بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی
النَّبِیِّ الْکَریم ِوَعَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔
انسان صرف انفرادی زندگی نہیں رکھتا ہے بلکہ وہ فطرتاً معاشرتی مزاج رکھنے
والی مخلوق ہے ، اس کا وجود خاندان کے ایک رکن اور معاشرہ کے ایک فرد کی
حیثیت سے ہی پایا جاتا ہے۔ معاشرہ اور خاندان کی تشکیل میں بنیادی اکائی
میاں بیوی ہیں جن کے ایک دوسرے پر کچھ حقوق ہیں:
۱) شوہر کی ذمہ داریاں یعنی بیوی کے حقوق شوہر پر ۔
۲) بیوی کی ذمہ داریاں یعنی شوہر کے حقوق بیوی پر۔
۳) دونوں کی مشترکہ ذمہ داریاں یعنی مشترکہ حقوق۔
شوہر کی ذمہ داریاں یعنی بیوی کے حقوق شوہر پر :اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں
ارشاد فرمایا: وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَےْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ
(سورۂ البقرہ ۲۲۸) اور (مردوں پر ) عورتوں کا حق ہے جیسا کہ (مردوں کا)
عورتوں پر حق ہے، معروف طریقہ پر۔ اس آیت میں میاں بیوی کے تعلقات کا ایسا
جامع دستور پیش کیا گیا ہے جس سے بہتر کوئی دستور نہیں ہوسکتا اور اگر اس
جامع ہدایت کی روشنی میں ازدواجی زندگی گزاری جائے تو اِس رشتہ میں کبھی
بھی تلخی اور کڑواہٹ پیدا نہ ہوگی، ان شاء اﷲ۔ واقعی یہ قرآن کریم کا اعجاز
ہے کہ الفاظ کے اختصار کے باوجود معانی کا سمندر گویا کہ ایک کوزے میں
سمودیا گیا ہے۔ یہ آیت بتارہی ہے کہ بیوی کو محض نوکرانی اور خادمہ مت
سمجھنا بلکہ یہ یاد رکھنا کہ اس کے بھی کچھ حقوق ہیں جن کی پاس داری شریعت
میں ضروری ہے۔ ان حقوق میں جہاں نان ونفقہ اور رہائش کا انتظام شامل ہے
وہیں اسکی دل داری اور راحت رسانی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ اسی لئے
رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو اپنے گھر
والوں (یعنی بیوی بچوں) کی نظر میں اچھا ہو۔۔۔ اور ظاہر ہے کہ ان کی نظر
میں اچھا وہی ہوگا جو اُن کے حقوق کی ادائیگی کرنے والا ہو۔ دوسری طرف اِس
آیت میں بیوی کو بھی آگاہ کیا کہ اُس پر بھی حقوق کی ادائیگی لازم ہے۔ کوئی
بیوی اُس وقت تک پسندیدہ نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ اپنے شوہر کے حقوق کو ادا
کرکے اُس کو خوش نہ کرے، چنانچہ احادیث میں ایسی عورتوں کی تعریف فرمائی
گئی ہے جو اپنے شوہر کی تابع دار اور خدمت گزار ہوں اور ان سے بہت زیادہ
محبت کرنے والی ہوں اور ایسی عورتوں کی مذمت کی گئی ہے جو شوہروں کی
نافرمانی کرنے والی ہوں۔
شوہر کی چند اہم ذمہ داریاں حسب ذیل ہیں:
۱) مکمل مہر کی ادائیگی: اﷲ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: وَآتُوا النِّسَاءَ
صَدُقٰتِہِنَّ نِحْلَۃً (سورۂ النساء ۴) عورتوں کو ان کا مہر راضی وخوشی سے
ادا کردو۔ نکاح کے وقت مہر کی تعیےن اور شب زفاف سے قبل اس کی ادائیگی ہونی
چاہئے، اگرچہ طرفین کے اتفاق سے مہر کی ادائیگی کو مؤخر بھی کرسکتے ہیں۔
مہر صرف عورت کا حق ہے، لہذا شوہر یا اس کے والدین یا بھائی بہن کے لئے مہر
کی رقم میں سے کچھ بھی لینا جائز نہیں ہے۔ ﴿وضاحت﴾: شریعت نے کوئی بھی خرچہ
