بلند حوصلہ ترغیب بلندکی کتاب’’سرمایۂ شعراء‘‘

بزرگانِ ادب کے لیے عظیم خراج

محترم عبارت علی صاحب اور محترم ترغیب بلند صاحب کی جانب سے سجائی گئی ’’اُردِش احباب‘‘نامی انجمن، انٹرنیٹ پر فیس بک کی ایک ایسی انجمن ہے،جس سے اُردو کا شاید ہی کوئی فیس بک صارف ناواقف ہوگا۔ رنگ و نسل، جغرافیائی حدود اورقومی و مذہبی وابستگیوں سے بلند ہو کر،خالص اُردو زبان و ادب کے حوالے سے ایک عالمی برادری کی تشکیل کا خواب دیکھنے والے اربابِ ’’اُردِش احباب‘‘مبارکباد کے مستحق ہیں کہ اُنہوں نے ، جیسے لسانی سیکولرزم کی ایک الف لیلوی داستان چھیڑ رکھی ہے اور قدیم و جدید روایات کے جلو میں اپنی منزل کی سمت ایک نیے عزمِ کے ساتھ مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔ اپنے قافلے میں ادب کے بے شمار رہروانِ شوق کو، جن میں ہم جیسے چھوٹے موٹے قلمکار بھی شامل ہیں، نہ صرف اپنے ساتھ جوڑ لیاہے، بلکہ اِس قافلے کی سربراہی کا فرض نبھانے میں بھی مسلسل سرگرمِ عمل ہیں۔

