موئن جو دڑو میں جو لوگ بھی رہتے تھے وہ بڑے خوش نصیب تھے
کہ ہزاروں سال بعد بھی اُن کے گھر آنگن میں خوشیاں ناچ رہی ہیں، اقتدار کے
ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگ اُن پر مہربان ہیں اور سندھ کی ثقافت کو عروج
بخشنے کے نام پر پندرہ روزہ پروگرام کے تحت جشن منائے گئے ہیں۔ اِس رونق
میلے نے ہمارے دِل میں موئن جو دڑو کے آس پاس باقیات کی شکل میں بسے ہوئے
قدیم سندھیوں کے لیے حسد کے جذبات پیدا کردیئے ہیں۔ جن کے بارے میں کوئی
کچھ نہیں جانتا اُنہیں ایسے شاندار انداز سے پُوجا جارہا ہے کہ دیکھنے والے
انگشت بہ دنداں ہیں۔
اور دوسری طرف انتہا یہ ہے کہ تھر کے زندہ غریب حالات کی چَکّی میں پستے
ہوئے زندہ در گور ہیں۔ مَرے ہوؤں کے نام پر جشن …… اور زندوں کی خاطر تھوڑا
سا سوگ بھی نہیں! اِسی کو تو کُھلا تضاد کہتے ہیں۔
تھر کے مجبور و لاچار باشندوں پر موسم کی اُفتاد ایسی پڑی کہ اُن کے پُھول
سے بَچّے خزاں کی نذر ہوئے۔ خوراک کی شدید قِلّت نے تھر کے ریگستان کو کچھ
اِس طرح لپیٹ میں لیا کہ معصوم زندگیاں بھی ریت کے ذَرّوں کی سی ہوگئیں۔
اِس سے پہلے کہ کسی کی سمجھ میں کچھ آتا یا ہوش آتا، ڈیڑھ سے زائد پُھول
مُرجھا چکے تھے۔ جہاں بچوں کی کِلکاریاں گونجا کرتی تھیں وہاں آہوں اور
سِسکیوں کے سِوا کچھ نہ بچا۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کو خاصی دیر سے یاد آیا کہ تھر کا
علاقہ بھی اُن کی قلمرو کا حصہ ہے اور وہاں جو کچھ ہو رہا ہے اُس کے لیے
اُن سے بھی باز پُرس ہوگی۔ کسی بڑے کو تو کیا پُوچھنا تھا اور قیامت کا
حساب کتاب ابھی دور ہے۔ ایسے میں میڈیا والوں نے چند سوالات داغ کر شاہ
صاحب کو لب کُشائی پر مجبور کیا۔ انتظامیہ کی نااہلی کا ملبہ موسم پر
گِراتے ہوئے شاہ صاحب نے فرمایا کہ تھر کے بَچّے نمونیا سے ہلاک ہوئے ہیں۔
ایک رپورٹر نے یہ سُن کر سوال داغا کہ کیا اب سردی کے خلاف تحقیقات کی جائے
گی تو شاہ صاحب برہم ہوگئے اور پریس کانفرنس درہم برہم کردی۔
پاکستانی معاشرے اور حکومتی مشینری کو آزاد کہنا اُن کی توہین ہے کیونکہ یہ
آزاد نہیں، مادر پدر آزاد ہیں۔ اب کسی پر کوئی پابندی نہیں۔ کسی کے لیے من
مانی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ جو سیاہ و سفید کے مالک ہیں اُن کی رگوں
میں خون سفید تر ہوتا جاتا ہے اور تمام معاملات کو وہ سیاہ تر کرنے پر تُلے
رہتے ہیں!
یہ نہ سمجھا جائے کہ کسی کو ہوش نہیں آتا۔ ہوش ضرور آتا ہے مگر پانی سَر سے
گزر جانے کے بعد۔ سبھی جانتے ہیں کہ مون سُون میں سیلاب کا خطرہ برقرار
رہتا ہے مگر پیش بندی کوئی نہیں کرتا۔ اور جب بہت کچھ زیر آب آچکا ہوتا ہے
تب اربابِ بست و کُشاد کے ماتھے پر ندامت کی چند بُوندیں نمودار ہوتی ہیں۔
تھر کے ریگستان نے انسانوں کو بھی ریت کے ذَرّات سمجھ کر اپنانا شروع کردیا
ہے۔ حکمرانوں کی عدم توجہ سے ایسا تو ہونا ہی تھا۔ بھوک سے بلکتے اور
بیماریوں سے تڑپتے بَچّوں پر کسی نے توجہ نہ دی اور معاملات بگڑتے ہی چلے
گئے۔ بھوک اور بیماری نے مفاہمت کی پالیسی اپنائی اور یوں اِس مشترکہ عفریت
نے بَچّوں کو نگلنا شروع کیا۔ یہ سب کچھ ایسی خاموشی سے ہوا کہ کسی کا
دھیان ہی اِس طرف نہیں گیا۔ تھر اور ایسے ہی دوسرے بہت سے علاقے بند پڑی
ہوئی سِموں کی طرح ہیں۔ جن کے ہاتھ میں اقتدار اور اختیار ہے وہ اِن علاقوں
کو activate کرنا بھول گئے ہیں۔ یا پھر یوں ہے کہ نیٹ ورک پر دباؤ کم کرنے
کے لیے اِن علاقوں کو de-activated رکھا گیا ہے!