صنف نازک پر نہیں رکھا ہے، شادی سے قبل اسکے تمام اخراجات والد کے ذمہ ہیں
اور شادی کے بعد عورت کے کھانے، پینے، رہنے، سونے اور لباس کے تمام اخراجات
شوہر کے ذمہ ہیں، لہذا مہر کی رقم عورت کی خالص ملکیت ہے اس کو جہاں چاہے
اور جیسے چاہے استعمال کرے، شوہر یا والد مشورہ تو دے سکتے ہیں مگر اُس رقم
میں تصرف کرنے کا مکمل اختیار صرف عورت کو ہے، اِسی طرح اگر عورت کو کوئی
چیز وراثت میں ملی ہے تو وہ عورت کی ملکیت ہوگی، والد یا شوہر کو وہ رقم یا
جائیداد لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔
۲) بیوی کے تمام اخراجات: اﷲ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: وَعَلَی
الْمَوْلُوْدِ لَہ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُھُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (سورۂ
البقرہ ۲۳۳) بچوں کے باپ (یعنی شوہر ) پرعورتوں (یعنی بیوی) کا کھانا اور
کپڑا لازم ہے دستور کے مطابق۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: عورتوں کے سلسلہ میں اﷲ
تعالیٰ سے ڈرو کیونکہ اﷲ کی امان میں تم نے اُن کو لیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے
حکم کی وجہ سے اُن کی شرمگاہوں کو تمہارے لئے حلال کیا گیا ہے۔ دستور کے
مطابق اُن کا مکمل کھانے پینے کا خرچہ اور کپڑوں کا خرچہ تمہارے ذمہ ہے۔
(مسلم)
۳) بیوی کے لئے رہائش کا انتظام: اﷲ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَسْکِنُوْہُنَّ مِنْ حَےْثُ سَکَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِکُمْ (سورۂ الطلاق ۶)
تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہووہاں اُن عورتوں کو رکھو۔ اس آیت میں
مطلقہ عورتوں کا حکم بیان کیا جاررہا ہے کہ عدت کے دوران ان کی رہائش کا
انتظام بھی شوہر کے ذمہ ہے۔ جب شریعت نے مطلقہ عورتوں کی رہائش کا انتظام
شوہر کے ذمہ رکھا ہے تو حسب استطاعت بیوی کی مناسب رہائش کی ذمہ داری بدرجہ
اولیٰ شوہر کے ذمہ ہوگی۔
۴) بیوی کے ساتھ حسن معاشرت: شوہر کو چاہئے کہ وہ بیوی کے ساتھ اچھا سلوک
کرے۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ فَاِنْ
کَرِہْتُمُوْہُنَّ فَعَسٰی اَنْ تَکْرَہُوْا شَےْئاً وَّےَجْعَلَ اللّٰہُ
فِےْہِ خَےْراً کَثِےْراً (سورۂ النساء ۱۹) ان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش
آؤ یعنی عورتوں کے ساتھ گفتگو اور معاملات میں حسن اخلاق کے ساتھ معاملہ
رکھو گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو
اور اﷲ تعالیٰ اس میں بہت ہی بھلائی کردے۔
شوہر کی چوتھی ذمہ داری "بیوی کے ساتھ حسن معاشرت " بہت زیادہ اہمیت رکھتی
ہے، اس کی ادائیگی کے مختلف طریقے حسب ذیل ہیں:
ٓٓa) حسب استطاعت بیوی اور بچوں پر خرچہ کرنے میں فراخدلی سے کا م لینا
چاہئے جیساکہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اِذَا اَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلٰی
اَہْلِہِ نَفَقَۃً ےَحْتَسِبُہَا فَہِیَ صَدَقَۃٌ (بخاری) اگر کوئی شخص اﷲ
تعالیٰ سے اجر کی امید کے ساتھ اپنے گھر والوں پر خرچ کرتا ہے تو وہ صدقہ
