لیے آئے ہوئے وزرامختلف ڈشوں پر ٹوٹ پڑے۔ ٹھنڈے کمروں
میں اس شاندار ضیافت کی ستم ظریفی یہ ہے کہ جن لوگوں کے دکھ درد بانٹنے یہ
وزرا آئے ہیں، ان میں سے25سو مریض مٹھی ہسپتال میں بدستور ٹھنڈے پانی سے
بھی محروم ہیں۔ تھرپارکر کی سول سوسائٹی نے وزیرِاعلیٰ کی شاندار دعوت پر
تشویش کا ظہار کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اس طرح کی بے حسی سے بڑی تباہی
رونما ہوسکتی ہے۔ پیر کے روزجب وزیراعظم نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی
کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری امدادی کارروائیوں کی صورتحال کے جائزے
کے لیے مٹھی پہنچے تو اس وقت بھی اعلیٰ ترین سیاسی شخصیات کی آمد کی وجہ سے
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر مٹھی میں گلیوں اور بازاروں کی صفائی ستھرائی کی گئی۔ ان
کی آمد سے پہلے پولیس نے پورے شہر کو ہی حصار میں لے لیا تھا، کوئی بھی
پبلک ٹرانسپورٹ شہر میں داخل نہیں ہوسکی، جبکہ شہر کے بازار بند رہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق نوازشریف نے تھر میں سیکورٹی وجوہات کی بنا پر
دکانیں بند ہونے اور کاروباری سرگرمیاں معطل ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے سندھ
کے چیف سیکرٹری کو تمام سرگرمیاں بحال کرنے کا حکم دیا۔ پیر کے روز
وزیراعظم نواز شریف نے تھرپارکر کے دورے کے موقع پر کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ
سید قائم علی شاہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آئندہ تھر میں ایسی صورتحال
پیدا نہ ہو اور جن عناصر کے باعث صورتحال اس نہج تک پہنچی ہے، ان کے خلاف
سخت کارروائی کی جائے، تاکہ مستقبل میں اس قسم کی صورتحال سے بچا جاسکے۔ اس
بات کی تحقیق کی جائے کہ تھر میں بھیجی گئی گندم کی تقسیم کیوں نہیں ہوئی،
چولستان اورتھرپارکر کے حالات ایک جیسے ہیں تو تھرپارکر میں اموات کیوں
ہوئیں؟ اس موقع پر وزیر اعظم نواز شریف نے تھر کے متاثرین کے لیے ایک ارب
روپے امداد کا بھی اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ علاج کے لیے تھرپارکر سے
باہر نہیں جاسکتے انھیں یہیں علاج کی سہولیات فراہم کی جائیں اور اس میں
وفاقی اور پنجاب حکومت سندھ کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی۔
دوسری جانب چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی
بینچ نے تھر میں بچوں کو اموات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی، سماعت
کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے دیکھ کر سر شرم
سے جھک جانے چاہییں، تھر میں صورت حال کی ذمہ دار سندھ حکومت ہے۔ سماعت کے
دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ تھر میں صورتحال اتنی خراب نہیں جتنا
میڈیا نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر میڈیا نہ
بتاتا تو یہ معاملہ دب جاتا۔ چیف سیکرٹری سندھ اور ایڈووکیٹ جنرل سے
استفسار کیا گیاکہ یہ خشک سالی پہلی دفعہ نہیں ہوئی، کیا آپ کو پتا ہے کہ
اب تک تھر میں کتنے بچے مرے ہیں؟، خوراک کاذخیرہ آپ کے پاس ہے اور بچے بھوک
سے بلک بلک کر مررہے ہیں، یہ ہی بتادیں کہ کتنے بچے مرنے پر صاحب اقتدار
حرکت میں آتے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ اصولی طور پر
ساری صورت حال کی ذمہ دار حکومت سندھ ہے ۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے ازخود
نوٹس کی سماعت 17 مارچ تک ملتوی کردی۔ بعض صحافیوں نے یہ قانونی نکتہ
اٹھایا ہے کہ اگر ریگستانی علاقوں میں 16اگست تک ضرورت کے مطابق بارشیں نہ
ہوں تو اسے دو ستمبر سے آفت زدہ قرار دیدیا جانا چاہیے تھا، مگر اس مرتبہ
بارشیں نہ ہونے کے باوجود ایسا نہ ہوا، خشک سالی کے باعث پہلے چرندپرند اور
پھر مال مویشی متعدد بیماریوں کا شکار ہو کر مرنے لگے اور پھر بات انسانی
جانوں تک آ گئی، اطلاعات کے مطابق ضلعی انتظامیہ نے سندھ حکومت کو صورتحال
سے چار ماہ بعد آگاہ کیا اور چند ہفتے قبل اس علاقہ کو آفت زدہ قرار
دیاگیا، مگر بہت دیر ہو چکی تھی۔ اکیس ہزار مربع کلو میٹر کے وسیع رقبے میں
2345رجسٹرڈ اور مزید پانچ ہزار غیر رجسٹرڈ دیہات میں خشک سالی کا عفریت
اپنے پنجے گاڑ چکا تھا، جس کے نتیجے میں جو انسانی المیے رونما ہوئے انہیں
اب حکومت بھی تسلیم کر چکی ہے، سول ہسپتال مٹھی میں غذائی قلت کے باعث
مختلف بیماریوں میں مبتلا بچوں کی ہلاکتوں میں غیر معمولی اضافہ دسمبر سے
ہی شروع ہو چکا تھا، مگر ہسپتال انتظامیہ نے مریض بچوں کی تعداد اور
ہلاکتوں میں اضافے کو سنجیدہ نہیں لیا اور اپنے تک محدود رکھا، جس سے ان
اموات کا سلسلہ بے قابو ہو گیا، اگر سندھ حکومت تھر کو دو ستمبر تک آفت زدہ
قرار دے دیتی تو تھر میں غذا کی قلت پیدا ہوتی، نہ بچوں کی ہلاکتیں ہوتیں۔ |