اقبال نسلا کشمیری براہمن تھے۔ ان کی گوتھ سپرو تھی۔
پندرھویں صدی عیسوی میں‘ ان کے آباؤ اجداد بابا لولی‘ مشرف بہ سلام ہوئے۔
بابا لولی‘ حاجی بابا نصیرالدین کے مرید تھے۔ حاجی بابا نصیرالدین‘ شیخ
نورالدین ولی کے ادارت مندوں میں سے تھے۔ انہوں نے کئی پاپیادہ حج کیے۔ ان
کا مزار چیراٹ شریف‘ کشمیر میں ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے وکیل سر تیج
بہادر سپرو گھرانہ سے تعلق رکھتے تھے۔
اقبال کے دادا‘ شیخ محمد رفیق‘ عرف شیخ رفیقا نے‘ سیال کوٹ کے محلہ کھٹیکاں
کے ایک مکان میں سکونت اختیار کی‘ بعد ازاں یہ مکان خرید لیا۔ شیخ رفیق
تجارت سے منسلک تھے۔ یہ مکان اس دور میں یک منزلہ تھا۔ اسی مکان میں اقبال
کے والد شیخ نور محمد پیدا ہوئے۔ ١٨٩٢ میں شیخ نور محمد نے اس مکان سے
ملحقہ مکان خرید لیا۔ یہ رہائش‘ بعد ازاں اقبال منزل کہلائی۔ اقبال کی
والدہ کا نام امام بی بی تھا۔ وہ ایک دین دار خاتون تھیں۔ ان کے والد صوفی
منش تھے اور اکثر درویشوں کی محفل میں اٹھتے بیٹھتے تھے۔ ان کی دوسری
اولادوں میں شیخ عطا محمد‘ فاطمہ بی بی اور طالع بی تھیں۔ اقبال کی پیدائش
کے وقت‘ شیخ عطا محمد اٹھارہ برس کے تھے اور ان کی شادی ہو چکی تھی۔
اقبال کی پیدائش کے متعلق مختلف روایات سامنے آتی ہیں تاہم ٩ نومبر پر سب
اتفاق کرتے ہیں۔ جاوید اقبال کے مطابق وہ صبح کی ازان کے وقت ١٨٧٧ میں پیدا
ہوئے۔
سکوت سیال کوٹ ١٨٥٧ کے وقت‘ سیال کوٹ کے دو سالاروں کو‘ پھانسی اور بیشتر
جنگ جو جوانوں کو‘ گولی سے اڑا دیا گیا۔ اس حادثے نے‘ سیال کوٹ کے ذہنوں پر
منفی اثرات مرتب کیے۔ وہ انگریز راج اور انگریزی اطوار سے نفرت کرتے تھے۔
اقبال کے والد‘ اگرچہ کسی تحریک میں حصہ نہ لیتے تھے لیکن اس حادثے نے ان
پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ یہی وجہ ہے‘ کہ انہوں نے اقبال کو چار برس کی عمر
میں‘ مولوی غلام حسین کے حوالے‘ دینی تعلیم کے لیے کر دیا۔ وہ وہاں سال کے
لگ بھگ تعلیم حاصل کرتے رہے۔
ایک دفعہ مولوی میر حسن‘ مولوی غلام حسین کے ہاں گیے‘ جہاں انہوں نے اقبال
کو دیکھا۔ انہوں نے شیخ نور محمد سے کہہ کر‘ اقبال کو اپنی تحویل میں لے
لیا۔ اقبال‘ ان کے ہاں عربی فارسی اور اردو ادبیات کا مطالعہ کرنے لگے۔ اسی
دوران‘ مولوی میرحسن نے اقبال کو اسکاچ مشن اسکول‘ سیال کوٹ میں داخل کرا
دیا۔
١٨٩٣ میں‘ اقبال نے اسکاچ مشن اسکول سے میٹرک درجہ اول میں پاس کیا۔ ادھر
میٹرک کا امتحان پاس کیا ادھر ان کے سر پر شادی کا سہرا سج گیا۔ ان کی بیوی
کریم بی بی‘ گجرات کے ایک معزز اور شریف کشمیری گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔
خاندانی شرافت ان کی رگ وپے میں موجود تھی۔ اسکاچ مشن اسکول‘ کالج کا درجہ
اختیار کر گیا تھا۔ یہاں سے‘ درجہ دوئم میں ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ سال
اول کے دوران ہی‘ داغ دہلوی سے کلام میں اصلاح لینے لگے۔ یہ تعلیمی ادارہ
مشرقی و مغربی اقدار کا نمائندہ تھا۔
ستمبر ١٨٩٥ میں‘ لاہور تشریف لے آئے۔ گورنمٹ کالج لاہور سے‘ فلسفہ اور عربی
مضامین میں بی اے کیا۔ عربی کے مطالعہ کے لیے اورئنیٹل کالج آتے۔ وہاں
