بسم اﷲ الرحمن الرحیم
حماد اورزبیر دو بھائی تھے، کاروبار مشترکہ تھا ، دونوں بھائیوں میں مثالی
محبت تھی،رہائش ساتھ تھی، کاروبار بھی اچھا چل رہا تھا۔ اسی دوران زبیر کا
بیٹا عدنان بیمار ہو گیا،شروع میں توجہ نہ دینے کے باعث بیماری بڑھتی گئی
اورڈاکٹروں نے ہسپتال داخل کرانے کا مشورہ دیا ۔ عدنا ن کی بیماری کی وجہ
سے زبیر کاروبار میں زیادہ وقت نہ دے پاتا اور عدنان کے ہسپتال داخل ہونے
کے بعد تو زبیر بالکل وقت نہ پاتا۔
دونوں بھائیوں کے گھر کے اخراجات و میڈیکل کے بل مشترکہ کاروبار سے ادا کیے
جانے کا ان میں آپس میں معاہدہ تھا۔ اسی لئے عدنان کی بیماری کے اخراجات
اسی کاروبار سے ادا ہونے لگے ، شہر کے حالات کی وجہ کاروبار ٹھنڈا تھا،
زبیر کاروبار میں وقت نہیں دے پا رہا تھا اور اوپر سے بیماری کے اخراجات ،
اس بناء پر ہاتھ تنگ ہونے لگا ، حماد اور زبیر نے اخراجات بڑھ جانے کی وجہ
سے اپنے گھروں میں خرچ کم کر دیا۔
گھر خرچ جب کم ہوا تو حماد کی بیوی نسرین سے برداشت نہ ہوا اس نے حماد کے
کان بھرنے شروع کیے کہ کاروبار میں سارا کا م تو آپ کرتے ہیں اور زبیر
بھائی تو کچھ نہیں کرتے ۔عدنان کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے اس لئے وہ وقت نہیں
دے پا رہے ،حماد نے جواب دیا۔۔میں تو دیکھتی ہوں کے سائرہ (زبیر کی بیوی)
تو جب دیکھو نیا جوڑا پہنے ہوتی ہے ۔ مجھے تو کچھ دال میں کالا لگتا
ہے،نسرین بولی۔۔ہو سکتا ہے کہ سائرہ بھابھی بچت کرتی ہوں حماد نے
کہا۔۔نسرین منھ چڑھاتے ہوئے بولی بچت ۔۔۔ہوں ! میری تو ضرورتیں پوری نہیں
ہوتیں اور اسکی بچت ہو جاتی ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ سائرہ علاج کے بہانے آپ
سے پیسے لیتی ہے اور خوب شاپنگ کرتی ہے-
چند دنوں میں عدنان کی طبعیت ٹھیک ہوئی تو ڈاکٹروں نے اسے گھر لے جانے کی
اجازت دے دی لیکن ساتھ یہ ہدایت دی کہ عدنان کے کمرے کو ٹھنڈا رکھا جائے ۔
یہ سن کر زبیر اور سائرہ پریشان ہو گئے کہ اب اے،سی کا انتظام کیسے ہو گا ؟
سائرہ کا بھائی ساتھ تھا ۔اس نے انکی پریشانی بھانپ لی اور سیدھا بازار جا
کر اے،سی انکے گھر پہنچا دیا ۔اے،سی جب زبیر کے گھر پہنچا تو نسرین دیکھ کر
آگ بگولہ ہو گئی۔ فورا موبائل کر کے کہا کہ دیکھ لو ہماری ضروریات میں پیسے
پورے نہیں ہورہے اور زبیر بھائی کے گھر اے،سی آگیا، اب بھی کہتی ہوں اپنا
بندوبست کر لو۔
اب حماد کو بھی شک ہونے لگااس نے نسرین سے کہا کہ گھر آ تا ہوں تو اس پر
سوچیں گے۔ نسرین نے اچھا سا کھانا تیار کیا تاکہ اچھے ماحول میں اس اہم
مسئلے پر غور ہو سکے ۔حماد اور نسرین دونوں نے مشورہ کیا اور یہ طے پایا کہ
بنک میں ایک خفیہ کھاتہ نسرین کے نام کا کھولا جائے اور اس میں رقم جمع کی
جائے ۔اب حماد مہنگے داموں مال فروخت کرتا اور اپنی کمپنی میں سستے داموں
کی انٹری کرواکر بقیہ رقم نسرین کے کھاتے میں جمع کرا دیتا۔ نسرین کا رہن
سہن تبدیل ہونے لگا جب دیکھو نیا جوڑا ، نئے جوڑے کے میچینگ کے جوتے،پرس
وغیرہ۔ سائرہ دیکھ کر تعریف کرتی تو فورا نسرین کہتی کہ میرے بھائی نے
بھیجے ہیں ۔ حماد اور نسرین آئے دن باہر ہوٹلوں میں کھانا کھانے جاتے۔