ایک نہایت ہی سہانی صبح ایک کال(004532958806) ہمیں ڈنمارک سے موصول ہوئی۔اُدھر سے ترغیب بلند صاحب ہم سے مخاطب تھے۔ اُنہوں نے یہ خوشخبری سنائی کہ وہ اپنی کتابوں کا تحفہ نذرِ عزیز فرما رہے ہیں۔اِس محبت اور عز ّت افرائی پر ہم بہت مسرور ہوئے،اور بے صبری سے انتظار کرنے لگے نہایت ہی سہانی صبح ایک کال(004532958806) ہمیں ڈنمارک سے موصول ہوئی۔اُدھر سے ترغیب بلند صاحب ہم سے مخاطب تھے۔ اُنہوں نے یہ خوشخبری سنائی کہ وہ اپنی کتابوں کا تحفہ نذرِ عزیز فرما رہے ہیں۔اِس محبت اور عز ّت افرائی پر ہم بہت مسرور ہوئے،اور بے صبری سے انتظار کرنے لگے۔یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ۳؍جنوری ،۲۰۱۴ء کو ارسال کردہ ترغیب بھائی کی کتابوں کا پارسل تیسرے دن ہی ہمیں موصول ہوا ۔ ہم نے پارسل کھولا تو دیکھا کہ دو کتابوں کانایاب تحفہ ترغیب بھائی نے عنایت فرمایاہے۔ اِن میں سے خاص چیز ’’سرمایۂ شعرا‘‘تھی۔’’انتخابِ رباعیات‘‘۔یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ۳؍جنوری ،۲۰۱۴ء کو ارسال کردہ ترغیب بھائی کی کتابوں کا پارسل تیسرے دن ہی ہمیں موصول ہوا ۔ ہم نے پارسل کھولا تو دیکھا کہ دو کتابوں کانایاب تحفہ ترغیب بھائی نے عنایت فرمایاہے۔ اِن میں سے خاص چیز ’’سرمایۂ شعرا‘‘تھی۔’’انتخابِ رباعیات‘‘ نام سے ایک اہم کتاب اور بھی پارسل میں موجود تھی ۔ اِس پر انشاء اﷲ الگ سے اِظہار خیال کا موقع نکالا جائے گا۔بے تحاشہ مصروفیات کے درمیان۹۴۰ ؍صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب’’سرمایۂ شعراء‘‘ کے مطالعہ گوکہ کافی مشکل تھا، کیونکہ اِتنے سارے صفحات پر سے سرسری طو نام سے ایک اہم کتاب اور بھی پارسل میں موجود تھی ۔ اِس پر انشاء اﷲ الگ سے اِظہار خیال کا موقع نکالا جائے گا۔بے تحاشہ مصروفیات کے درمیان۹۴۰ ؍صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب’’سرمایۂ شعراء‘‘ کے مطالعہ گوکہ کافی مشکل تھا، کیونکہ اِتنے سارے صفحات پر سے سرسری طور پر گزر جانا ہی کافی وقت چاہتا تھا،اِس لیے ایک ماہ کے عرصہ میں ہم جتنا کچھ استفادہ کر سکتے تھے، ہم نے کیا اور اِس کا بیشتر حصہ پڑھ ہی ڈالا ۔تاہم پڑھتے ہوئے نوٹس ضرور بنالیے، تاکہ اِس پر اِظہار خیال کے دوران اِنہیں کام میں لایاجا سکے۔ اِس کے با وجود مضمون ر پر گزر جانا ہی کافی وقت چاہتا تھا،اِس لیے ایک ماہ کے عرصہ میں ہم جتنا کچھ استفادہ کر سکتے تھے، ہم نے کیا اور اِس کا بیشتر حصہ پڑھ ہی ڈالا ۔تاہم پڑھتے ہوئے نوٹس ضرور بنالیے، تاکہ اِس پر اِظہار خیال کے دوران اِنہیں کام میں لایاجا سکے۔ اِس کے با وجود مضمون کا کام شروع نہ ہو سکاتھا۔ آج فرصت کے کچھ لمحات میسر آئے تو، یہ چند سطور لکھنے کے لیے بیٹھ گیا ہوں۔ یہ مضمون کتاب پر کوئی تبصراتی مضمون نہیں ہے ، بلکہ اِسے تاثراتی مضمون کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔ اِس وضاحت کی ضرورت اِس لیے محسوس ہوتی ہے کہ بعض لوگ ایسے مضامین کا کام شروع نہ ہو سکاتھا۔ آج فرصت کے کچھ لمحات میسر آئے تو، یہ چند سطور لکھنے کے لیے بیٹھ گیا ہوں۔ یہ مضمون کتاب پر کوئی تبصراتی مضمون نہیں ہے ، بلکہ اِسے تاثراتی مضمون کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔ اِس وضاحت کی ضرورت اِس لیے محسوس ہوتی ہے کہ بعض لوگ ایسے مضامین کو تبصرہ سمجھ کر خواہ مخواہ اِن میں کتاب و صاحبِ کتاب پر تنقیدی بحثیں ہی تلاش کرتے ہیں اور ایسی کوئی چیز نظر نہیں آتی ہے تو، مضمون نگا ر کی تبصرہ نگارانہ صلاحیتوں پر سوالیہ نشان لگادیتے ہیں اور اِس پر مستزاد یہ کہ اسے اپنی نازیبا تنقیص کا ہدف بنانے سے بھیکو تبصرہ سمجھ کر خواہ مخواہ اِن میں کتاب و صاحبِ کتاب پر تنقیدی بحثیں ہی تلاش کرتے ہیں اور ایسی کوئی چیز نظر نہیں آتی ہے تو، مضمون نگا ر کی تبصرہ نگارانہ صلاحیتوں پر سوالیہ نشان لگادیتے ہیں اور اِس پر مستزاد یہ کہ اسے اپنی نازیبا تنقیص کا ہدف بنانے سے بھی نہیں چوکتے۔میں کہتا ہوں کہ کیا ضروری ہے کہ اِظہار خیال کی درخواست کے ساتھ آئی ہوئی کسی کتاب کو تنقید کا ہی ہدف بنا دیا جائے۔پھر اگر کوئی کتاب ایک تحفے کے طور پر موصول ہوئی ہے تواِس پر ہدیۂ ٔ تشکر پیش کرنے کے بجائے، تبصرہ تو کجا، مضمون بھی نہیں لکھا جانا نہیں چوکتے۔میں کہتا ہوں کہ کیا ضروری ہے کہ اِظہار خیال کی درخواست کے ساتھ آئی ہوئی کسی کتاب کو تنقید کا ہی ہدف بنا دیا جائے۔پھر اگر کوئی کتاب ایک تحفے کے طور پر موصول ہوئی ہے تواِس پر ہدیۂ ٔ تشکر پیش کرنے کے بجائے، تبصرہ تو کجا، مضمون بھی نہیں لکھا جانا چاہیے! تا آں کہ خود صاحبِ کتاب تبصرے، یا مضمون کی درخواست نہ کردے۔چونکہ اِن مرحلوں سے میں باربار گزرتارہا ہوں، اِس لیے اِن جملہ ہائے معترضہ کی ضرورت محسو س ہوئی۔ سرِ دست ہم جناب ترغیب بلند صاحب کی تالیف’’سرمایۂ شعراء‘‘ پر تاثرات کی خواہش رکھتے ہیں،اور ی چاہیے! تا آں کہ خود صاحبِ کتاب تبصرے، یا مضمون کی درخواست نہ کردے۔چونکہ اِن مرحلوں سے میں باربار گزرتارہا ہوں، اِس لیے اِن جملہ ہائے معترضہ کی ضرورت محسو س ہوئی۔ سرِ دست ہم جناب ترغیب بلند صاحب کی تالیف’’سرمایۂ شعراء‘‘ پر تاثرات کی خواہش رکھتے ہیں،اور یہ چند سطور اِسی خواہش کی تکمیل میں حاضرِ خدمت ہیں۔لیکن ہم صاحبِ کتاب کی اِجازت کے بعد ہی اِسے اِشاعت کے لیے پیش کر رہے ہیں۔