ہوگا یعنی اﷲ تبارک وتعالیٰ اس پر اجر عطا فرمائے گا۔
b) بیوی سے مشورہ: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گھر کے نظام کو چلانے کی ذمہ
داری مرد کے ذمہ رکھی گئی ہے جیساکہ قرآن کریم میں مرد کے لئے قوَّام کا
لفظ استعمال کیا گیا ہے یعنی مرد عورتوں پر نگہبان اور منتظم ہیں۔ لیکن حسن
معاشرت کے طور پر عورت سے بھی گھر کے نظام کو چلانے کے لئے مشورہ لینا
چاہئے، جیساکہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: آمِرُوا لنِّسَاءَ فِیْ
بَنَاتِہِنَّ (ابوداؤد، مسند احمد) یعنی بیٹیوں کے رشتے کے لئے اپنی بیوی
سے مشورہ کیا کرو۔
c) بیوی کی بعض کمزوریوں سے چشم پوشی کریں، خاص طور پر جب کہ دیگر خوبیاں
ومحاسن ان کے اندر موجود ہوں، یاد رکھیں کہ اﷲ تعالیٰ نے عموماً ہر عورت
میں کچھ نہ کچھ خوبیاں ضرور رکھی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر
عورت کی کوئی بات یا عمل ناپسند آئے تو مرد عورت پر غصہ نہ کرے کیونکہ اس
کے اندر دوسری خوبیاں موجود ہیں جو تمہیں بھی اچھی لگتی ہیں۔ (مسلم)
d) مرد‘ بیوی کے سامنے اپنی ذات کو قابل توجہ یعنی اسمارٹ بناکر رکھے
کیونکہ تم جس طرح اپنی بیوی کو خوبصورت دیکھنا چاہتے ہو وہ بھی تمہیں اچھا
دیکھنا چاہتی ہے۔ صحابی رسول ومفسر قرآن حضرت عبد اﷲ بن عباس ؓ فرماتے ہیں
کہ میں اپنی بیوی کے لئے ویسا ہی سجتا ہوں جیسا وہ میرے لئے زیب وزینت
اختیار کرتی ہے۔ (تفسیر قرطبی)
e) گھر کے کام وکاج میں عورت کی مدد کی جائے، خاص کر جب وہ بیمار ہو۔ حضرت
عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ گھر کے تمام کام کرلیا کرتے تھے، جھاڑو
بھی خود لگالیا کرتے تھے، کپڑوں میں پیوند بھی خود لگالیا کرتے تھے اور
اپنے جوتوں کی مرمت بھی خود کرلیا کرتے تھے۔ (بخاری)
بیوی کی ذمہ داریاں یعنی شوہر کے حقوق بیوی پر:
۱) شوہر کی اطاعت: اﷲ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ
بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَا اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ
فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتَٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَےْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ (سورۂ
النساء ۳۴) مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے
پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں۔ جو عورتیں
نیک ہیں وہ اپنے شوہروں کا کہنا مانتی ہیں اور اﷲ کے حکم کے موافق نیک
عورتیں شوہر کی عدم موجودگی میں اپنے نفس اور شوہر کے مال کی حفاظت کرتی
ہیں، یعنی اپنے نفس اور شوہر کے مال میں کسی قسم کی خیانت نہیں کرتی ہیں۔
اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فوقیت وفضیلت دینے کی دو وجہیں ذکر
فرمائی ہیں۔ (۱) مرد وعورت و ساری کائنات کو پیدا کرنے والے اﷲ تبارک
وتعالیٰ نے مرد کو عورت پر فضیلت دی ہے۔ (۲) مرد اپنے اور بیوی وبچوں کے
تمام اخراجات برداشت کرتا ہے۔ اسی طرح دوسری آیت میں اﷲ تبارک وتعالیٰ نے
فرمایا: ﴿وَلِلرِّجَالِ عَلَےْہِنَّ دَرَجَۃ﴾ (سورۂ البقرۃ ۲۲۸) مردوں کو
