بھلاڈبل رومیں چلنے والے سیاستدان وحکمران
سنگل پیچ پرکیوںاور کیسے آئیں گے ...؟
ابھی ایک بات جو میں اگلی سطورمیں کہناچاہ رہاہوں آج یہ یقینا کسی مہذب قوم
کی طرح ہمارے بھی ایک مثبت سوچ کے حامل اوربھلے اِنسان کی اچھی بات لگتی
ہے،جس سے قوم کو حوصلہ ملاہے اور قوم یہ سوچنے پر ضرورمجبورنظرآتی ہے کہ
اگرایساہوجائے جس کے بارے میں ایک بھلے اِنسان نے کہاہے تو پھر یقیناکچھ
اچھاہوسکتاہے آج اُس بھلے اِنسان نے مسائل کے گرداب میں پھنسی اپنی قوم کو
اِن سے نکالنے کے لئے اپنے حکمرانوں وسیاستدانوں اور اِداروں کو اپنے باہمی
سیاسی وذاتی اختلافات کو بھلانے اور اِنہیں ایک پیچ پر آنے اور لانے سے
متعلق اذان دے دی ہے اوراِس کے ساتھ ہی یہ مشورہ بھی دے دیاہے کہ مُلک سے
دہشت گردی اور اِس جیسے دیگر گھمبیرہوتے مسائل کے بارے میں سب مل کر جنگی
بنیادی پر ایسے اقدامات کریں کہ جن کے کرنے اور ہونے سے قوم کو دہشت گردی
سمیت دیگرمسائل سے جھٹکارہ حاصل ہوجائے اورقوم دہشت گردی جیسے دوسرے مسائل
سے پاک ہوکر ایک خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان کی جانب گامژن
ہوجائے،مگراَب تک ا یسانہیں ہوپایا ہے اور پھرویساہی ہوگیاہے جیساکہ ہمیشہ
سے ہی ہوتاچلاآیاہے یعنی یہ کہ اِن دنوں بھی میرے مُلک میں ہر سطح پر ایک
پیچ کی بات بڑے زورشعورسے تو کی جارہی ہے، مگرکوئی ایک پیچ پر آنے کو تیار
ہی نہیں ہے ۔
اَب ایسے میں مجھے یہاں انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہناپڑرہاہے کہ جنہیں
برسوں سے ہی ڈبل ٹریک اور دوطرفہ راستوں پر چلنے اور مُلکی تو کیا خوداپنے
ذاتی معاملات میں بٹے رہنے کی عادت ہو ،توبھلا ایسے میں ہمارے منتشرالخیال
اور ڈبل روپر چلنے والے حکمران وسیاستدان اور اِدارے سنگل پیچ پر کیوں
اورکیسے آسکتے ہیں اور یہ آئیں گے...؟
چلوپھربھی یہ ایک اچھی بات توہے کہ کسی صاحب عقل وہمت نے تو صاحبان اقتدارو
اختیارکوایک پیچ پر آنے اور لانے سے متعلق آواز بلند کرکے پہل کی اور
ایساسوچاتوصحیح..... مگر اِس سے پہلے تو کبھی بھی کسی کو کسی بھی معاملے
میں ایک پیچ پر آنے یالانے کا خیال ہی نہیں آیا،آج حکمرانوں وسیاستدانوں
اور اداروں کوایک پیچ پر لانے اور آنے کی یہ کوشش بھی کرکے دیکھ لی
جائے...؟یقیناآج اگراُس بھلے اِنسان کی ایک پیچ پر آنے والی بات پر عمل
کرتے ہوئے ہمارے حکمران و سیاستدان اور ادارے ایک پیچ پر آجائیں اوراِس طرح
مُلک میں سب کی کوششوں سے مثبت تبدیلی آجائے تو یہ ہمارے حکمرانوں و
سیاستدانوں اور اداروں کا ایک عظیم کارنامہ ہوگا،بشرطیکہ سب اِس معاملے پر
سنجیدہ ہوں تو پھر یقیناہمارامُلک آج نہیں تو کل ضرورکسی مثبت و تعمیری
انقلابی تبدیلی سے ہمکنار ہوسکتاہے ورنہ نہیں۔