سب سے پہلی بات یہ کہ دیارِ غیر میں رہتے ہوئے اُردوکے لیے ایسی جانکاہ محنت ناقابلِ یقین ہونے کے باوجودیقین کرنے پر مجبور کرتی ہے ک¦ چند سطور اِسی خواہش کی تکمیل میں حاضرِ خدمت ہیں۔لیکن ہم صاحبِ کتاب کی اِجازت کے بعد ہی اِسے اِشاعت کے لیے پیش کر رہے ہیں۔

سب سے پہلی بات یہ کہ دیارِ غیر میں رہتے ہوئے اُردوکے لیے ایسی جانکاہ محنت ناقابلِ یقین ہونے کے باوجودیقین کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ اگرحوصلے بلند ہوں تو ترغیب بلند جیسی فداکارانِ اُردو شخصیات کہیں بھی، کچھ بھی کر سکتی ہیں اور اپنے بلند کارناموں کو محیر العقول بنا سکتی ہیں۔وہ لکھتے ہیں:
’’زندگی کے شب و روز کے تجربے نے یہ بات سکھائی کہ اگر سچی لگن ہوتو مشکل سے مشکل تر کام بھی دُشوار نہ¦ اگرحوصلے بلند ہوں تو ترغیب بلند جیسی فداکارانِ اُردو شخصیات کہیں بھی، کچھ بھی کر سکتی ہیں اور اپنے بلند کارناموں کو محیر العقول بنا سکتی ہیں۔وہ لکھتے ہیں:
’’زندگی کے شب و روز کے تجربے نے یہ بات سکھائی کہ اگر سچی لگن ہوتو مشکل سے مشکل تر کام بھی دُشوار نہیں ، یہی لگن انسان کی ترقی و بقا کی ضمانت بن جاتی ہے……‘‘۔یہ بات انہوں نے بہ ظاہر’’……دنیائے ادب کے کچھ لوگوں ‘‘کے لیے کہی ہے ……’’(اور بقول جناب ترغیب صاحب)جن کی روز و شب کی جد وجہد سے ادب کو حیات ملی……‘‘۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے، اُن کے یہ جملے خود اُن کی اپنی محیں ، یہی لگن انسان کی ترقی و بقا کی ضمانت بن جاتی ہے……‘‘۔یہ بات انہوں نے بہ ظاہر’’……دنیائے ادب کے کچھ لوگوں ‘‘کے لیے کہی ہے ……’’(اور بقول جناب ترغیب صاحب)جن کی روز و شب کی جد وجہد سے ادب کو حیات ملی……‘‘۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے، اُن کے یہ جملے خود اُن کی اپنی محنتوں پر صادق آتے ہیں ۔’’سرمایۂ شعراء‘‘اُن کی سچی لگن کا نتیجہ ہے، اُنہوں نے اِس مشکل ترین کام کو بڑے صبر و سلیقہ سے انجام دیا ہے۔شعراء کے کلام سے انتخاب کا معاملہ کس قدر دشوار کن ہوتاہے، اِس کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں، جنہیں اوّل تو مطالعہ کا ذوق ہو، نتوں پر صادق آتے ہیں ۔’’سرمایۂ شعراء‘‘اُن کی سچی لگن کا نتیجہ ہے، اُنہوں نے اِس مشکل ترین کام کو بڑے صبر و سلیقہ سے انجام دیا ہے۔شعراء کے کلام سے انتخاب کا معاملہ کس قدر دشوار کن ہوتاہے، اِس کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں، جنہیں اوّل تو مطالعہ کا ذوق ہو، خصوصاً شاعری کو صبر و سکون سے پڑھنے، تجزیہ کرنے کی صلاحیت ہو، اور اپنے قارئین کے ذوق کا سامان فراہم کرنے کے لیے وسیع مطالعہ،اور مطالعہ کے بعدانتخاب ِ کلام کے ایک نازک ترین مرحلے سے گزرنے کاتحملPatienceہو۔

اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ،جتنے شعراء کااِنتخاب اِس کتاب کی ترتیب کے لیے کیا گیاہوگا،ظاہر ہے اُن کے مجموعہ ہائے کلام کی فراہمی اِس کام کا پہلا مرحلہ رہا ہوگا، پھر اِن کا مطالعہ، پھر زیر ترتیب کتاب کے لیے کلامِ شعراء کا انتخاب کا مرحلہ آیا ہوگا۔کتاب کے لیے کی گئی محنت کے اِن تمام پہلوؤں سے یہ اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں کہ محترم ترغیب بلند صاحب نے کس قدر عظیم کارنامہ کس قدر مشقت سے سرانجام دیاہوگا۔یہ کوئی سو دو سو صفحات کی کتاب کی بات نہیں ،بلکہ یہ ۹۶۰ صفحات پر مشتمل کتاب کی بات ہے، جس میں منتخب شعروں کا ایک خزانہ موجود ہے۔

دوسری بات یہ کہ یہ کتاب دراصل بزرگاخصوصاً شاعری کو صبر و سکون سے پڑھنے، تجزیہ کرنے کی صلاحیت ہو، اور اپنے قارئین کے ذوق کا سامان فراہم کرنے کے لیے وسیع مطالعہ،اور مطالعہ کے بعدانتخاب ِ کلام کے ایک نازک ترین مرحلے سے گزرنے کاتحملPatienceہو۔

اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ،جتنے شعراء کااِنتخاب اِس کتاب کی ترتیب کے لیے کیا گیاہوگا،ظاہر ہے اُن کے مجموعہ ہائے کلام کی فراہمی اِس کام کا پہلا مرحلہ رہا ہوگا، پھر اِن کا مطالعہ، پھر زیر ترتیب کتاب کے لیے کلامِ شعراء کا انتخاب کا مرحلہ آیا ہوگا۔کتاب کے لیے کی گئی محنت کے اِن تمام پہلوؤں سے یہ اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں کہ محترم ترغیب بلند صاحب نے کس قدر عظیم کارنامہ کس قدر مشقت سے سرانجام دیاہوگا۔یہ کوئی سو دو سو صفحات کی کتاب کی بات نہیں ،بلکہ یہ ۹۶۰ صفحات پر مشتمل کتاب کی بات ہے، جس میں منتخب شعروں کا ایک خزانہ موجود ہے۔

