حالیہ انتخابات کے بعد قائم ہونے والی قومی اور صوبائی
حکومتوں ، خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کی مرکزی حکومت سے عوام الناس کی بہت
زیادہ امیدیں اور توقعات وابستہ تھیں ۔ مگر موجودہ صورتحال یہ ہے کہ حکومت
کو ایک جانب تو فوری طور پر عوامی مسائل کے حل میں ناکامی پر عوام کی تنقید
کا سامنا ہے۔ دوسری طرف پی سی بی اور پی آئی اے میں متنازعہ تعیناتیوں اور
مشیروں وزیروں کے تقرر جیسے دیگر معاملات پر میڈیا اور عدلیہ کی گرفت درپیش
ہے۔ حکومتوں کی ناقص کارکردگی اور غلط کاریوں پر قابل جواز تنقید اور گرفت
ضرور کی جانی چاہیے تاکہ اصلاح احوال کی صورت نکلے۔ مگر انصاف کا تقاضا ہے
کہ اگر قابل تعریف معاملات کی تحسین سے اجتناب کیاجاتا ہے تو کم از کم بلا
جواز تنقید سے بھی گریز کیا جائے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے مخصوص حلقوں کی جانب
سے بہ تکرار یہ کہا جا رہا ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال نوے کی دہائی سے
مماثل ہے اور مسلم لیگ (ن) اسی دور کا طرز سیاست اپنائے ہوئے ہے۔ درحقیقت
نوے کی دہائی مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مابین بد ترین سیاسی
چپقلش ، محاذ آرائی اور عدم برداشت کا مظہر تھی ۔ اور دونوں جماعتوں کا
منتہائے مقصود فقط حصول اقتدار ہو ا کرتا تھا۔ جبکہ موجودہ صورتحال قدرے
مختلف ہے۔
مرکزی حکومت کی کارکردگی اور اہداف و مقاصد کے حصول کی منصوبہ بندی پر
تنقید بجا، مگرکچھ انتہائی اہم قومی معاملات پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے جس
بالغ النظری اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا گیا اسے کھلے دل سے تسلیم کیا
جانا چاہیے۔ مسلم لیگ ن اپنی اکثریت اور آزاد اراکین کی شمولیت سے بلوچستان
میں با آسانی حکومت بنا سکتی تھی مگر بلوچستان کی سنگین صورتحال اور بلوچ
عوام کے احساس محرومی کے تناظر میں ، وزارت اعلی اور گورنر کے عہدے کی
قربانی دے کر قابل تحسین روایت ڈالی گئی۔ حالانکہ مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے
عہدیداران اور اراکین حکومت سازی پر مصر تھے۔ مگر میاں نواز شریف نے اہم
اراکین کی خفگی مول لے کر یہ فیصلہ کیا۔ ہمارے ہاں رائج سیاست میں اس طرح
کی مثال کہا ں ملتی ہے۔ ماضی قریب پر ہی نگاہ کیجیے، 2008 کے انتخابات میں
مسلم لیگ (ق) کو بلوچستان میں اکثریت حاصل تھی مگر مٹھی بھر اراکین اسمبلی
کی حامل پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی مرکزی حکومت کے زور پر ق لیگ کی
اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا اور بلوچستان میں اپنی حکومت قائم کی۔
خیبر پختونخواہ کے معاملہ پر بھی مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مثبت طرز عمل
اپنایا گیا۔گرچہ پاکستان تحریک انصاف وہاں پر اکثریت کی حامل جماعت بن کر
ابھری ۔مگر وہ تن تنہا حکومت سازی کے قابل نہیں تھی ۔ ایک تہائی کی حامل پی
ٹی آئی کے مقابلہ پر جی ۔ یو ۔ آئی ( ایف) ، شیر پاؤ، جماعت اسلامی ، مسلم
لیگ (ن) اور آزاد اراکین پر مشتمل دو تہائی اکثریت موجود تھی ۔ وفاق میں
مسلم لیگ ن کی مضبوط پو زیشن دیکھتے ہوئے بیشتر جماعتیں اور آزاد اراکین
خود مسلم لیگ (ن) سے رابطہ کر چکے تھے۔ مولانا فضل الرحمان تو آخری لمحات
تک نواز شریف کی رضا مندی کے لیے متحرک اور ملتجی رہے ۔ مگر میاں صاحب نے
پی ٹی آئی کا مینڈیٹ تسلیم کرتے ہوئے اسے حکومت سازی کا موقع فراہم کیا۔
گزشتہ ماہ آزاد کشمیر میں پی پی پی حکومت کے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم
اعتماد پیش ہوئی تو وزیر اعظم نواز شریف نے پارٹی اراکین کو اس تحریک میں
حصہ لینے سے روک دیا اور آزاد کشمیر کی حکومت کو گرنے سے بچایا۔اسکے برعکس
