آج کے ترقی یافتہ دور میں قحط کی وجہ سے تھرپارکر کے
ریگستان میں سینکڑوں بچوں کا بھوک و افلاس سے مر جانا ایک بہت بڑا المیہ
ہے۔اور اس سے بھی بڑھ کر ستم ظریفی کہ ان نعشوں پر بھی لیڈران سیاست کر رہے
ہیں۔ پاکستان کے سیاست دان اگر صرف کرپٹ و بدعنوان ہی ہوتے تو گذارا ہو
جانا تھا لیکن یہ اسکے ساتھ ساتھ بے حس اور بے ضمیر بھی ہیں۔ لگتا ہے انکے
پہلو میں دل ہی نہیں، ہر ایک اپنے اپنے بونے لیڈر کے دفاع میں زمین و آسمان
کے قلابے ملا رہا ہے اور سانحہ تھر کی ذمہ داری ایک دوسرے کے کندھے پہ ڈال
کر خود اس سے بری الذمہ ہو رہا ہے۔ مجھے نہں پتہ یہ مداری اپنے آپ کو دھوکہ
دے رہے ہیں، عوام یا پھر وقت کو دھوکہ دینے کی سعی لاحاصل کر رہے ہیں۔تھر
کا سنحہ سراسر مس مینجمینٹ اور لاپرواہی و غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہے
کیونکہ ساٹھ ہزار گندم کی بوریا ضلعی انتظامیاں کے پاس موجود تھیں لیکن
تقسیم نہ کی گئیں۔ اس علاقے میں جتنے بھی بیوروکریٹ تھے سارے ہی بڑے بڑے
سیاستدانوں کے ہونہار سپوت تھے جنکو اب معطل کیا گیا ہے۔ کیا اتنی سنگین
غفلت کی سزا صرف معطلی تھی ؟ کس کس بات کا ماتم کریں ایک جانب سندھ فیسٹوئل
کے نام پر رنگ وسرور کی محفل بپا تھی جس میں امراء ڈھول کی تھاپ پہ رقص کر
رہے تھے جبکہ دوسری جانب تھر کے صحرا میں بچے بھوک کی وجہ سے مرغ بسمل کی
طرح تڑپ تڑپ کر موت کی آغوش میں جا رہے تھے۔ پوری دنیا جمہوریت کے ثمرآت سے
لطف اندوز ہو رہی ہے لیکن میرے وطن عزیز کے بے رحم سیاستدانوں نے اس
جمہوریت کے درخت کو بے ثمر کر دیا ہے ۔ جب ان سے سوال کیا جاتا ہے تو
مارشلاء کا رونا رو کر جمہوریت کے ان میچور ہونے کا واویلا کرتے ہیں۔ جناب
کی خدمت میں گذارش ہے کہ جمہوریت کے ثمر کو عوام تک پہنچانے کے لیئے ایک
باری ہی کافی ہوتی ہے۔ لیکن آپ کی ترجیحات ہی کچھ اور ہیں ۔ حضرت عمر کا
حوالہ ہم سب دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں لیکن خود بھول جاتے ہیں۔ سابق
چیف جسٹس افتخار چوہدری کی دم پہ جب پیر آیا اور انھوں نے منتخب وزیرآعظم
کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تو گیلانی نے پس و پیش سے کام لینا چاہا
تو جناب افتخار چوہدری نے بیان داغا کہ اگر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
عدالت میں قاضی کے روبرو پیش ہو سکتے ہیں تو گیلانی کیوں نہیں۔ لیکن
رٹائرمنٹ کے بعد بلٹ پروف گاڑی اور سیکورٹی و پروٹوکول مانگتے ہوے انکو
حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یاد نہیں آئے، جناب حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
٤٠ لاکھ مربع میل کے حاکم تھے اور کوئی سیکورٹی اور پروٹوکول نہیں تھا اور
گورنس کا عالم یہ تھا کہ آپ فرماتے تھے کہ اگر فرات کے کنارے بکری کا بچہ
بھی بھوک سے مر جائے تو عمر خدا کے حضور جوابدہ ہو گا۔ تھر کے صحرآ میں تو
بھوک سے مرنے والے انسانوں کے بچے تھے۔کیا حکمرآنو تم سے سوال نہ ہوگا ؟ سو
فیصد تم سے تمھاری رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ اور وہ عدالت افتخار چوہدر
کی نھیں ہو گی جہاں سے دہشتگرد عدم ثبوت کی وجہ سے چھوٹ گئے۔ وہ عدالت آحکم
الحاکمین کی ہو گی اور کوئی وڈیرا و جاگیردار اور مخدوم تمھارے کام آسکے
گا۔ نہ ہی سعودیہ کے شیوخ تمھارے کا آئیں گئے وہ تو خود کالے کرتوتوں اور
ہزاروں انسانوں کے قتل کی پشت پناہی اور فنڈنگ کے جرم میں حساب دے رہے ہوں
گئے۔ وہی تو دن ہے جس دن غریبوں اور مجبوروں و مظلوموں کو انصاف ملے گا اور
تمھارا گریبان ہوگا اور تھر کے بچوں کا ہاتھ اور وہ چیخ کر تم سے سوال کریں
گئے ک کیا ہم ابن آدم نہ تھے ؟ کیا ہمیں جینے کا حق نہ تھا ؟ |