دوسری بات یہ کہ یہ کتاب دراصل بزرگانِ ادب کے لیے ایک مخلصانہ خراج ہے، جسے بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ محترم ترغیب بلند صاحب نے پیش فرمایا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اپنی روایات، اپنے اقدار اپنے ادبی اسلاف کی محنتوں سے دامن کش ہونے والے نہیں ہیں، بلکہ انہیں یاد رکھتے ہیں، اُن کو تحسین سے نوازتے ہیں،اور نئی نسلوں تک اِن کے ادبی کارناموں کو پہنچانے کا عزم ِ بلند رکھتے ہیں۔ اورشاید یہی آباء پسندی اُن کے دلِ درد مند کی غمازی کرتی ہے اوراپنے ادبی اسلاف سے یہی محبت انہیں ایسی ناقابلِ یقین محنت کرنے پر آمادہ کرتی ہے اور کر سکی ہے۔وہ رقم طراز ہیں:’’نِ ادب کے لیے ایک مخلصانہ خراج ہے، جسے بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ محترم ترغیب بلند صاحب نے پیش فرمایا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اپنی روایات، اپنے اقدار اپنے ادبی اسلاف کی محنتوں سے دامن کش ہونے والے نہیں ہیں، بلکہ انہیں یاد رکھتے ہیں، اُن کو تحسین سے نوازتے ہیں،اور نئی نسلوں تک اِن کے ادبی کارناموں کو پہنچانے کا عزم ِ بلند رکھتے ہیں۔ اورشاید یہی آباء پسندی اُن کے دلِ درد مند کی غمازی کرتی ہے اوراپنے ادبی اسلاف سے یہی محبت انہیں ایسی ناقابلِ یقین محنت کرنے پر آمادہ کرتی ہے اور کر سکی ہے۔وہ رقم طراز ہیں:’’(میرا ارادہ یہ نہیں کہ)اس کتاب کی اشاعت سے کچھ مالی فائدہ ہو یا اس کی بدولت کچھ شہرت حاصل کر سکوں یا اپنی شہرت میں اضافہ کر سکوں۔میں نے یہ محسوس کیا کہ ہمارے بزرگوں نے جو ادبی خدمات انجام دی ہیں ، اِن کا کافی حد تک ادبی سرمایہ ہمارے ہاتھوں ضائع ہو چکا ہے۔ (میرا ارادہ یہ نہیں کہ)اس کتاب کی اشاعت سے کچھ مالی فائدہ ہو یا اس کی بدولت کچھ شہرت حاصل کر سکوں یا اپنی شہرت میں اضافہ کر سکوں۔میں نے یہ محسوس کیا کہ ہمارے بزرگوں نے جو ادبی خدمات انجام دی ہیں ، اِن کا کافی حد تک ادبی سرمایہ ہمارے ہاتھوں ضائع ہو چکا ہے۔ حالانکہ ہمارا فرض اولین تھا کہ اپنے بزرگوں کے ادبی سرمائے کی حفاظت کرتے۔‘‘اِس طرح ترغیب بلند صاحب نے زیادہ تر مرحوم بزرگ شعراء کے کلام کو یکجا کرکے اُن کی فکر وفن کی یاد تازہ کر دی ہے۔ ساتھ ہی اِس میں اُن شعراء کا بھی کلام درج ہے ،جو ابھی حیات ہیں اور اپنیحالانکہ ہمارا فرض اولین تھا کہ اپنے بزرگوں کے ادبی سرمائے کی حفاظت کرتے۔‘‘اِس طرح ترغیب بلند صاحب نے زیادہ تر مرحوم بزرگ شعراء کے کلام کو یکجا کرکے اُن کی فکر وفن کی یاد تازہ کر دی ہے۔ ساتھ ہی اِس میں اُن شعراء کا بھی کلام درج ہے ،جو ابھی حیات ہیں اور اپنے فکر و فن کے جھنڈے گاڑتے چلے جارہے ہیں۔

