ابتدائے گفتگو قبل جگرمر ادآبا دی کی رندانہ پیشن گو ئی
ملا حظہ کیجئے
صیاد نے لو ٹا تھا عنادل کا نشیمن
صیاد کا لٹتے ہوئے گھر دیکھ ر ہا ہو ں
ارباب و طن کو مری جانب سے ہو مژدہ
اغیار کومجبورسفر دیکھ رہا ہو ں
اک تیغ کیچشمک سی نظر آتی ہے مجھ کو
اک ہاتھ پس پر دہ در دیکھ رہا ہو ں
رحمت کا چمکنے کو ہے پھر نیر تاباں
ہو نے کو ہے اس شب کی سحر دیکھ رہا ہو ں
بیداری و آزادی و اخلاص و محبت
اک خلد در آغوش نظر دیکھ رہا ہو ں
جو خواب کہ شرمندہ تعبیر تھااب تک
اس خواب کی تعبیر جگر دیکھ رہا ہو ں
جگر مرحوم نے ان مذکورہ اشعار کو بلا خیز قحط بنگال سے متاثر ہو کر کہا تھا،
راقم مر حوم کی روح سے معذرت اور اجازت کے ساتھ ان معنوں کو اشوک مو چی کی
بیداری ضمیراور حب الوطنی کیلئے مستعار لے رہا ہے کیونکہ ا س شخص نے جس طر
ح قطب الدین سے اظہار معذرت کیا ہے اور اپنے تمام گذشتہ فر قہ وارانہ سر
گرمیوں سے تو بہ کی ا س سے یہی نتیجہ اخذ ہو رہا ہے کہ فرقہ واریت کی جو
باد سموم ہندوستان کے شرق و غرب میں چلائی گئی تھی و ہ دم تو ڑ رہی ہے اور
اس طو فان بلا خیز کامقابلہ براہ راست ہم آہنگی او رحب الو طنی کے کو ہ
ہمالہ سے ہے نیز یہ بھی عیا ں ہو رہا ہے ہندو ستان ایک نئے انقلاب کی طرف
بڑھ رہا ہے ۔و اضح ہو کہ یہ وہی بدنام زمانہ اشوک مو چی ہے جس نے گجرات
فساد میں بڑھ چڑھ کر اپنی بھگوائیت اور سخت گیر یت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اس
نشہ میں آکر ہزارو ں معصومو ں کو تہہ تیغ کیا تھا میڈیا کیلئے اور قوم مسلم
کیلئے جانا پہچاناہے قارئین بھی اس سے ناواقف نہ ہو نگے گاہے بگاہے اردو
اخبارات میں جب کبھی گجرات مسئلہ پر گفتگو کی جاتی ہے تو یہ تصو یریں بڑے
اہتمام کے ساتھ چھاپی جاتی ہیں اسی زندہ کردار اشوک موچی نے قطب الدین سے
معافی مانگ لی ہے۔
سابر متی ایکسپریس اپنے منزل کی طرف رواں دواں تھی شاید کسی نے سوچا ہوگا
کہ گودھرا تک جاتے جاتے ایک ایسا حادثہ رونما ہوگا جو تاریخ کے دامن میں
سیاہ دھبہ ہوگا اور تاریخ کے جگر میں بھی داغ ناپید ہوگا جس کی خلش ہمیشہ
محسوس کی جاتی رہے گی ا ور ایک ایسادرد جسے بھولنا بڑی غلطی ہوگی چند بھگوا
مذہبی ہندو سخت گیر اور آر ایس ایس کے متشدد کارندے ڈبہ میں آدھمکتے ہیں
گویا یہ شیطان کے کارندے تھے جنہوں نے محض شیرا لگا یا تھا اور پھر اس کے
جو نتائج سامنے آئے بڑے دلخراش ،پرالم اور حیران کن تھے دنیا نے یہ بھی
دیکھا کہ محض چند افرادکی بے ہودہ حرکت کے کیا نتائج سامنے آئے ہیں ذرا
اندازہ لگائیے کہ اگر پوری قوم مل کر اس کار بد کو انجام دیتی تواسکے