عورتوں پر فضیلت حاصل ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اِذَا صَلَّتِ ا
لْمَرْأۃُ خَمْسَہَاوَصَامَتْ شَہْرَہَا وَحَفِظَتْ فَرْجَھَا وَاَطَاعَتْ
بَعْلَہَا دَخَلَتِ الْجَنَّۃ (مُسند احمد) اگر عورت نے (خاص طور پر)پانچ
نمازوں کی پابندی کی، ماہ رمضان کے روزے اہتمام سے رکھے، اپنی شرمگاہ کی
حفاظت کی اور اپنے شوہر کی اطاعت کی تو گویا وہ جنت میں داخل ہوگئی۔
ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ سے کہا کہ مجھے عورتوں کی ایک جماعت نے آپ ﷺ سے ایک
سوال کرنے کے لئے بھیجا ہے اور وہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے جہاد کا حکم مردوں
کو دیا ہے، چنانچہ اگر ان کو جہاد میں تکلیف پہنچتی ہے تو اُس پر ان کو اجر
دیا جاتا ہے اور اگر وہ شہید ہوجاتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ کے خصوصی بندوں میں
شمار ہوجاتے ہیں کہ مرنے کے باوجود وہ زندہ رہتے ہیں اور اﷲ تبارک وتعالیٰ
کی طرف سے خصوصی رزق ان کو دیا جاتا ہے۔ (جیساکہ سورۂ آل عمران آیت ۱۶۹ میں
مذکور ہے) ہم عورتیں ان کی خدمت کرتی ہیں، ہمارے لئے کیا اجر ہے؟ تو نبی
اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جن عورتو ں کی طرف سے تم بھیجی گئی ہو، ان کو
اطلاع کردو کہ شوہر کی اطاعت اور اس کے حق کا اعتراف تمہارے لئے اﷲ کے
راستے میں جہاد کے برابر ہے، لیکن تم میں سے کم ہی عورتیں اس ذمہ داری کو
بخوبی انجام دیتی ہیں۔ (بزاز ، طبرانی)
﴿وضاحت﴾: اِن دِنوں مرد وعورت کے درمیان مساوات اور آزادیٔ نسواں کا بڑا
شور ہے اور بعض ہمارے بھائی بھی اس پروپیگنڈے میں شریک ہوجاتے ہیں۔ حقیقت
یہ ہے کہ مرو وعورت زندگی کے گاڑی کے دو پہیے ہیں، زندگی کا سفر دونوں کو
ایک ساتھ طے کرنا ہے، اب زندگی کے سفر کو طے کرنے میں انتظام کی خاطر یہ
لازمی بات ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک سفر کا ذمہ دار ہو تاکہ زندگی کا
نظام صحیح چل سکے۔ لہذا تین راستے ہیں : (۱) دونوں کو ہی امیر بنایا جائے۔
(۲) عورت کو اس زندگی کے سفر کا امیر بنا یا جائے۔ (۳) مرد کو اس زندگی کے
سفر کا امیر بنا یا جائے۔ پہلی شکل میں اختلاف کی صورت میں مسئلہ حل ہونے
کے بجائے پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتا جائے گا۔ دوسری شکل بھی ممکن نہیں ہے
کیونکہ مردوعورت کو پیدا کرنے والے نے صنف نازک کو ایسی اوصاف سے متصف پیدا
کیا ہے کہ وہ مرد پر حاکم بن کر زندگی نہیں گزار سکتی ہے۔ لہذا اب ایک ہی
صورت بچی اور وہ یہ ہے کہ مرد اس زندگی کے سفر کا امیر بن کر رہے۔ مرد میں
عادتاً وطبعاً عورت کی بہ نسبت فکروتدبر اور برداشت وتحمل کی قوت زیادہ
ہوتی ہے، نیز انسانی خلقت ، فطرت، قوت اور صلاحیت کے لحاظ سے اور عقل کے
ذریعہ انسان غوروخوض کرے تو یہی نظر آئے گا کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے جو قوت
مرد کو عطا کی ہے ، بڑے بڑے کام کرنے کی جو صلاحیت مرد کو عطا فرمائی ہے،
وہ عورت کو نہیں دی گئی۔ لہذا امارت اور سربراہی کا کام صحیح طور پر مرد ہی
