کتنی حسرتیں تھیں،کتنے ارمان تھے اور ان کے لئے کتنے
سالوں سے کچھ لوگ دن رات تڑپ رہے تھے…… اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کر رہے
تھے کہ پاکستان بھارت ایک ہو جائیں گے۔ ہندو مسلم کی تفریق مٹ جائے۔ سرحد
بے معنی ہو جائے…… امن کی آشا کا راج ہو جائے اور پھر اس کے بعد وہ جو
چاہیں گے، کریں گے…… کتنے سال گزرے، پاکستان کے کتنے شہروں نے ایسے کتنے
رنگا رنگ وفود دیکھے…… واہگہ پر کتنے ناچ گانے اور تماشے ہوئے اور کتنے
نعرے لگے۔ دونوں اطراف کے طاقتور میڈیا گروپوں نے کیا کچھ نہ کیا، دنیا کی
منہ زور طاقتیں بھی میدان میں زور آزمائی میں مصروف تھیں کہ کفر و اسلام کو
یکجا کر دیا جائے ان کے راستے کی بے شمار دیواریں ڈھے جائیں گی…… اس سب کا
ذکر کرنے بیٹھیں تو شاید کتنے دفتر کم پڑ جائیں لیکن ایک آواز، ایک نعرے
ایک جذبے، ایک جنون نے وہ سب کچھ ملیا میٹ کر دیا۔
مشرقی پاکستان المعروف بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں پاکستان اوربھارت
کے درمیان کھیلے گئے کرکٹ میچ کے دوران جہاں سٹیڈیم میں سینکڑوں ’’نامعلوم‘‘
لوگ پاکستان کی حمایت میں نعرے لگانے کیلئے موجود تھے تو وہیں بھارت کی
شکست میں مقبوضہ کشمیر ہی میں نہیں، بھارت کے کئی شہروں اور علاقوں میں
خوشی کا اظہار ہو رہا تھا۔
بھارت کے شہر میرٹھ میں قائم سوامی وویک آنند سبھا یونیورسٹی کے ہاسٹل میں
میچ کا تماشا دیکھنے کا سلسلہ جاری تھا۔ بھارت کے خلاف پاکستان کی جیت پر
کشمیری طلباء نے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے بلند کئے تو ہندو ان پر پل
پڑے اور ان کی وہیں مارپیٹ شروع کر دی۔ معاملہ یونیورسٹی انتظامیہ تک پہنچا
تو انتظامیہ نے صرف 10منٹ کے اندر اندر تمام کشمیری مسلم طلباء کو سامان
باندھ کر یونیورسٹی ہاسٹل چھوڑ کر گھر جانے کا حکم دیا۔ 10 منٹ میں تو یہ
سب ممکن نہ تھا، سو معمولی تاخیر پر مزید مارپیٹ اور پھر سامان اٹھا کر
باہر پھینک دیا گیا اور پھر ان سب کو جموں جانے والی ٹرین پر جبراً ٹھونس
کر بھوکا پیاسا چڑھا دیا گیا تو ساتھ ہی ان سب پر وطن سے غداری کے مقدمات
بھی درج کر لئے گئے۔
معاملہ دنیا بھر میں پہنچا تو ہر جگہ اگلی سپر پاور، ویٹویاور سمیت کئی
ناقابل تسخیر خواب دیکھنے والے بھارت کی لعن طعن شروع ہو گئی۔ مقبوضہ کشمیر،
پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کشمیریوں اور ان کے ہمدردوں نے مظاہرے شروع
کئے تو بھارت نے پہلے غداری کے مقدمات واپس لینے کا اعلان کیا تو دوسری طرف
طلباء کو دوبارہ تعلیم جاری رکھنے کی دعوت دے دی۔ پاکستان اور بھارت کو ایک
کرنے کے خواب دیکھ کر اپنا سب کچھ اس راہ میں لٹانے والوں نے پہلے پہل تو
پوری کوشش کی یہ معاملہ دب ہی جائے اور دنیا کو اس کی کوئی خبر ہی نہ مل
پائے، لیکن جب راکھ سے نکلی چنگاری شعلہ اور شرارہ بنی تو معاملہ ان کے