کیامضمر ات ہوتے ؟قتل و خون اور مذہبی تشدد کے عفریت نے گجرات کو اپنے سایہ
میں لے لیا ،خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں ،انسانیت کی حرمت کو پاؤں سے روند
کر رکھ دیا گیا تھا ،جو کبھی ہم نوالہ اور ہم مشرب تھے وہ خون کے پیاسے
ہوگئے ،نہ حرمتیں محفوظ رہیں اور نہ ہی عصمتیں ،بوڑھے ،جوان ،بچے سبھی
’’دیوانہ لا الہ‘‘ کو آتش نمرو د میں جھونک دیا گیا اور پھر جو تصویر سامنے
آئی اس میں صاف نظر آرہا تھا کہ معصوم نہتے کی بے گور و کفن لاش کو کوئی
کاندھا دینے والا بھی نہ تھا کجا فاتحہ وسلام ؟ہزاروں مذہبی جنونیوں کے
ہاتھوں میں آلہ قتل تھا اور چند مظلوم و بے کس ہاتھ جوڑ کر رحم کی بھیک
مانگ رہے تھے اور لاشیں ظالموں کے رحم و کر م پر تھیں جب کہ یہ اہل ستم محض
اہانت آمیز قہقہوں کو اس کا صلہ سمجھ رہے تھے یہ تصاویر ایک طرف ہماری بد
اعمالیوں کے نتائج کی مظہر بھی تھیں تو گرگ صفت سخت گیر بھگوا پرست کے
طاغوتی کارناموں کی آئینہ دار بھی کہ کس حد تک انسانی تقاضوں اور رشتوں کو
پامال کیا جاچکا ہے ۔انہیں چند حقیقت نما تصاویر میں سے ایک تصویر اشوک
موچی اور قطب الدین کی بھی تھی جو ہاتھ جوڑ کر رحم کی درخواست کر رہا ہے
اور اشوک موچی دونوں ہاتھ فضا میں بلند کر کے ہر نقش توحید کو صفحہ ہستی سے
مٹا دینے کی قسم کھار ہا ہے اس چنگیزی سانحہ کوگزرے ہوئے بارہ تیرہ سال کا
ایک طویل عرصہ ہوچکا ہے مگر دل آج بھی پرالم ہے اور اس واقعہ کی کربناکیوں
کی ٹیس محسوس کررہاہے جگر شق تو ہے ہی اسی درد اور سوز میں سرزمین گجرات سے
مخاطب اور نالہ زن بھی :
آہ سرزمین گجرات !تو ازل سے ہی امن و سکون اور عافیت کا گہوارہ تھی تونے ہر
ایک کو اپنے دامن آشتی میں جائے پناہ دی ہے مگر آج تیرے دامن عافیت اور
چادر سکون کو تارتار کردیا گیا اے سرزمین گجرات تم نے ہی عرب کے صحراء کے
مکینوں کا استقبال کیاتھا اور دیدہ ودل فرش راہ کئے تھے مگر تیرے آج کے چند
ستم شعار لوگوں نے جن کی سرشت تیری سرشت سے متضاد تھی تیرے مہمانوں کے خون
کے پیاسے ہوگئے جن ماؤں اور بہنوں کی دیدار کے لیے چاند بھی ترستا تھا ان
ماؤں اور بہنوں کی چادر عفت چھین لی گئی اور اس کو اپنی ہوس کا شکار بنا
ڈالا تیرے گود میں کھیلنے والے چند معصوم مہمان بچے بھی تھے ان کو بھی
نیزوں اور ترشولوں پر بلند کردیا گیا اور ستم تو یہ ہے کہ تیرے سینے پر جو
مساجد وخانقاہیں تھیں جہاں عشق ،بے خودی اور اسرار کائنات کے عقدوں کو حل
کیا جاتا تھا جہاں’’حق اﷲ ھو‘‘ کے نعرہ مستانہ لگا کرتے تھے اور جہاں اخوت
ومروت کے درس دئے جاتے تھے ان کو زمین بوس کر کے عالم گیر آتش بھگوائیت کی