اِس کتاب میں تقریباً تمام اصنافِ سُخن میں شعراء کے اشعار کا انتخاب پیش کیا گیا ہے۔مثلاً،حمد ، نعت، منقبت، سلام، قصیدہ، مرثیہ، نوحہ، مناجات، مسدس، سہرا، قطعاتِ تاریخ،قطعات، رباعی،مثنوی، ہجو، کتبہ، گیت، ٹھمریاں، منظو فکر و فن کے جھنڈے گاڑتے چلے جارہے ہیں۔

اِس کتاب میں تقریباً تمام اصنافِ سُخن میں شعراء کے اشعار کا انتخاب پیش کیا گیا ہے۔مثلاً،حمد ، نعت، منقبت، سلام، قصیدہ، مرثیہ، نوحہ، مناجات، مسدس، سہرا، قطعاتِ تاریخ،قطعات، رباعی،مثنوی، ہجو، کتبہ، گیت، ٹھمریاں، منظوم اقوال، کہہ مکرنیاں ، پہیلیاں ، نثر لطیف، خیال، دوہے ، ہولی، بھجن،ڈوہڑا، ملی نغمے، گانے، ہولی، ہائیکوز، تضمینات،قوالی ، لوری،اردو ماہیا، دوہا، ثلاثی،کافی،غزلیات، نظمیں، کلام فارسی،اپنے وقت کے مشہور اشعار، مشہور مثل، محاورے اور مقولے۔ اور اِس سلسلے میں تقرم اقوال، کہہ مکرنیاں ، پہیلیاں ، نثر لطیف، خیال، دوہے ، ہولی، بھجن،ڈوہڑا، ملی نغمے، گانے، ہولی، ہائیکوز، تضمینات،قوالی ، لوری،اردو ماہیا، دوہا، ثلاثی،کافی،غزلیات، نظمیں، کلام فارسی،اپنے وقت کے مشہور اشعار، مشہور مثل، محاورے اور مقولے۔ اور اِس سلسلے میں تقریباً۵۰۰ شعراء کے کلام سے اِنتخاب پیش کیا گیا ہے۔ساتھ ہی۶۳۰ موضوعات پر مختلف شعراء کی منظومات بھی اِس کتاب کی قدر و منزلت میں اِضافہ کرتی ہیں۔
آخر میں اِس گزارش کے ساتھ اپنے قارئین میں اپنے اساتذہ کے اشعار کا تبرک تقسیم کر رہا ہوں، کہ وہ اِس کی حفاظت کری¤باً۵۰۰ شعراء کے کلام سے اِنتخاب پیش کیا گیا ہے۔ساتھ ہی۶۳۰ موضوعات پر مختلف شعراء کی منظومات بھی اِس کتاب کی قدر و منزلت میں اِضافہ کرتی ہیں۔

