یپلز پارٹی میں اختلافات، صد ر
زرداری اور وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے درمیان اختیارات کی کشمکش کی
خبریں ایک عرصہ سے میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں لیکن برسر اقتدار پارٹی کی
جانب سے نہ صرف ہمیشہ ان کی تردید کی گئی بلکہ بعض جیالے تو باقاعدہ اخباری
فورموں اور ٹی وی مذاکروں میں باقاعدہ ” ایگریسو“ بھی نظر آئے اور پارٹی
انتشار بارے سوالوں کے جواب میں ”سوال گندم اور جواب چنا“ کے مصداق بات کو
گھما پھرا کر حکومتی اقدامات عوامی ”خدمت“ کی پالیسیوں کے شور میں دبا دیا
گیا۔ محترمہ فوزیہ وہاب سے جناب قمر زمان کائرہ تک اور پھر جہانگیر بدر سے
لیکر محترم بابر اعوان تک جس کے بھی بیانات کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھیں ”پردہ
پوشی“ کی اس جدو جہد میں پیش پیش ہی رہا لیکن تمام کوششوں اور بیچارے پی پی
اکابرین کی انتھک محنتوں کے باوجود میڈیا نے ”ظلم “ کرتے ہوئے پہلے صدر اور
وزیر اعظم کے درمیان اختیارات کی سر د جنگ کا پول کھول دیا اور اب
پیپلزپارٹی میں ”مائنس ون“ فارمولا کی اصطلاع کے ذریعے عرصہ سے بھٹو ازم پر
مثالی اتفاق کے دعوﺅں کی قلعی کھول رہا ہے ۔
اگرچہ پی پی قیادت تاحال پارٹی میں لڑائی کی اطلاعات کے بے بنیاد ہونے کی
گردان میں مصروف ہے لیکن سیاست سے تھوڑی سے دلچسپی رکھنے والوں پر بھی یہ
حقیقت عیاں ہو چکی ہے کہ کچھ عرصہ قبل تک ”دال میں کچھ کالا “ ہونے کی قیاس
آرائیاں اب پوری کی پوری دال کے ”کالی “ ہونے میں تبدیل ہوچکی ہیں، بعض
مبصرین تو یہاں تک بھی کہہ رہے کہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی جانب
سے بار بار پارلیمنٹ اور پارلیمانی نظام کو مضبوط بنانے کی خواہش کے اظہار
اور اس پھر ملکی نظام حکومت کو چوں چوں کا مربہ قرار دینے کے بعد سے ایوان
صدر اور وزیر اعظم سیکریٹریٹ میں ان دیکھی دوریاں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ
”یوسف رضا گیلانی، طاقتور وزیر اعظم ہیں“ کے الفاظ پر مشتمل صدر مملکت آصف
علی زرداری کا بیان بھی فاصلوں میں کمی نہیں کر سکا لیکن کچھ احباب یہ
سلسلہ کیونکر شرو ہوا اور اس کے محرکات کیا تھے؟ کا سوال اٹھا نے کے ساتھ
ساتھ یہ جاننے کے بھی متمنی ہیں کہ ”مائنس ون“ فارمولا کے شور میں کتنی
سچائی ہے؟اس سوال کا جواب حقائق کے تناظر میں تلاش کریں تو سامنے آتا ہے کہ
پیپلز پارٹی میں اختلافات کا یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں بلکہ ایک عرصہ سے جاری
ہے جس کی ایک مثال گزرے وقت میں زرداری صاحب جو کہ پیپلز پارٹی کے شریک
چیئرمین اور عملی طور پر سربراہ بھی ہیں کی جانب سے ان ہاﺅس تبدیلی کے آپشن
پر بھی غور بھی ہے جبکہ گزشتہ دنوں پی پی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس
سے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا جوشیلا خطاب اور بقول بعض پارٹی
اکابرین انہیں قبل از وقت سیاست میں لانا بھی اسی سلسلہ ہی کی ایک کڑی ہی
تھا۔ یہ اطلاعات بھی اخبارات کی زینت بن چکی ہیں کہ فرینڈلی اپوزیشن کا
کردار ادا کرنے والی مسلم لیگ ن اور میاں برادران سے وزیر اعظم کی ہمدردیاں