نذر کر دیا گیا اب کیا ہے ؟ نہ وہ معصوم مسکراہٹیں ہیں اور نہ ہی وہ جذبہ
اخوت سلامت رہا بلکہ ہر طرف نفرت وعداوت ،حسرت ومایوسی اور ہولناک سناٹا ہے
اور جن مہمانوں کا تو نے لپک کر استقبال کیا تھا نہ تو آج ان کا نشیمن گلشن
میں ہے اور صحراء بھی اس کا شکوہ کررہا ہے کہ یہاں بھی ان کا کوئی قفس نہیں
ہے بلکہ یہ مہمان حالات کے رحم و کرم پر ہیں ‘‘یہ نالہ وفریاد اور پرسوز
خطاب نہ تو گجرات کو مائل بہ الطاف کرسکا اور یہ امید کرنا بھی خطا ہوگی کہ
ستم شعاروں پر بھی کوئی اثر ہوا ہوگا بلکہ یہ فریاد اور درد خود دل کی دوا
بن گئے اور پھر یہ دوا اندمال کی اپنی ناکام سی کوشش کرتی رہی حالات نے رخ
پھیرا نفرت کی جو بلا خیز آندھی چلی تھی رک گئی ہر چیز اپنے معمول پر آگئی
مگر تشدد کے ’’صنم اکبر ‘‘نے اپنی چال نہ بدلی بلکہ متواتر سرکشی کا مظاہرہ
کیا بلکہ مزید اس ذیل میں شدت کا اضافہ کرتا چلا گیا اور حد تو یہ ہوگئی کہ
فرعون کے لہجے میں کہہ گیا ’’انا ربکم الاعلی‘‘شاید اس فرعون وقت نے کوبھلا
دیا کہ چند کروڑ صحرائے عرب کے مکیں موسی ؑ کے روحانی اولاد ہیں جو ہزار
خداؤں سے بھی الجھ جاتے ہیں اور ناک میں دم کردیتے ہیں تاہم یہ مسرت او ر
اطمینان کی بات ہے کہ گجرات فساد کے ضمن میں بدنام زمانہ اشوک موچی نے اپنی
بیداری ٔ ضمیر کا واضح ثبوت پیش کرتے ہوئے مظلوم زمانہ قطب الدین سے معافی
مانگ لی اپنے تمام گناہوں سے توبہ بھی کیا اور محبت کے پھول بھی پیش کئے ۔
اشوک موچی جس نے گجرات قتل عام میں اپنی بھگوائیت اور بھگوا ذہنیت کے باعث
بڑی ہولناکی اور سفاکی کو انجام دیا تھا اسے نہ تو ہم بھول سکتے ہیں اور نہ
ہی غیر جانب دار میڈیا لیکن اس نے جس طرح اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا
اور شرمندہ ہوکر تائب ہوا یہ رد عمل بڑی اہمیت کا حامل ہے اور جس طرح سے اس
کے منظر اور پس منظر کا اظہار ہورہا ہے وہ ذیل کے چند نکات پر مبنی ہے اولاً
یہ کہ وہ ضمیر اور دل قتل وخون کی گرم بازاری اور درد ناک دنیا آباد کرتے
ہوئے رحم نہ کھایا اب بارہ سالوں کے بعد پسیج گیا ہے اور اخوت وحب الوطنی
کی طرف قدم بڑھا رہا ہے ثانیاً :وہ جس نے گجرات کی ایک تاریخ جو کہ خون خون
ہے ،کی بنا رکھتے ہوئے انسانیت کو خاطر میں نہ لایا تھا ایک طویل عرصہ کے
بعد انسانیت کی عظمت کا معترف ہے ثالثاً : بقول اشوک موچی اس نے کسی کے
بہکاوے میں آکر ایسا کیا تھا بہکانے والے عناصر کی ساری کوششوں پر پانی پھر
گیا اور جو لوگ یہ چاہتے تھے اور چاہتے ہیں کہ ملک میں فرقہ واریت اپنی
تمام سرحدوں کو عبور کرلے وہ اپنی کوششوں میں خائب وخاسر ہوگئے رابعاً :درحقیقت