آخر میں اِس گزارش کے ساتھ اپنے قارئین میں اپنے اساتذہ کے اشعار کا تبرک تقسیم کر رہا ہوں، کہ وہ اِس کی حفاظت کریں:
یہ کس کی لو ہے،اے دلِ مضطر لگی ہوئی
اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی……(داغ)
……
ابھی ترے لبوں پہ ذکرِ فصلِ گل نہیں آیا
مگر اک پھول کھلتے اپنے اندر دیکھ سکتی ہوں……(پروین شاکر)
……
مجھے نہ چھیڑ مرے سوز میں دھواں ہے اب¡:
یہ کس کی لو ہے،اے دلِ مضطر لگی ہوئی
اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی……(داغ)
……
ابھی ترے لبوں پہ ذکرِ فصلِ گل نہیں آیا
مگر اک پھول کھلتے اپنے اندر دیکھ سکتی ہوں……(پروین شاکر)
……
مجھے نہ چھیڑ مرے سوز میں دھواں ہے ابھی
مری رگوں میں جوانی کا خوں رواں ہے ابھی……(ترغیب بلندی)
کب تلک طور پہ دریوزہ گری مثلِ حکیم
اپنی ہستی سے عیاں…… شعلۂ مینائی کر……(علامہ ڈاکٹر سر اِقبال)
……
وہ جب بھی کرتے ہیں، اِس نطق و لب کی بخیہ گری
فضا میں…… اور…… بھی نغمے بکھرنے لگتے ہیں……(فیض احمد فیض)
……
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں…… تو چرچا نہیں ہوتا……(اکبر اِلہ آبادی)
……
شاید…… اِسی کا نام محبت ہے…… شیفتہ
اک آگ ھی
مری رگوں میں جوانی کا خوں رواں ہے ابھی……(ترغیب بلندی)
کب تلک طور پہ دریوزہ گری مثلِ حکیم
اپنی ہستی سے عیاں…… شعلۂ مینائی کر……(علامہ ڈاکٹر سر اِقبال)
……
وہ جب بھی کرتے ہیں، اِس نطق و لب کی بخیہ گری
فضا میں…… اور…… بھی نغمے بکھرنے لگتے ہیں……(فیض احمد فیض)
……
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں…… تو چرچا نہیں ہوتا……(اکبر اِلہ آبادی)
……
شاید…… اِسی کا نام محبت ہے…… شیفتہ
اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی ……(شیفتہ)
……
تم سے اب مل کے تعجب ہے کہ عرصہ اتنا
آج تک تیری جدائی کا یہ کیوں کر گزرا……(حسرت موہانی)
……
وابستہ میری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں
اچھا کیا ……جو مجھ کو…… فراموش کر دیا……(ماہر سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی ……(شیفتہ)
……
تم سے اب مل کے تعجب ہے کہ عرصہ اتنا
آج تک تیری جدائی کا یہ کیوں کر گزرا……(حسرت موہانی)
……
وابستہ میری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں
اچھا کیا ……جو مجھ کو…… فراموش کر دیا……(ماہر القادری)
……
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
شرم…… تم کو مگر ……نہیں آتی……(غالب)
’’سرمایہ شعراء‘‘میں انتخابِ کلام شعراء سے ہمارے مضمون کے لیے کچھ شعروں کے انتخاب کی دُشواری کا یہ عالم ہے کہ ہم کو ترغیب بلند صاحب کی محنتوں کی عظمت کا اندازہ کرنیالقادری)
……
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
شرم…… تم کو مگر ……نہیں آتی……(غالب)

’’سرمایہ شعراء‘‘میں انتخابِ کلام شعراء سے ہمارے مضمون کے لیے کچھ شعروں کے انتخاب کی دُشواری کا یہ عالم ہے کہ ہم کو ترغیب بلند صاحب کی محنتوں کی عظمت کا اندازہ کرنے میں کچھ مشکل نہیں ہوئی۔

ابن حسن پرنٹنگ پریس ، کراچی اورمکتبہ سخنور کراچی کے زیر اہتمام، اِس کتاب کو ہیری اکیڈمی کوپن ہیگن، ڈنمارک نے شائع کیاہے، اوراِس کی قیمت ۱۹۹۸ء میں ایک سو گراؤنْ؍۱۵ ڈالر؍۵ پونڈ؍۵۰۰ روپے تھی، جو ترغیب بلند صاحب کے اِس دعویٰ پر مہرِ میں کچھ مشکل نہیں ہوئی۔

ابن حسن پرنٹنگ پریس ، کراچی اورمکتبہ سخنور کراچی کے زیر اہتمام، اِس کتاب کو ہیری اکیڈمی کوپن ہیگن، ڈنمارک نے شائع کیاگیاہے، اوراِس کی قیمت ۱۹۹۸ء میں ایک سو گراؤنْ؍۱۵ ڈالر؍۵ پونڈ؍۵۰۰ روپے تھی، جو ترغیب بلند صاحب کے دعویٰ پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہے کہ اُنہوں نے اِسے کسی مالی منفعت کے لیے شائع نہیں کیا ہے۔

نیک خواہشات کے ساتھ دعاؤں کا نذرانہ پیش ہے کہ اﷲ تعالےٰ اُردو کے مردِ مجاہد کی عمر میں برکت عطا فرمائے۔آمین۔
Azeez Belgaumi
About the Author: Azeez Belgaumi Read More Articles by Azeez Belgaumi: 77 Articles with 83282 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.