انجام دے سکتا ہے۔ اس مسئلہ کے لئے اپنی عقل سے فیصلہ کرنے کے بجائے اس ذات
سے پوچھیں جس نے اِن دَونوں کو پیدا کیا ہے۔ چنانچہ خالق کائنات نے قرآن
کریم میں واضح الفاظ کے ساتھ اس مسئلہ کا حل پیش کردیا ہے: ﴿وَلِلرِّجَالِ
عَلَےْہِنَّ دَرَجَۃ﴾ (سورۂ البقرۃ ۲۲۸) ﴿الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی
النِّسَاءِ﴾ (سورہ ٔ النساء ۳۴) ان آیات میں اﷲ تبارک وتعالیٰ نے واضح
الفاظ میں ذکر فرمادیا کہ مرد ہی زندگی کے سفر کا سربراہ رہے گا اور فیصلہ
کرنے کا حق مرد ہی کو حاصل ہے، اگرچہ مرد کو چاہئے کہ عورت کو اپنے فیصلوں
میں شامل کرے۔۔ مرد حضرات بھی اس بات کو اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں کہ بیشک
مرد‘ عورت کے لئے قوام یعنی امیر کی حیثیت رکھتا ہے لیکن ساتھ ہی دونوں کے
درمیان دوستی کا بھی تعلق ہے، یعنی انتظامی طور پر تو مرد قوام یعنی امیر
ہے لیکن باہمی تعلق دوستی جیسا ہے، ایسا تعلق نہیں ہے جیسا مالک اور
نوکرانی کے درمیان ہوتا ہے۔
ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا کہ جب تم مجھ سے راضی
ہوتی ہو اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو، دونوں حالتوں میں مجھے علم ہوجاتا
ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے پوچھا : یا رسول اﷲ! کس طرح علم ہوجاتا ہے؟ آپ ﷺ نے
فرمایا کہ جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو رب محمد کے الفاظ کے ساتھ قسم کھاتی
ہو اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو رب ابراہیم کے الفاظ کے ساتھ قسم کھاتی
ہو۔ اس وقت تم میرا نام نہیں لیتی بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام
لیتی ہو۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ یا رسول اﷲ! میں صرف آپ کا نام چھوڑتی
ہوں، نام کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑتی۔ (بخاری۔ باب ما یجوز من الہجر)
اب آپ اندازہ لگائیں کہ کون ناراض ہورہا ہے؟ حضرت عائشہ ؓ۔ اور کس سے ناراض
ہورہی ہیں؟ حضور اکرم ﷺ سے ۔ معلوم ہوا کہ اگر بیوی ناراضگی کا اظہار کررہی
ہے تو یہ مرد کی قوامیت یعنی امارت کے خلاف نہیں ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے
بڑی خوشی طبعی کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا کہ مجھے تمہاری ناراضگی کا پتہ چل
جاتا ہے۔
اسی طرح واقعۂ افک کو یاد کریں، جس میں حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگائی گئی
تھی، جس کی وجہ سے حضرت عائشہ ؓ پر قیامت صغریٰ برپا ہوگئی تھی۔ حتی کہ نبی
اکرم ﷺ کو بھی شبہ ہوگیا تھا کہ کہیں حضرت عائشہؓ سے واقعی غلطی تو نہیں
ہوگئی ہے۔ جب آیت برأت نازل ہوئی جس میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت عائشہ ؓ کی برأت
کا اعلان کیا تو حضور اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ بہت خوش ہوئے اور حضرت
ابوبکر صدیق ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے کہا کھڑی ہوجاؤ اور نبی اکرم ﷺ کو سلام
کرو۔ حضرت عائشہ ؓبستر پر لیٹی ہوئی تھیں اور برأت کی آیات سن لیں اور لیٹے