ہاتھ سے نکل گیا اور ایسا سوچنے والوں کو سوائے ذلت کے اور کچھ ہاتھ نہ آیا۔
ابھی اس سب کی دھول بیٹھی بھی نہ تھی کہ اترپردیش کے علاقے گریٹر نوئیڈا کی
ایک پرائیویٹ یونیورسٹی نے اسی ’’جرم‘‘ کی پاداش میں چھ مسلم طلباء کو
یونیورسٹی سے نکال دیا کہ وہ بھارت میں رہ کر ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے
کیسے لگاتے ہیں؟خبر ہے کہ اب میرٹھ یونیورسٹی کے چانسلر کشمیری طلبا ء کو
منانے سرینگر آنے والے ہیں۔
ابھی یہ طوفان بھی تھما نہ تھا کہ 8 مارچ کو بھارت سے اگلی خبر آئی کہ
اترپردیش میں گزشتہ سال ماہ ستمبر کے دوران ہونے والے انتہائی خوفناک مسلم
کش فسادات کے بارے بھارت نے ایک کمال قدم اٹھایا ہے۔ ابھی تک سینکڑوں
مسلمانوں کو قتل اور ان کے پڑوس، گھر اور مساجد پھونکنے والے ہندو تو
گرفتار نہیں ہوئے لیکن بھارت نے الٹا انہیں لٹے پٹے مسلمانوں پر مقدمات بنا
دیئے ہیں کہ سارا فساد مسلمانوں نے شروع کر دیا تھا (تاکہ ان کا قتل عام،
عزتوں کا کھلواڑ اور گھروں کا جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار ہو سکے) اسی
اترپردیش کے کئی علاقوں کے مسلمانوں نے نزدیک آئے بھارتی انتخابات کے
بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے کیونکہ مسلمانوں کے سب سے بڑے قاتل اور بھارت
کے متوقع وزیراعظم نریندر مودی نے مظفر نگر کے فساد میں بنیادی کردار ادا
کرنے والے دو سیاسی رہنماؤں سریش سنگھ رانا اور سنگیت سنگھ کو آگرہ کے جلسے
میں خصوصی طور پر مدعو کیا اور انہیں خصوصی پروٹوکول بھی دیا۔ پاکستان کو
بھارت کے ساتھ ایک کرنے والے کچھ بھی کریں ان کے یہ خواب محض چھچھڑے ہی ہو
سکتے ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ کیوں ان کے راستے میں تو اصل رکاوٹ ان کے
پیارے اور ان کی آنکھوں کے تارے وہ ہندو ہیں اور راستے کا سب سے بھاری پتھر
تو کہ جن کے مندروں کے چراغ وہ یہاں اپنے میڈیا میں روشن کرتے ہیں۔ بھارت
میں انہی مندروں کا علمبردار ایک شخص اشوک سنگھل بھی ہے۔ اس نے تو ایسے
خوابوں کی من چاہی تعبیریں دیکھنے کے لئے پاگل ہونے والوں کو گزشتہ دنوں
پاگل کر کے رکھ دیا ہے کہ ہر ہندو جوڑا کم از کم پانچ بچے پیدا کرے کیونکہ
ملک میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔
اگر اقلیتی آبادی میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہے تو ایک دن ایسا آئے گا
کہ ہندوستان میں ہندو اقلیت میں اور مسلمان اکثریت میں آ جائیں گے۔ اشوک
سنگھل جس نے اپنی زندگی کے 80 سال مکمل کر لئے ہیں، کو اس بات کا بھی خوف
کھائے جا رہا ہے کہ ہندو اپنا مذہب ترک کر کے مسلمان اور عیسائی بنتے جا
رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بھی مسلم اور عیسائی اقلیتوں کی آبادی میں اضافہ
ہو رہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ تبدیلی مذہب پر پابندی عائد کی جائے۔ اشوک