علامہ محمد حسین آزاد‘ علامہ فیض الحسن سہارن پوری اور مولوی محمد دین ایسے
فاضل اساتذہ سے کسب علم کا موقع دستیاب ہوا‘ تاہم پروفیسر آرنلڈ کے بہت
قریب تھے۔ گورنمنٹ کالج میں پروفیسر ڈبلیو میل‘ پروفیسر اوشر اور پروفیسر
آرنڈ سے فلسفہ کی تعلیم حاحل کی۔ گورنمنٹ کالج سے بی اے درجہ دوئم میں پاس
کیا۔ ایم اے فلسفہ‘ درجہ سوم میں کیا۔ ١٩٠١ میں ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کے
لیے ان فٹ قرار پائے۔
١٨٩٩میں‘ اورنٹیل کالج میں‘ بطور ریڈر ملازم ہو گیے۔ ١٩٠٣ میں گورنمنٹ کالج
لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوءے۔ اسلامیہ کالج لاہور میں‘ سر عبدالقادر
کی سیٹ پر‘ بطور اسسٹنٹ پروفیسر آف انگلش بھی کام کیا۔ قیام لاہور کے
دوران‘ ان کی چار کتابیں منظر عام پر آئیں۔ ١٨٩٩ سے ١٩٠٥ تک‘ لاہور کی درس
گاہوں میں فرائض انجام دیتے رہے۔ اقبال ملنے والی ماہوار تنخواہ سے مطمن نہ
تھے۔ اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ بیرسٹر بن کر محکمہ تعلیم کو خیرباد
کہہ دینا چاہتے تھے‘ لیکن وہ بیرسڑی نہ کر سکے۔ خصوصی اجازت کے باوجود
کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ اس سے‘ باخوبی یہاں کے معیار تعلیم کا اندازہ
لگایا جا سکتا ہے۔ مغرب کی بڑی دکان سے‘ انہیں یہی سامان دستیاب ہو گیا۔
اقبال کالج سے ملنے والی سٹڈی لیو لے کر‘ انگلستان روانہ ہو گیے۔ رخصت کے
دوران ہی‘ ان کی تنخواہ میں تیس روپے اضافہ گیا۔ یورپ سے واپسی پر‘ اپنی
دیرینہ خواہش اور بہتر آمدن کے لیے ملازمت سے اسطیفے دے کر‘ بیرسٹری کی طرف
آگیے۔
علامہ اقبال سیمابی طبیعت اور مزاج کے مالک تھے۔ ان کا علمی ادبی اور بہتر
آمدن کی حصولی کا خواب شرمندہء تعبیر نہیں ہو سکتا تھا۔ لاہور آ کر انہوں
نے ناصرف تعلیم حاصل کی‘ بلکہ ملازمت بھی اختیار کی۔ بیرسٹر بن کر معاشی
صورت حال کو کروٹ دینے کی کوشش کی‘ لیکن اس حوالہ سے‘ بری طرح ناکام ہوئے۔
طالب علمی کے زمانہ ہی سے‘ انہوں نے ادب کی مختلف حوالوں سے تسکین کا کام
کیا۔ ‘سبھی دوست‘ ان کے کمرے میں آ جاتے۔ فرش پر‘ حقہ سمیت‘ محفل جمتی۔ یہ
برہنہ سر‘ تہمد باندھے‘ کمبل اوڑھے حقہ پیتے رہتے۔ شعر و شاعری مباحث اور
خوب خوب خوش طبعی کا سامان ہوتا۔
اقبال سے قبل ہی‘ ایک انجن مشاعرہ قائم تھی۔ اس انجمن کی بنیاد حکیم شجاح
الدین نے‘ ١٨٩٠ میں رکھی تھی۔ اس کی نشتیں‘ حکیم امین الدین کے ہاں ہوا
کرتی تھیں۔ حکیم شجاح الدین کی موت کے بعد یہ نشتیں‘ نواب غلام محبوب
سبحانی‘ والئی کشمیر کی سرپرستی میں ہونے لگیں۔ ١٨٩٨ کی ایک شام کو‘ انجمن
کے مشاعرہ میں اپنا کلام پڑھا۔ اس مجلس میں علامہ ارشد گورگانی اور میر
ناظم حسین ناظم بھی موجود تھے۔ جب وہ اس شعر تک پہنچے:
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے میرے عرق انعفال کے
علامہ ارشد گورگانی بے اختیار ہو کر داد دینے لگے اور انہیں محبت بھری
نظروں سے دیکھا۔
لاہور میں قائم شدہ انجمن ‘کشمیری مسلمانان‘ میں بھی اپنا کلام سنایا اور
داد پائی۔ مشاعروں میں رنگ آ گیا اور سامعین کی تعداد میں‘ ہر چند اضافہ
ہوا۔ ان مشاعروں کی تنظیم کے لیے‘ ایک ادبی انجمن بھی قائم کی گئی۔ اس کے
صدر مدن گوپال اور سیکرٹری خان احمد حسین خاں تھے۔ خان احمد حسین خاں‘ ان