لیٹے فرمایا کہ یہ تو اﷲ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے میری برأت (اپنے پاک
کلام میں) نازل فرمادی لیکن میں اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کا شکر ادا نہیں کرتی
کیونکہ آپ لوگوں نے تو اپنے دل میں یہ احتمال پیدا کرلیا تھا کہ شاید مجھ
سے غلطی ہوگئی ہے۔ (بخاری،کتاب التفسیر، سورۂ النور، حدیث نمبر ۷۵۰)
بظاہر حضرت عائشہؓ نے حضور اکرم ﷺ کے سامنے کھڑے ہونے سے اعراض فرمایا،
لیکن حضور اکرم ﷺنے اس کو برا نہیں سمجھا، اس لئے کہ یہ ناز کی بات ہے۔ یہ
ناز درحقیقت اسی دوستی کا تقاضہ ہے جو میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہے۔ معلوم
ہواکہ میاں بیوی کے درمیان حاکمیت اور محکومیت کا رشتہ نہیں بلکہ دوستی کا
بھی رشتہ ہے اور اس دوستی کا حق یہ ہے کہ اس قسم کے ناز کو برداشت کیا
جائے۔
بہرحال! چونکہ اﷲ تعالیٰ نے مرد کو قوام بنایا ہے اس لئے فیصلہ اس کا ماننا
ہوگا۔ ہاں بیوی اپنی رائے اور مشورہ دے سکتی ہے اور شریعت نے مرد کو یہ
ہدایت بھی دی ہے کہ وہ حتی الامکان بیوی کی دلداری کا خیال بھی کرے لیکن
فیصلہ اسی کا ہوگا۔ لہذا اگر بیوی چاہے کہ ہر معاملے میں فیصلہ ان کا چلے
اور مرد قوام نہ بنے، تو یہ صورت فطرت کے خلاف ہے، شریعت کے خلاف ہے، عقل
کے خلاف ہے اور انصاف کے خلاف ہے اور اس کا نتیجہ گھر کی بربادی کے سوا اور
کچھ نہیں ہے۔
۲) شوہر کے مال وآبرو کی حفاظت: اﷲ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
فَالصَّالِحَاتُ حَافِظَاتٌ لِّلْغَےْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ (سورۂ النساء
۳۴) جو عورتیں نیک ہیں وہ اپنے شوہروں کی تابعدار ی کرتی ہیں اور اﷲ کے حکم
کے موافق نیک عورتیں شوہر کی عدم موجودگی میں اپنے نفس اور شوہر کے مال کی
حفاظت کرتی ہیں، یعنی اپنے نفس اور شوہر کے مال میں کسی قسم کی خیانت نہیں
کرتی ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں تمہیں مرد کا سب سے بہترین خزانہ
نہ بتاؤں؟ وہ نیک عورت ہے، جب شوہر اس کی طرف دیکھے تو وہ شوہر کو خوش
کردے، جب شوہر اس کو کوئی حکم کرے تو شوہر کا کہنا مانے۔ اگر شوہر کہیں
باہر سفر میں چلا جائے تو اس کے مال اور اپنے نفس کی حفاظت کرے۔ (ابوداؤد،
نسائی) شوہرکے مال کی حفاظت میں یہ ہے کہ عورت شوہر کی اجازت کے بغیر شوہر
کے مال میں سے کچھ نہ لے، اور اس کی اجازت کے بغیر کسی کو نہ دے۔ ہاں اگر
شوہر واقعی بیوی کے اخراجات میں کمی کرتا ہے تو بیوی اپنے اور اولاد کے
خرچے کو پورا کرنے کے لئے شوہر کی اجازت کے بغیر مال لے سکتی ہے۔ جیسا کہ
نبی اکرم ﷺ نے ہند بنت عتبہ سے کہا تھا جب انہوں نے اپنے شوہر ابو سفیان
ؓکے زیادہ بخیل ہونے کی شکایت کی تھی: خُذِیْ مَا ےَکْفِےْکَ وَوَلِدَکَ
بِالْمَعْرُوْفِ اتنا مال لے لیا کرو جو تمہارے اور تمہاری اولاد کے متوسط
خرچہ کے لئے کافی ہو۔ (بخاری مسلم) شوہر کی آبرو کی حفاظت میں یہ ہے کہ
عورت شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں داخل نہ ہونے دے، کسی نامحرم سے
بلا ضرورت بات نہ کرے۔ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلے۔