اشوک موچی کا یہ حسن عمل خواہ ایک ہی فرد کی جانب سے کیوں نہ ہو فرقہ واریت
کے عفریت کو پابہ زنجیر کرنا ہے اور ایک نئے ہندوستان کی بنیاد رکھنا ہے
خامساً:اس مذکورہ شخص جو کہ ہندو سخت گیر تنظیموں کا ایک فرد ہے جنہوں نے
اس کو مصالحت نیز منافقانہ اخوت کے لیے تیار کیا ہو کہ قو م مسلم میں جاکر
غصہ کی آگ کو ٹھنڈی کرے تاکہ ان کے جو مکروہ اور ملک مخالف ایجنڈے اور
عزائم ہیں وہ پورے ہوجائیں اس مذکورہ شخص نے جو بھی کیاتھا وہ بھی ایک زندہ
حقیقت ہے اور جو کچھ اس نے آج کیا ہے وہ بھی زندہ حقیقت ہے مگر اطمینان کی
بات تو یہ ہے کہ اس نے اپنے کل گذشتہ سے توبہ کرلی ہے اور اس کا آج بے
غباراور بے داغ ہے ۔
آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد اور دیگر اس کی ذیلی تنظیمیں جو کچھ بھی
کررہی ہیں اس سے ہر بشر واقف ہے کہ ملک کو کن حالات میں دیکھنا چاہتی ہیں
مذہبی نعروں کے ذریعہ نوجوانوں کو ابھارنا اور بزعم خویش رام نام کی تقدیس
کو پامال کرنا نیز مار کاٹ ،لوٹ کھسوٹ پر آمادہ کرنا ان تنظیموں کی فطرت
ثانیہ ہے ملک میں جتنے بھی دھماکے ہوئے ان میں صد فیصد براہ راست ان
تنظیموں کا ہاتھ رہا ہے جیسا کہ اسیما نند کے اقبال جرم سے واضح ہوچکا ہے
دھماکے تو ان کے کارندوں نے کئے مگر اپنے گناہ کواوروں کے سر تھوپتے ہوئے
صاف بچ گئے اور ہر بار کی طرح اس باربھی رٹا رٹایا نام مسلمانوں کا لیا ملک
میں فرقہ وارانہ فسادات انہوں نے کرائے اور جہاں تک ہوسکا مسلمانوں کا قتل
عام کیا اس کا بھی الزام مسلمانوں پر دھرا بھاگلپور ،مؤ ،ہاشم
پورہ،مرادآباد ،مظفرنگر ،کوسی کلا ں اور متھرا نیز دیگر مقامات میں انہوں
نے ہی فساد برپا کئے الغرض جتنی بھی غیر قانونی سرگرمیا ں اور ملک مخالف
کاروائیاں ظہور پذیر ہوئیں ان کے پیچھے بھگوا ذہنیت کار فرما تھی کیونکہ ان
تنظیموں کے ایجنڈے اور عزائم ہی کچھ ایسے ہیں جو ملک مخالف اور جمہوریت سے
یکسر منحرف ہیں کہ جہاں امن و آشتی اور اخوت ومروت کا کچھ بھی شائبہ نہیں
ہے بلکہ تشدد ہی تشدد اور نفرت ہی نفرت ہے ۔اشوک موچی سابق میں ان تنظیموں
کا ایجنٹ تھا جسے فرقہ واریت اور تشدد وقتل پر ابھارا گیا مگر اس نے جس طرح
سے اپنی حب الوطنی کا اظہار کیا اس سے دنیائے بھگوائیت متحیر ہے کہ آخرش
ایسا کیوں ہوا ؟گویا برق سی گر گئی ہے اور جن تنکوں پر ان کا آشیانہ تھا
اسے برق نے جلا کر خاکستر کردیا کل ان صیاد نے عندلیبوں کا نشیمن اجاڑا تھا
آج خود ان صیادوں کا گھر اپنوں کے ہاتھ ہی لٹ رہا ہے جگر مرحوم بھی کیا کہہ
گئے
صیاد نے لوٹا تھا عنادل کا نشیمن
صیاد کا لٹتے ہوئے گھر دیکھ رہا ہو ں |