سنگھل کو مسلمانوں سے اس قدر خوف ہے کہ اپنی زندگی کے آخری مراحل میں اسے
ہندوستان میں ہر طرف اسلام اور مسلمان نظر آ رہے ہیں۔ اسی لئے اس کا کہنا
ہے کہ ہندوستان کو اسلامیانے سے اگر کوئی روک سکتا ہے تو وہ نریندر مودی ہی
ہیں۔ وہ وزیراعظم بن جائیں تو ہندوؤں کے کئی مسائل دور ہو جائیں گے۔ اشوک
سنگھل بار بار ہندوؤں کو آبادی میں اضافہ کا مشورہ دیتے ہوئے اس بات کا
رونا رو رہا ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی میں بے تحاشا اضافہ جاری ہے۔
اگر دیکھا جائے تو بھارت کی آبادی میں مسلمانوں کی آبادی کم از کم 25 کروڑ
تو لازم ہو گی ،اس طرح ہندوؤں کی آبادی میں بھی تو اضافہ ہو رہا ہے ہندوؤں
سے محبت میں پاگل ہونے والے آخر اس اشوک سنگھل کو مشورہ کیوں نہیں دیتے کہ
ملک کے ہندو دلتوں بالخصوص تعلیم یافتہ دلت برہمن سنگھ پریوار کو ہندوؤں کے
مسلمان یا عیسائی بننے پر تشویش ہے تو پھروہ برہمن لڑکوں سے دلت و دیگر نیچ
ہندو طبقات کی لڑکیوں سے اجتماعی شادیوں کا اہتمام کیوں نہیں کرتے؟ آر ایس
ایس،بی جے پی،وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور اسی طرح کی دیگر تنظیموں کے
قائدین اپنی بیٹیوں کو اپنی ہی قراد دی ہوئی گھٹیادلت نوجوانوں کی دلہنیں
کیوں نہیں بناتے؟ اس کا جواب اشوک سنگھل دے سکتا ہے اور نہ ہی سنگھ پریوار،
کیونکہ ہندوؤں کے دیوانوں کے ملک بھارت کے کسی مندر میں ایک دلت کا کتا بھی
چلا جائے یا پھر برہمن کے کتے کو کوئی دلت چھو لے تو ایک ہنگامہ کھڑا ہو
جاتا ہے۔ بات قتل و غارت گری تک پہنچ جاتی ہے۔ اس طرح بہت سے واقعات منظر
عام پر آ چکے ہیں۔
کشمیرکا کونا کونا آج بھی پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج رہا ہے اور اب
یہ بیداری بہت تیزی سے بھارت کے اطراف و اکناف میں پیدا ہو رہی ہے۔ بھارت
میں آخر کیوں بیشمار اعلیٰ توتعلیم یافتہ نوجوان جیلوں کی سلاخوں کتے پیچھے
ہیں؟ان کا جرم بی آزادی کا نعرہ لگانا ہی تو ہے۔ویسے بھارت پاکستان کو ایک
کرنے کے لئے اپنی زندگیاں کھپا دینے والوں کے لئے یہ کس قدر عبرتناک مقام
ہے کہ وہ اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھارت کے حق میں یہاں آواز بلند کرنے کے
بارے اس کا عشر عشیر بھی نہیں سوچ سکتے جو کچھ کشمیری اور بھارتی مسلمان اس
سب کے بغیر کر رہے ہیں۔پاکستان کو بھارت کے ساتھ ایک کرنے والوں کیلئے یہ
سب کچھ اس قدر بھیانک ہے کہ ان کی نیندیں حرام ہو کر رہ جائیں اور وہ جائیں
تو کہاں جائیں کہاں؟
پاکستان بھارت کو ایک کرنے کا خواب دیکھنے والوں کے لئے اسلام اور پھر یہی
بنیادی نظریہ پاکستان ایک ایسی حقیقت ہے جسے خلیج بنگال میں ڈبونے کا دعویٰ
تو کیا گیا لیکن اس خلیج بنگال سے لے کر برصغیر کی آخری سرحد تک ہر روز
پہلے سے کہیں زیادہ زندہ و تابندہ ہے۔
|