شرم و حیا ابتدائی مرحلے میں مانع ہوتی ہے۔ جب انسان اپنی آنکھوں سے شرم کا
پانی بہانے پر تُل جائے تو دو تین تجربات میں ساری جھجک دور ہوجاتی ہے۔
ویسے تو خیر پورے ملک کا، اِلّا ماشاء اﷲ، ایک سا حال ہے مگر سندھ حکومت نے
تھر میں بَچّوں کی ہلاکت کے حوالے سے کمال کر دِکھایا ہے۔ وزیر اعلیٰ کے
دورۂ تھر کے موقع پر مِٹّھی کے سرکٹ ہاؤس میں جو کچھ ہوا وہ دیکھ کر قوم کے
لیے شارٹ سرکٹ والی کیفیت نے جنم لیا ہے۔ جس علاقے میں بَچّے خوراک نہ ملنے
سے مر رہے ہیں اور لوگ مِِرچی کھاکر پیٹ بھر رہے ہیں وہاں وزیر اعلیٰ اور
ان کے رفقاء کے لیے شاندار و پُرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا گیا۔ اِسے زخموں
پر نمک پاشی نہ کہیے تو اور کیا نام دیجیے۔ لوگ بھوک کے غار میں گر رہے تھے
اور سرکاری مشینری درجن بھر ڈِشوں کا ہمالیہ سَر کرنے کے فراق میں تھی۔ کسی
کے چہرے پر تفکر اور پریشانی کے آثار تک نہ تھے۔ کوئی بھی پریشانی اُسی وقت
تکلیف دیتی ہے جب اُسے محسوس کیا جائے۔ اب شاید سرکاری اُصول یہ ہے کہ اگر
کوئی منظر تکلیف دے رہا ہو تو آنکھیں مُوند لینا ہی بہترین دستیاب آپشن ہے۔
مِٹّھی کے سرکٹ ہاؤس میں ملائی بُوٹی، قورمہ، تِکّے، بریانی اور مچھلی کی
ڈِشوں پر مشتمل ضیافت کے اہتمام نے ثابت کردیا کہ اب اہمیت صرف اس بات کی
ہے کہ رونق میلہ چلتا رہنا چاہیے۔ اِنسانوں کا کیا ہے، وہ تو مرتے ہی رہتے
ہیں۔ زندگی اٹل ہو نہ ہو، موت تو اٹل ہے۔ جو ہونا طے ہے اُس کے لیے کیا دِل
گرفتہ ہونا اور آنسو بہانا؟ کِسی کے آنے یا جانے سے شو کہاں رُکتا ہے؟ اور
کیوں رُکے یا روکا جائے؟
یہ بیان بھی خوب ہے کہ تھر میں تو ہر سال یہی کچھ ہوتا ہے، نیا کچھ بھی
نہیں۔ یعنی جو ہوتا آیا ہے اُسے ہوتے رہنے دیا جائے۔ غریبوں کا تو کام ہی
مرنا اور حکومت کو بدنام کرنا ہے۔ اُن کی اموات کا کوئی اثر نہ لیا جائے۔
چہ خوب۔ وزیر اعلیٰ فرماتے ہیں کہ بَچّے بھوک سے نہیں، نمونیا سے مرے۔ عذرِ
گناہ بدتر از گناہ۔ چلیے، یہی سہی۔ تو کیا نمونیا کے جن کو علاج کی بوتل
میں بند کرنا محکمۂ صحت کی ذمہ داری نہیں؟ جب اہلِ اقتدار اور سرکاری
مشینری کا یہ حال ہو تو لوگ زندگی پر موت کو ترجیح کیوں نہ دیں؟
موت کی راہ نہ دیکھوں؟ کہ بِن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں؟ کہ نہ آؤ تو بُلائے نہ بنے!
جو کچھ تھر کے معاملے میں ہوا ہے وہی کچھ ہر سال مون سُون میں سیلاب کے
حوالے سے ہوتا ہے۔ سیلاب سالانہ معمول ہے۔ اُسے تو آنا ہی ہے تو پھر پریشان
کیوں ہوا جائے۔ یعنی ع
جو آئے آئے کہ ہم دِل کُشادہ رکھتے ہیں!
کسی بھی ہنگامی حالت کو سالانہ معمول قرار دے کر نظر انداز کردیا جائے؟ چشم
پوشی برتی جائے؟ پیپلز پارٹی کے ’’بوائے مین‘‘ بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں
کہ تھر سے ملحق بھارتی علاقے میں بھی ایسی ہی قیامت ٹوٹی ہے! گویا وہاں کچھ
ہو تو اُس کی طرز پر یہاں بھی وہی کچھ ہونے دیا جائے؟ کیا تھر کے بَچّے اِس
قوم کا حصہ نہیں؟ ریگستان میں رہنے سے کیا وہ ریت کے ذَرّے ہوگئے؟ کیا بہتر
زندگی پر، اور اُس سے بڑھ کر زندگی پر اُن کا حق نہیں؟
تھر میں پانی نہیں مگر سوالات کا ریلا رواں ہے۔ مگر سوالوں کی فکر تو
اُنہیں دامن گیر رہتی ہے جو جواب دینے کو اپنی ذمہ داری گردانتے ہوں اور
اپنے گریبان میں جھانکنے کے لیے تیار ہوں۔ جب طے کرلیا گیا ہو کہ سوچنا ہی
نہیں ہے اور کسی سوال کا جواب بھی نہیں دینا تو پھر کیسی شرم اور کیسی حیا؟
تَھر کے جو پُھول مُرجھاکر ابدی خزاں کی گود میں جا سوئے ہیں اُن کی عظمت
کو سلام کہ اُنہوں نے جان دیکر رونق میلے میں کچھ جان ڈالی ہے، سرکاری
مشینری کے چند بڑے پُرزے ہِلے ہیں اور ریت کے ٹیلوں کا رُخ کیا ہے!
٭٭٭
|