مجالس کے روح رواں ہوا کرتے تھے۔ نظم ‘ہمالہ‘ بھی‘ اس انجمن کے کسی اجلاس
میں پڑھ کر سنائی گئی۔
اقبال اپنا کلام تحت اللفظ سناتے تھے۔ ان آواز میں بلا کا جادو تھا۔ دوستوں
کے اصرار پر‘ انہوں نے کھی کبھار اپنا کلام ترنم سے پڑھنا شروع کر دیا۔
ادبی انجمن کے حوالہ سے‘ اقبال لاہور کی فضاؤں میں‘ نمودار ہوئے۔ اقبال اس
انجن کے سیکرٹری بھی رہے۔ یہ انجمن آگے چل کر‘ آل انڈیا مسلم کانفرنس کے
نام سے معروف ہوئی۔
قیام لاہور کے دوران‘ ان کے تعلقات خاصے وسیع ہو گیے۔ ان کے احباب میں‘
انگریز‘ ہندو اور مسلمانوں شامل تھے۔ انگریز احباب میں‘ پروفیسر ارنلڈ
خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ پروفیسر موصوف نے ان کے فکری رویوں کو متاثر کیا۔
انجمن حمایت الاسلام کے سالانہ جلسہ ١٩٠٠ میں‘ انہوں نے ‘نالءیتیم‘ پڑھی۔
اس جلسے کی صدارت ڈیپٹی نذیر احمد کر رہے تھے۔ اس انجمن کے اور جلسوں میں
بھی‘ اقبال نے شرکت فرمائی اور اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔ اس انجمن
کے جلسوں میں‘ کلام پڑھنے کے دوران‘ علامہ الطاف حسین حالی سے دس روپے‘
خواجہ حسن نظامی سے عمامہ اور خواجہ عبدالصمد ککڑو سے چاندی کا تمغہ‘ جو وہ
کشمیر سے بنوا کر لائے تھے‘ وصول کیا۔ انہیں علامہ الطاف حسین حالی کی نظم
سنانے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔
یہ سب‘ بلاشبہ‘ اقبال کی فکر کی بلند پروازی‘ جدت طرازی‘ نیا اسلوب تکلم‘
نئی زبان اور انگریز احباب سے قربت کا نتیجہ تھا۔ ان کے کہے میں عصری کرب
کی تصویر کشی اور دلکش انداز میں پیش کش کو کسی بھی سطع پر نظر انداز نہیں
کیا جانا چاہیے۔
قیام لاہور کے دوران‘ انہوں نے ہمالہ‘ نالءیتیم‘ ایک یتیم کا خطاب‘
نالءفراق-١‘ خیر مقدم‘ دین و دنیا‘ فریاد امت‘ تصویر درد شعر پارے قلم بند
کیے۔ یہ سب فکری و لسانی اعتبار سے‘ اپنی مثال ہیں۔ انہیں ادب عالیہ کی
بساط پر رکھا جا سکتا ہے۔
منشی محمد دین فوق‘ جو ایک شاعر سے زیادہ‘ اخبار نویس تھے‘ نے اقبال میں
ترقی پسندی کے جوہر دیکھ کر‘ ان کے نام کو اچھالنا شروع کیا۔ ان کے کلام کو
اپنے اخبارات میں نمایاں جگہ دی۔ ان دونوں حضرات کو‘ جنم جنم کا ساتھی کہا
جائے‘ تو مبالغہ نہ ہو گا۔ دوسرا‘ وہ دونوں ایک ہی دھرتی کے سپوت تھے۔
دونوں داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ وہ پیسہ اخبار‘ پنجہءفولاد‘ کشمیری میگزین
اور اخبار کشمیری نکالتے تھے۔
١- جو پروفیسر آرنلڈ کا قصیدہ ہے۔ اس قصیدے کو قصائد سے الگ رکھا گیا ہے‘
حالاں کہ اردو قصیدے میں اسے بڑا ہی خوب صورت اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
مواد اور اسلوب تکلم کی جدت‘ اس قصیدے کو الگ سے‘ عزت اور توقیر دینے کا
مستحق ٹھہراتی ہے۔ غالبا ان کی زندگی کے سفر میں‘ یہ سنگ میل کا درجہ رکھتا
ہے۔
-----------------------
اس مضمون کی تیاری کے لیے ان کتب سے استفادہ کیا گیا ہے:
١- زندہ رود از شیخ اکرام
٢- اقبال مرتبہ وحید عشرت
٣- مطالہء اقبال از ڈاکٹر گوہر نوشاہی
٤- اقبال کامل از عبدالسلام ندوی
٥- نقوش اقبال نمبر شمارہ ١٢١
٦۔ نیرنگ خیال شمارہ ستمبر اکتوبر ١٩٩٢
9-1-1980 |