تھر بھی ہمارا گھر

کبھی کبھار جب ٹیلی ویژن پر صومالیہ ، ایتھو پیا اور سوڈان جیسے ممالک میں بھوک سے بلکتے ، روتے اور موت سے لڑتے بچوں کو میں دیکھتا تو میرا کلیجہ منہ کو آتا ۔اب اپنے ہی ملک میں تھر کے علاقے میں غذائی قلّت کے باعث125سے ذیادہ بچوں کو موت کے منہ میں چباتے دیکھا تو دل خون کے آنسو رونے لگا ہے اور مجھے یقین ہے کہ میرے تمام محبِ وطن بھائی ان بچوں کی موت پر اپنے برسرِ اقتدار طبقہ کی بے حسّی پر یقینا غمزدہ ہو ں گے۔تھر صوبہ سندھ میں واقع بیس ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا علاقہ ہے جہاں دس لاکھ سے زائد لوگ آبا د ہیں۔دنیا میں کو ئلے کے ذخائر کے لحاظ سے تھر چو تھے نمبر پر ہے دیگر معدنیات بھی وافر مقدار میں موجود ہیں ۔مگر ان کے باسی نہایت غربت اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ،بارشیں بہت کم ہو تی ہیں مگر قحط اچانک کبھی نہیں آتا اس کی نشانیاں پہلے سے ضرور نظر آ جاتی ہیں اور حکمران بیدار ہوں تو پیشگی حفاظتی اقدامات سے قحط کے برے اثرات سے آسانی سے بچا جا سکتا ہے اور اس دورِ جدید میں قحط کے آگے بند با ندھنا تو کوئی مشکل ہی نہیں ،مگر افسوس کے ہمارے ملک کے حکمران غریب لوگوں کو کیڑے مکوڑوں سے زیا دہ اہمیّت نہیں دیتے۔ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو ملک گندم کے لحاط سے خود کفیل ہو، جہاں گندم حکو مت کے گو دا موں میں پڑے پڑے گل سڑ جاتی ہو، جہاں چاول کی ایک بہت بڑی مقدار بر آ مد کی جا تی ہو، وہاں لوگ بھوک سے مر جائیں۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور پیپلز پارٹی کے بڑے غریبوں کے گن گاتے تھکتے نہیں ، با وثوق ذرائع کے مطابق آصف علی زرداری کے اکاونٹ میں دو ارب ڈالر سے زیا دہ کی رقم مو جود ہے اس کے علاوہ اندرونِ ملک اور بیرونی ملک کھربوں ڈالر کی جا ئیداد اس کے علاوہ ہے ، برطانیہ، بلجیئم اور امریکہ میں کئی جگہوں پر ان کی اربوں ڈالر کی جائیداد اور بز نس ہے مگر ان کے ووٹروں کے بچے بھو ک سے مر رہے ہیں ادھر ان کا بیٹا بلاول زرداری بھٹو سندھ فیسٹول منعقد کوا کر غریبوں کا مذاق اڑا رہا ہے۔سندھ کا وزیر اعلیٰ اور پیپلز پارٹی کا جیالا سید قاسم علی شاہ تھر کے علاقے میں غریبوں کے شیرخوار بچوں کی موت پر مگر مچھ کے آ نسو بہانے اپنی روایتی کرو فر کے ساتھ جب بھوک سے بے حال لوگوں کے پاس پہنچتا بھی ہے تو خود کھانے میں تکّے، کباب، چرخے، مچھلی اور پلاوٌ ضرور شامل کرتا ہے۔ کیا شان ہے پاکستانی حکمرانوں کی، ایک طرف چند لقموں کے لئے ترستے ہو ئے عوام اور دوسری طرف سرکاری خرچ پر انواع و اقسام کے لذیذ کھانے۔کاش ہمارے حکمران مسلمان حکمرانوں کے طرزِ حکمرانی سے واقف ہو تے۔ انہوں نے امریکہ اور بر طانیہ کے درسگاہوں میں یہ بھی پڑھا ہو تا کہ حضرت عمرِ فاروقؓ سے جب کسی نے پو چھا کہ آپ ایک بہت بڑے اور وسیع سلطنت کے ما لک ہیں ، آپ اپنے کندھوں پر راشن کی بو ریاں اٹھا کر لوگوں میں تقسیم کرنے کی تکلیف کیوں کرتے ہیں ؟

تو حضرت عمر ؓ نے جواب دیا ِ ِ’’خدا کی قسم ! اگر دریائے فرات کے کنارے کو ئی کتّا بھی بھوک یا پیاس سے مر جائے تو اس کی باز پرس مجھ سے کی جا ئے گی ‘‘ اسی طرح ایک دفعہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں قحط پڑا تو وہ اس وقت تک صرف جو کی روٹی کھاتے رہے جب تک انہوں نے ریاست کے تمام افراد کو وافر مقدار میں خوراک کا بند وبست نہیں کیا، اسی طرح حضرت عثمان ؓ کے عہدِ خلافت میں قحط آیا تو انہوں نے غلّے سے لدے ہو ئے اپنے تمام اونٹوں سے غلّہ اتروا کر اہلِ مد ینہ میں تقسیم کیا ۔ کاش ہمارے حکمرانوں کو بھی اپنی ذمّہ داری کا احساس ہو تا اور اس با ت کا بھی احساس ہو تا کہ قیا مت کے روز ان سے بھی اپنی رعایا کے متعلق با ز پرس ہو گی۔

تھر میں اگر حکمران وہاں کے حالات پر کڑی نظر رکھتے اور بروقت فیصلے کرتے تو یقینا نہ تو اتنی انسانی جانیں ضا ئع ہو تیں اور نہ ہی اتنی بیماریان پھیلتیں۔آ ج کے ترقی یافتی دور میں قحط کا آنا حکمرانوں کے نا لائقی و نا اہلی کا بیّن ثبوت ہے۔ ورنہ جدید ٹیکنالوجی اور تحقیق سے آسانی کے ساتھ اسے روکا جا سکتا ہے۔ تھر ہمارا گھر ہے ،خشک سالی یہاں معمول کی بات ہے اس لئے حکومت کو چا ہئیے کہ اس علاقے پر مسلسل نظر رکھے ، محکمہ صحت کو بھی فعال رکھے اور دیگر تمام حفا ظتی اقدامات کو ہمیشہ مدِ نظر رکھے ،موجودہ صورتِ حال پر قابو پانے کے لئے ہر ممکن اقدام اٹھائے تاکہ مزید انسانی جا نوں کی ضیا ع کو روکا جا سکے۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 286843 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More