بھی ایوان صدر پر گراں گزرتی رہی ہیں اور صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صدر
کے وہ قریبی حلقے جو وزیر اعظم کی مصالحانہ پالیسیوں سے خار کھاتے ہیں نے
اپنا ایک باقاعدہ ”پریشر گروپ“ تشکیل دے دیا جس نے اپنی نوکری پکی کرنے کے
لیے صدر زرداری کو الٹے سیدھے مشورے دیئے اور یوں ”مائنس گیلانی“ فارمولا
”ایجاد “ہوا۔
مائنس گیلانی فارمولے کی بازگشت سنائی دیتے ہی پیپلز پارٹی کے وہ حلقے جو
صدر کے مقابلے میں وزیراعظم کے زیادہ قریب تھے نے بھی اپنی ”مہم“ کا آغاز
کیا اور صدارتی پریشر گروپ کی طرح انہوں نے بھی یوسف رضا گیلانی کو
”جارحانہ“ طرز عمل اپنانے کا مشورہ دیا لہٰذا وزیر اعظم نے پارلیمانی نظام
مستحکم بنانے کے لیے آزاد پارلیمنٹ کی باتیں شروع کر دیں اور ان کے اس طرز
عمل نے جلتی پر تیل کا کام دکھایا اور ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاﺅس کے
مابین غیر محسوس طریقہ سے سرد جنگ کا آغاز ہوگیا، واقعتاً بھٹو ازم کے
حامیوں اور پیپلز پارٹی کو مستحکم دیکھنے والے حقیقی پارٹی قائدین نے
صورتحال سنبھالنے کی کوشش بھی کی لیکن پارٹی کے وہ حلقے جو موقع کی تاڑ میں
تھے نے بعض پی پی مخالف سیاسی قوتوں کی شہہ پر حالات سے فائدہ اٹھانے کی
پالیسی اپنائی اور یوں بات صلح کے بجائے لڑائی کی شدت کی طرف چل پڑی، کہتے
ہیں کہ جب لوہا گرم ہو تو اسے چوٹ لگا کر کسی بھی شکل میں ڈھالا جاسکتا ہے
چنانچہ پیپلز پارٹی کے ”شریکوں“ نے بھی ایسا ہی کیا اور عین اس وقت جب وزیر
اعظم کی طرف سے”پارٹی میں کوئی اختلاف نہیں “ اور صدر کی طرف سے ”گیلانی
طاقتور وزیر اعظم“ کے ”جذبہ خیر سگالی“ کے بیانات سامنے آئے پیپلز پارٹی
میں مائنس ون(مائنس زرداری) فارمولے کا شوشہ چھوڑ دیا اور میڈیا کے ذریعے
اس کا اس قدر پرچار کیا جارہا ہے کہ دیگر اس کے شور میں دیگر مسائل بری طرح
دب چکے ہیں۔
بات صرف میڈیا تک رہتی تو شاید اب کی بار بھی جیالے اور جیالیاں ”شدید
ردعمل“ ہی کا مظاہرہ کر کے حسب سابق حقائق سے پردہ اٹھانے والے صحافیوں کو
”چپ“ کرادیتے لیکن بد قسمتی سے اس مرتبہ بات اپوزیشن جماعتوں اور خود حکومت
کے اتحادیوں کے ہاتھ بھی لگ چکی ہے اور وہ اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لیے
اختلافات کی اطلاع کو جس طرح ”کیش “ کروانے کی سعی کر رہے ہیں جس نے جہاں
پردہ پوشوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے وہیں ان کے لیے ایک عرصہ سے جھوٹ
کے پردوں میں چھپائی تلخ سچائی منظر عام پرلانے سے مزید روکنا ان کے لیے
ناممکنہ ہوچکا ہے۔ قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں اپوزیشن لیڈر چودھری
نثار علی خان کی جانب سے جارحانہ انداز میں اس سازش کا حصہ نہ بننے کے کا
اعلان کرتے ہوئے حکومت سے سازشیں کرنے والوں کو بے نقاب کرنے کے مطالبے کے
جواب میں حکومتی حلقوں کی مسلسل خاموشی جہاں آنے والے دنوں میں اختلافات کی
خبروں کو بے بنیاد قرار دینے والوں کی مشکلات بڑھنے کا عندیہ دے رہی ہے
وہیں یہ بھی ثابت کر رہی ہے کہ صدر اور وزیراعظم کے گرد جمع سازشی انتہائی
طاقتور ہیں جن کی سازشوں کا سدباب پیپلز پارٹی اور حکومت کے لیے از حد
ضروری ہے بصورت دیگر جلد ہی مائنس ون کے بجائے ”مائنس آل“ کا فارمولا بھی
قرین قیاس نہیں۔ |