۳) گھر کے اندرونی نظام کو چلانا اور بچوں کی تربیت کرنا: یہ عورتوں کی وہ
ذمہ داری ہے جو ان کی خلقت کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہے، بلکہ یہ وہ
بنیادی ذمہ داری ہے جسکی ادائیگی عورتوں پر لازم ہے۔ عورتوں کو اس ذمہ داری
کے انجام دینے میں کوئی کمی نہیں چھوڑنی چاہئے کیونکہ اسی ذمہ داری کو صحیح
طریقہ پر انجام دینے سے فیملی میں آرام وسکون پیدا ہوگا نیز اولاد دونوں
جہاں کی کامیابی وکامرانی سے سرفراز ہوگی۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب
صحابۂ کرام اپنی بیٹی یا بہن کو رخصت کرتے تھے تو اس کو شوہر کی خدمت اور
بچوں کی بہترین تربیت کی خصوصی تاکید کرتے تھے۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
وَالْمَرْأَۃُ رَاعِےَۃٌ فِی بَےْتِ زَوْجِہَا وَمَسْؤوْلَۃٌ عَنْ
رَعِےَّتِہَا (بخاری ومسلم) عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگہبان اور ذمہ دار
ہے اور اس سے اس کے بچوں کی تربیت وغیرہ کے متعلق سوال کیا جائے گا۔
۴) بیوی ‘شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت
کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:کسی عورت کے لئے حلال نہیں کہ وہ
اپنے شوہر کی موجودگی میں روزے رکھے مگر شوہر کی اجازت سے یعنی کسی عورت کے
لئے نفلی روزہ رکھنا شوہر کی اجازت کے بغیر حلال نہیں ۔
۵) عورت کے دل میں شوہر کے پیسے کا درد ہو: عورت کے دل میں شوہر کے پیسے کا
درد ہونا چاہئے تاکہ شوہر کا پیسہ فضول خرچی میں خرچ نہ ہو۔ گھر کو
نوکرانیوں پر نہیں چھوڑنا چاہئے کہ وہ جس طرح چاہیں کرتی رہیں بلکہ عورت کی
ذمہ داری ہے کہ وہ گھر کے داخلی تمام امور پر نگاہ رکھے۔
چند مشترکہ حقوق اور ذمہ داریاں:حتی الامکان خوشی وراحت وسکون کو حاصل کرنے
اور رنج وغم کو دور کرنے کے لئے ایک دوسرے کا تعاون کرنا چاہئے۔ ایک دوسرے
کے راز لوگوں کے سامنے ذکر نہ کئے جائیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت
کے دن اﷲ کی نظروں میں سب سے بدبخت انسان وہ ہوگا جو میاں بیوی کے آپسی راز
کو دوسروں کے سامنے بیان کرے۔ (مسلم)
شوہر باہر کے کام اور بیوی گھریلوکام انجام دے: قرآن وسنت میں واضح طور پر
ایسا کوئی قطعی اصول نہیں ملتا جس کی بنیاد پر کہا جائے کہ کھانا پکانا
عورتوں کے ذمہ ہے، البتہ حضرت فاطمہ ؓ کی شادی کے بعد حضور اکرم ﷺ نے حضرت
علیؓ اور حضرت فاطمہ ؓکے درمیان کام کی جو تقسیم کی وہ اس طرح تھی کہ باہر
کے کام حضرت علیؓ دیکھتے تھے، گھریلو کام مثلاً کھانا بنانا، گھر کی صفائی
کرنا وغیرہ حضرت فاطمہ ؓ کے ذمہ تھا۔ لیکن یاد رکھیں کہ زندگی قانونی
پیجیدگیوں سے نہیں چلا کرتی، لہذا جس طرح قرآن وحدیث میں مذکور نہیں ہے کہ
کھانا پکانا عورت کے ذمہ ہے اسی طرح قرآن وسنت میں کہیں واضح طور پر یہ
موجود نہیں ہے کہ شوہر کے ذمہ بیوی کا علاج کرانا لازم ہے، اسی طرح قرآن
وسنت میں مرد کے ذمہ نہیں ہے کہ وہ بیوی کو اس کے والدین کے گھر ملاقات کے
لئے لے جایا کرے۔ اسی طرح اگر بیوی کے والدین یا بھائی بہن اس کے گھر آئیں
تو مرد کے ذمہ نہیں ہے کہ مرغ مسلم وکوفتے وکباب وغیرہ لے کر آئے۔ معلوم
ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کی خدمت کے جزبہ سے رہیں۔ باہر کے کام مرد انجام دے
اور عورت گھر کے معاملات کو بخوبی انجام دے۔
میاں بیوی کی مشترکہ ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ دونوں
ایک دوسرے کی جنسی ضرورت کو پورا کریں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ
رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب مرد اپنی بیوی کو اپنی طرف بلائے (یہ میاں
بیوی کے مخصوص تعلقات سے کنایہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو ان تعلقات کو قائم
کرنے کے لئے بلائے) اور وہ عورت نہ آئے یا ایسا طرز اختیار کرے کہ جس سے
شوہر کا وہ منشا پورا نہ ہو اور اس کی وجہ سے شوہر ناراض ہوجائے تو ساری
رات صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں، یعنی اس عورت پر خدا کی
لعنت ہو اور لعنت کے معنی یہ ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت اس کو حاصل نہیں
ہوگی۔ (بخاری ومسلم)
جنسی خواہشات کی تکمیل پر اجروثواب: حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میاں
بیوی کے جو باہمی تعلقات ہوتے ہیں اﷲ تعالیٰ ان پر بھی اجر عطا فرمائے گا۔
صحابۂ کرام نے سوال کیا : یا رسول اﷲ! وہ انسان اپنی نفسانی خواہشات کے تحت
کرتا ہے، اس پر کیا اجر؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر وہ نفسانی خواہش کو ناجائز
طریقے سے پورا کرتا ہے تو اس پر گناہ ہوتا ہے یا نہیں؟ صحابۂ کرام نے عرض
کیا یا رسول اﷲ! گناہ ضرور ہوتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: چونکہ میاں بیوی
ناجائز طریقہ کو چھوڑکر جائز طریقے سے نفسانی خواہشات کو اﷲ کے حکم کی وجہ
سے کررہے ہیں، اس لئے اس پر بھی ثواب ہوگا۔ (مسند احمد ج ۵ ص ۱۶۹۱۶۷)
اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لئے مشترکہ فکر وکوشش: اﷲ تبارک
وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ےَا اَےُّہَا الَّذِےْنَ آمَنُوا قُوْا
اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِےْکُمْ نَاراً وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ
عَلَےْہَا مَلَائِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا ےَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَا
اَمَرَہُمْ وَےَفْعَلُوْنَ مَا ےُؤمِرُوْنَ (سورۂ التحریم ۶) اے ایمان
والوں تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن
انسان ہیں اور پتھر، جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اﷲ
تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجالاتے
ہیں۔جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر فاروق ؓ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں
تشریف لائے اور فرمایا کہ ہم اپنے آپ کو تو جہنم کی آگ سے بچاسکتے ہیں مگر
گھر والوں کا کیا کریں؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم ان کو برائیوں سے
روکتے رہو اور اچھائیوں کا حکم کرتے رہو، ان شاء اﷲ یہ عمل ان کو جہنم کی
آگ سے بچانے والا بنے گا۔ |