بہرحال ..!اَب ایسے میں یہاں راقم الحرف کا خیال یہ ہے کہ 66سالوں سے جن
حکمرانوں اور سیاستدانوں نے قوم میں انتشارپھیلائے رکھا اور قوم کو طرح طرح
کے مسائل میں دیدہ و دانستہ اُلجھاکر اِسے ایک ایسے تباہی کے دہانے تک
پہنچادیاہے کہ اَب جہاں تباہی اِسے اپنی باہنوں میں لینے کی منتظرہے،
توایسے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو ایک پیچ پر لانے کی فکرکرنے والے کو تو
مجھ سمیت اور بہت سے لوگ ضرورسلام پہ سلام پیش کررہے ہوں گے مگر اَب بھی
اِن سیاستدانوں اور حکمرانوں کی ہٹ دھرمی بھی دیدنی ہے جو صاحبِ اختیاراور
اقتدار ہونے کے باوجود بھی خود کو ذہنی و جسمانی طور پر کسی بھی لحاظ سے
ایک پیچ پر لانے کو تیاردکھائی نہیں دیتے ہیں۔
اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ آج بھی میرے مُلک کے بے حس حکمران اور سیاستدان ایک
پیچ پر آنے کو تیار ہوجائیں تو کوئی حرج نہیں کہ کرپشن ، بھوک و افلاس ،
قتل وغارت گری ، اقرباءپروی ، دہشت گردی سمیت بھتہ خوری جیسے مسائل میں
گھری میری 80فیصدجھلسی اوربہترین تعلیم ، بہترین خوراک اور بہترین صحت عامہ
کی سہولیات سے بھی محروم قوم کو مرنے سے بجایاجاسکتاہے ورنہ...؟اِس کا
خاتمہ ہی مقدرہوگا۔
جبکہ یہاں یہ امربھی یقیناقابلِ غورہے کہ اگر پھر بھی ہمارے حکمران و
سیاستدان اور ادارے قوم کو دہشت گردی سمیت دیگر مسائل سے نجات دلانے کے لئے
سنجیدہ نہ ہوئے تو پھر 80فیصددہشت گردی اور بہت سے دوسرے مسائل
اورپریشانیوں سے جھلسی قوم کاازالہ ایسے کیا جائے کہ اِس کے تمام مسائل کا
ذمہ دار گزشتہ 66سالوں میں گزرے حکمرانوں وسیاستدانوں اور اداروں کو
ٹھرایاجائے(اِن میں وہ بھی شامل ہوںجو مرکھپ گئے ہیں اور جو زندہ ہیں
)یوںاِن سب کے خلاف پرچہ درج کرواکر قانونی چارہ جوئی کے بعد سزائیں دی
جائیں اور سزابھی ایسی دی جائیں کہ سب کے سب(عالمِ برزخ کی بھی روحیں) ایک
پیچ پر آجائیں اور قوم کی دادرسی کا سوچنے لگیں،اور اِنہیں شدت سے یہ احساس
ہو کہ اُنہوں نے مسائل سے 80فیصدجھلسی اپنی قوم کے لئے کچھ اچھانہیں کیا
چلواَب اگر قوم میں سے کوئی ایک شخص حکمرانوںو سیاستدانوں اور اداروں کے
سربراہان کو ایک پیچ پر آنے اوردہشت گردی سمیت قوم کو درپیش دیگر سنگین
مسائل سے جھٹکارے دلانے سے متعلق پیغام دے رہاہے تو پھر دیر نہیں کرنی
چاہئے اور فوراََ ہی اِس پر عمل کردیناچاہئے تاکہ قوم میں یہ احساس بیدار
ہوجائے کہ ہمارے حکمرانوںو سیاستدانوں اور اداروں کے سربراہان نے مُلک و
قوم کے بہترمستقبل کے خاطر اپنے اندرمثبت سوچیںپیداکردی ہیںاور یہ بہت
جلدقوم و مُلک کو حقیقی معنوں میں دہشت گردی سمیت اور دوسرے مسائل سے نجات
دلاکر اُوج ثُریاسے بھی آگے ترقی و خوشحالی کی راہ پر لے جائیں گے۔(ختم
شُد) |