ماضی میں بر سر اقتدار جماعتوں کی جانب سے آزاد کشمیر حکومت پر شب خون
مارنے کی روایت رہی ہے۔ بالکل اسی طرح مرکز کی جانب سے توانائی پالیسی کو
تمام صوبوں کے لیے قابل قبول بنانے کے لیے مشترکہ مفادات کونسل میں زیر بحث
لا کر اسے قومی پالیسی کا رنگ دیا گیا۔ ہفتہ عشرہ قبل ڈیرہ اسماعیل خان جیل
میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعہ پر نہ صرف مرکزی حکومت نے صوبائی حکومت
کوموردالزام ٹہرا کر سیاست بازی سے گریز کیا بلکہ وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ
خیبر پختونخواہ سے ملاقات کر کے انہیں ہر ممکن تعاون اور مدد کی یقین دہانی
بھی کروائی۔ سعودی عرب روانگی سے قبل وزیر اعظم نواز شریف کراچی پہنچے تو
ایم کیو ایم کے گورنر اور پی پی پی کے وزیر اعلیٰ نے مثبت طرز عمل اختیار
کرتے ہوئے انہیں ہوائی اڈے پر خوش آمدید کہا۔ جوابی خیر سگالی کے طور پر
وزیر اعظم نے میڈیا کے سامنے سندھ میں گورنر راج کے نفاذ بارے افواہوں کی
تردید کی اور گڈانی کے دورہ پر گورنر اور وزیر اعلیٰ کو ہمراہ لے کر گئے۔
پاکستان کی تاریخ سے معمولی آگاہی رکھنے والا بھی بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ
نوے کی دہائی کی سیاست ہرگز نہیں ہے ۔ مزید براں میاں نواز شریف کی یہ
سیاسی’’ مصالحت ‘‘زرداری صاحب کی’’ مفاہمت ‘‘سے بھی یکسر مختلف ہے۔ زرداری
صاحب تو فقط پانچ سال پورے کرنے اور عددی اکثریت کو برقرار رکھنے پر مجبور
، دستر خوانی قبیلے کو شامل اقتدار کیے رہے۔ مگر (ن) لیگ کو حکومت قائم
رکھنے کے لیے کسی عددی بیساکھی کی محتاجی نہیں۔ تمام تر نااہلی اور کرپشن
سے قطع نظر، پی پی پی حکومت نے گزشتہ دور میں بہت سے معاملات پر صبروتحمل
کا مظاہرہ کیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر صدارتی انتخابات جیسے ملکی وقار کے
حامل مسئلہ پر بھی مثبت طرز عمل اپنایا جاتا ۔ پارلیمنٹ اور میڈیا میں مسلم
لیگ (ن) کی گرفت کی جاتی، مگر بائیکاٹ جیسے غیرجمہوری طرز عمل سے گریز کیا
جاتا۔یہی سوچ لیا جاتا کہ 2008 کے صدارتی انتخابات میں (ن) لیگ نے بھی توبی
اے کی ڈگری کے معاملہ پر صرف نظر کر کے زرداری صاحب کی راہ ہموار کی تھی۔
کچھ عرصہ قبل مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ایے۔پی ۔سی کے انعقاد کی تاریخ فقط
عمران خان کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے آگے بڑھائی گئی ۔شنید ہے کہ
خان صاحب کی طرف سے وزیر اعظم اور آرمی چیف سے علیحدہ ملاقات کے مطالبہ پر
بھی حکومت نے رضا مندی ظاہر کی ہے۔اگرحکمران جماعت عمران خان کی کسی قدر نا
قابل جواز اور مینڈیٹ سے بالا فرمائش پر لچک دکھاسکتی ہے تو صدارتی
انتخابات کے معاملہ کو بھی افہام و تفہیم اور باہم رضا مندی سے حل کیا جا
سکتا تھا۔ من پسندصدارتی امیدوار کی نامزدگی (ن) لیگ کا استحقاق سہی مگر
انعقاد کی تاریخ کی قبولیت کے لیے سعی کی جانی چاہیے تھی۔ اگر (ن) لیگ
مفاہمانہ اور حکیمانہ طرز عمل اختیار کرتی تو صدارتی انتخابات زیادہ معتبر
ٹھہرتے ۔ الیکشن کمیشنرکا استعفیٰ اور عمران خان کا توہین عدالت کا معاملہ
سامنے آتا اور نہ ہی مختلف حلقوں کی جانب سے عدلیہ کے وقار اور اعتبار کو
ٹھیس پہنچتی۔ ملک کی سنگین صورتحال کے تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے 2008
کے انتخابات سے شروع ہونے والے جمہوری عمل کو قدم بہ قدم آگے بڑھنے دیا
جائے ۔ تمام اداروں خاص طور پر سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ تصادم ہٹ دھرمی
اور محاذ آرائی سے گریز کی راہ اپناتے ہوئے حکمت ، تدبر اور تحمل کا مظاہرہ
کریں کیونکہ یہی رویہ جمہوری نظام کی بقاء اور ملکی استحکام کا ضامن ہے۔ |