ایک دن ڈاک کے ذریعہ نسرین کا بنک اسٹیٹمینٹ آیا۔ نسرین اور حماد گھر پر
نہیں تھے ، سائرہ نے لفافہ وصول کیا۔ سائرہ نے اس کا ذکر زبیر سے کیا کہ
نسرین کا تو بنک اکائنٹ بھی ہے ۔زبیر نے تعجب کا اظہار کیا لیکن سوچا کہ ہو
سکتا ہے نسرین بچت کرتی ہو ۔
ایک اور واقعہ یوں ہوا کہ حماد دفتر میں موجود نہیں تھا ۔ حماد نے جو مال
فروخت کیا تھا اس کی رقم آئی ،90% چیک اور 10% نقد، زبیر نے رقم لانے والے
دلال سے کہا کہ پوری رقم کا چیک کیوں نہیں بنایاتو دلال نے کہا کہ حماد
بھائی کی طرف سے یہی ہدایت ہے ۔اور میں پچھلے تین ماہ سے اسی طرح رقم کی
ادائیگی کر رہا ہوں ۔ زبیر کو شک گزرا اس نے فورا رجسٹر چیک کیے ان میں
نقدرقم کا کوئی اندارج نہیں تھا ۔ زبیر غصے میں بھر گیا اسے حماد اور نسرین
کے ٹھاٹ باٹ سب سمجھ میں آ گئے ۔ اس نے حماد کو فون کر کے بلایااور پوچھاکہ
یہ جو رقم آئی ہے اس میں 10% نقدکی انٹری کہاں ہے؟
حماد ( گھبرا کر) وہ میں لکھنا بھول گیا،زبیرنے کہا کہ مجھے دلال نے بتایا
کہ وہ تین ماہ سے چیک کے علاوہ نقدبھی دے رہا ہے اس کی انٹری کہاں ہے؟حماد
سمجھ گیا کہ چوری پکڑی گئی اس لئے وہ اڑ گیا اور کہا میں زیادہ کا م کرتا
ہوں اس لئے میرا حق بنتا ہے۔۔۔ کام کی شروعات میں نے کی اور تمھیں کام
سیکھایا اب مجھی کو آنکھ دکھاتے ہو، زبیر نے غصے میں جواب دیا
زبیر اور حماد کے درمیان جھگڑا بڑھا تو انکے بڑے بھائی یاسر تصفیہ کرانے
آئے۔ دونوں کی بات سنی اور حماد سے کہا کہ تم نے نسرین کے خفیہ کھاتے میں
جو رقم جمع کرائی ہے اس کا حساب دو لیکن حماد نے یاسر بھائی کی بات بھی
نہیں مانی ۔
اب زبیر کے پاس اپنی رقم نکلوانے کا ایک ہی راستہ رہ گیا کہ وہ قانون کا
سہارا لے ۔ یاسر نے بھی یہی مشورہ دیا کہ تم حق پر ہو قانون کی مدد لینے
میں کوئی حرج نہیں۔ سائرہ کو فکر لاحق ہوئی کہ مقدمے بازی ہوگی تو خاندان
کا نام خراب ہو گا ہماری بچیوں کے رشتے میں تکلیف ہوگی لیکن زبیر کا فیصلہ
اٹل تھا۔
زبیر کی ایک اچھی عادت یہ تھی کہ ہر اہم کام مسجد کے امام صاحب سے(جو کہ
مفتی بھی تھے) مشورہ اور مسائل معلوم کر کے کرتے۔زبیر نے مفتی صاحب کو ساری
تفصیل سے آگاہ کیا اور حماد کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ،
مفتی صاحب نے فرمایا کہ دیکھو بھائی زبیر تم بالکل حق پر ہواور اگر تم
مقدمہ کرو گے تو حماد بھی اپنے بچاؤ کے لئے تم پر الزامات لگائے گا اس سے
نفرتیں بڑھیں گی ۔ اس کی بجائے میں تمھیں ایک اور بہترین مشورہ نہ دوں، ایک
زبردست فضیلت نہ بتاؤں ۔۔۔۔وہ یہ کہ جو شخص حق پر ہونے کے باوجود حق اس لئے
چھوڑ دے تاکہ جھگڑا نہ ہو اسکے لئے جنت کے بیچوں بیچ میں محل کا وعدہ ہے
۔مقدمہ بازی میں اپنا پیسا اور وقت صرف کرنے کے بجائے نئے کاروبار میں
انھیں استعمال کرو۔
زبیر نے وکیل کے پاس جانے کے بجائے گھر کی راہ لی ،سائرہ نے افسردہ لہجے
میں پوچھا کیا ہوا مقدمہ درج کروادیا ؟ زبیر نے جواب دیا ہاں اﷲ تعالٰی کی
عدالت میں جنت میں محل کے بدلے ۔زبیر نے تفصیل بتائی تو سائرہ نے خوش ہوکر
ہاتھ اٹھا لئے اﷲ تعالٰی کا شکر ادا کیا اور مفتی صاحب کو ڈھیر ساری دعائیں
دیں۔ |