ذوالفقار علی بھٹو جب عوامی
جلسوں سے خطاب کیا کرتے تھے تو ان کی آستینوں کی پوزیشن یہ ہوتی کہ وہ
کلائیوں پر لٹک رہی ہوتی تھیں کیونکہ وہ کف کے بٹن کھول دیا کرتے تھے ۔ ان
کی پیروی کرتے ہوئے جیالے بھی اپنے کف کے بٹن نہیں لگایا کرتے تھے اور ملک
کا نوجوان طبقہ بھی شلوار قمیض پہن کر اپنی آستین کھلی چھوڑنے لگا تھا۔
بھٹو صاحب نے جب ماو کیپ پہننا شروع کی تو عوام نے بھی اس کیپ کو پہننا
شروع کردیا۔ جنرل ضیا الحق پاکستان کے صدر بنے تو سرکاری دفاتر کے افسران
اور ملازمین شلوار قمیض اور واسکٹ پہننے لگے۔ سرکاری دفاتر میں نئی نئی
مساجد تعمیر کی گئیں اور بقول چوہدری شجاعت سرکاری افسران کی اکثریت نے
اپنی واسکٹ کی جیبوں میں کپڑے کی ٹوپی تہہ کرکے رکھنی شروع کردی، جہاں نماز
کا وقت ہوا، انھوں نے ٹوپی نکال کر سر پر منڈھی اور جماعت بنا کر کھڑے
ہوگئے۔ با وضو تو وہ پہلے ہی ہر وقت رہنے لگے تھے۔ پرویز مشرف کے دور حکومت
میں'' مغربی لباس اور کتے پالنے کے شوق'' نے عروج پایا۔ اقتدار سنبھالتے ہی
انھوں نے اپنے دو عدد پالتو کتوں کے ساتھ تصویر کھنچوا کر اور میڈیا کے
ذریعے دنیا کو دکھلا کر یہ پیغام دے دیا تھا کہ وہ مذہبی نہیں بلکہ''
سیکولر '' ذہن کے مالک ہیں۔ لہذا ان کے دور میں سیکولرازم کو عروج حاصل ہوا۔
کہا جاتا ہے کہ عوام وہی کرتے ہیں جو ان کے حکمران کرتے ہیں۔ عوام اپنے
حکمرانوں کا عکس ہوا کرتے ہیں، وہ حکمرانوں کے نقش قدم پر چلا کرتے ہیں۔
بالائی سطح پر جو بھی عمل ہوتا ہے اس کے اثرات نچلی سطح پر پڑتے ہیں۔ اگر
اوپر کی سطح پر دیانتداری اور آئین و قانون کی حکمرانی ہوگی تو نچلی سطح پر
بھی قانون کی حکمرانی کو فروغ حاصل ہوگا۔ اگر بالائی سطح پر کرپشن کا دور
دورہ ہوگا تو نچلی سطح پر ایک اسسٹنٹ کمشنر کا چپڑاسی بھی رشوت کے چیتھڑوں
میں لت پت ہو گا۔ کرپشن ایک '' پاپ '' اور ایسا وائرس ہے جو اوپرسے نیچے تک
کا سفر کرتے کرتے معاشرہ کیلئے ناسور بن جاتا ہے ،اس کے خاتمہ کے لیے لازم
ہے کہ ابتدائی سٹیج سے آخر تک مکمل ٹیسٹ کروائے جائیں ، انٹی بیٹک کا
استعمال کیا جائے اور ایسے نسخے تجویز کیے جائیں جن میں کوانٹٹی کی بجائے
کوالٹی یعنی معیار پر توجہ دی گئی ہو۔
قارئیں حکمران طبقہ آئین، قانون اور ریاست کا احترام کرنا شروع کردے گا تو
آئین و قانون کی حرمت نچلی سطح پر بھی نظر آنا شروع ہوجائے گی اور ریاست کا
ہر ستون اور ہر ادارہ اپنی اپنی جگہ پر مضبوط ہوکر ایک دوسرے پر کڑی نظر
رکھنا شروع کردے گا۔ چیک اینڈ بیلنس کا یہ نظام ہی دراصل جمہوریت کا زیور
اور اس کا حسن ہے۔ جب کہ ہم اختلاف رائے اور ایک دوسرے کے سر پھاڑنے کے عمل
کو جمہوریت کا حسن قرار دیتے ہیں۔
ضلع بھکر کے سرکاری محکموں کی صورت حال بھی کچھ اس طرح کی ہے۔ اب آفیسران
تو دور کی بات ان کے نیچے تعینات عملہ بھی مٹھی گرم کیے بغیر کوئی کام نہیں
کرتا۔ بدقسمتی سے ملک میں کوئی ایسا سرکاری محکمہ نہیں جس میں کرپشن اور
رشوت ستانی بام عروج پر نہ ہو۔ اعلیٰ عہدوں پر تعینات آفیسران سارا دن
کرسیاں گھسیٹتے اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ کہیں سے کوئی بڑا '' شکار '' لگ
جائے اور ان کی جیب کے وارے نیارے ہوجائیں ، صرف یہی نہیں اکثر محکمہ جات
کے سربراہ اپنے ماتحت عملہ کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ عوام کی چمڑی ادھیڑ کر
بلاخوف و خطر ان کا حصہ نکال دیں ، عوام کی جیبوں سے نکلنے والے روپوں کو
'' تبرک '' سمجھ کر ہڑپ کرجاتے ہیں۔ افسران کی دیکھا دیکھی ماتحت عملہ بھی
'' جیب کٹ '' پالیسی پر عمل پیرا ہوجاتا ہے ، شاید اسی وجہ سے کرپشن مافیا
کی جڑیں روز بروز گہری ہوتی جارہی ہیں ، بدقسمتی سے ہمارے ہاں کرپشن مافیا
کے سرغنے معاشرہ کے معزز شہری بن کر زندگی بسر کررہے ہیں ،عجیب معاشرتی
بگاڑ ہے ، چور ، ڈکیٹ، کرپشن مافیا ، رشوت خوروں کو سیلوٹ پیش کیا جاتا ہے
، ان کو پروموٹ کردیا جاتا ہے ، اسی معاشرہ میں ایک ایماندار اور شریف شہری
کو عبرت کا نشان بنادیا جاتا ہے۔ ایسے معاشرہ میں جہاں معاشرتی بگاڑ پیدا
ہوجائے شرفاء کے لیے کوئی جگہ نہیں ،یہاں '' لٹو پٹو '' بن کر گریبان کھولے
، آستینیں چڑھائے ، مونچھوں کو '' وٹ '' اور گالیوں کی '' رٹ '' لگاکر جینا
پڑتا ہے نہیں تو بے رحم معاشرہ کے لوگ '' الٹی گنتی '' شروع کردیتے ہیں۔
|