عام انتخابات کابگل بج چکاہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں سام،
دام ، ڈند اور بھید کے ساتھ میدان عمل میں کود چکی ہیں۔ ووٹروں کو اپنی طرف
راغب کرنے کیلئے کوئی سیاسی پارٹیاں کوئی کسر نہیں اٹھارکھ رہی ہیں۔ تمام
انتخابی حربے استعمال کرنے کی تیاری ہوچکی ہے۔ انتخابات میں کس کو اور کہاں
استعمال کرنا ہے یہ بھی طے کرلیا گیا ہے۔ دلالوں کی ٹولی ، درباری علما،
بیان بازی کے شہسوار، ہر انتخابات کے موقع پر مسلم ووٹ اپنی مٹھی میں ہونے
کا دعوی کرنے والے امام ، مسلم ووٹوں کو تقسیم کرنے والے مشائخ غرض کہ وہ
تمام طبقے جو انتخابی برسات میں مینڈک کی طرح ٹر ٹر کرتے ہیں وہ میدان
میںآچکے ہیں۔ اس وقت کوئی شک و شبہ میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمام
ہندوستانی ووٹروں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ انہیں کسے ووٹ دینا ہے۔ عوامی رجحان
مکمل طور پر سامنے نہیں آیا ہے کہ عوام کی اکثریت کس کے حق میں ووٹ دیں گے
۔ ذہن ہندی ہمیشہ تیز رہا ہے۔ ہندوستانی عوام کی صحیح رائے جاننا انتہائی
مشکل کام ہے۔ بولتے کچھ اور ہیں کرتے کچھ اور ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہاں کوئی
سروے آج تک کامیاب نہیں ہوسکا۔ الیکشن کے موقع پر جتنے عوامی سروے اور
تجزیے پیش کئے جاتے ہیں وہ بیشتر غلط ثابت ہوتے ہیں۔ 2014کے لوک سبھاکے عام
انتخابات کئی معنوں میں اہمیت کے حامل ہیں جہاں ایک طرف پوری دنیا کے سامنے
ہندوستان کو سیکولر شبیہ کے طور پر پیش کرنا ہے وہیں فسطائیت سے مقابلہ بھی
ہے۔ یہ انتخابات فسطائیت بمقابلہ سیکولرزم ہونے کی راہ پر چل پڑے ہیں۔
ہندوستان میں مسلمانوں کے ووٹ لینے کے لئے صرف سیکولرزم کا نعرہ لگایا جاتا
ہے ورنہ یہاں حقیقی معنوں میں سیکولرزم کبھی کہیں پنپ ہی نہیں پایا۔آج تک
عوام کا مزاج سیکولر نہیں ہوسکا اور نہ سیکولرزم کسی نصاب کا حصہ بن سکا جب
کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت اور اشتعال دلانے والی کتابوں کی بھرمار ہے۔ کچھ
اسکول تو کھلم کھلا مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کا درس دیتے نظر آتے ہیں
مگر اس کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں ہوسکی۔ صرف چہرے سیکولر نظر آتے
ہیں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کی نیکر خاکی ہی ہوتی ہے۔ تقریریں خواہ وہ
کچھ بھی کرتے ہوں لیکن اندرون خانہ ان کا نظریہ بھی وہی ہوتا ہے جو فسطائی
چہرہ کا ہے وہ دنیا کو دکھانے کے لئے سیکولر کا نقاب اوڑھ لیتے ہیں تاکہ
اپنے دعوی میں جان ڈال سکیں کہ ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے۔
یہاں جمہوریت مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ حقوق سلب کرنے کے لئے ہے ۔ جمہوریت
کا نقاب یہاں اس لئے لگایا جاتا ہے تاکہ اکثریتی فرقہ میں عہدے کیلئے مار
کاٹ نہ ہو۔ وہ آپس میں عہدہ کی تقسیم کیلئے جمہوریت کی راہ اپنائے ہوئے ہیں۔
اگرایسا نہیں ہوتا تو مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے عہد ہ اور حق ملتا ۔
آئندہ ماہ ہونے والے عام انتخابات کی خاص بات یہی ہے کہ وہ راہل بمقابلہ
مودی ہے۔ جہاں ایک طرف راہل گاندھی کو سیکولرزم کا چہرہ بتایا جاتاہے وہیں
نریندر مودی کو فسطائیت کا چہرہ قرار دیا جاتا ہے۔ 2014 کے عام انتخابات
پوری طرح راہل بنام مودی ہی ہوں گے تاہم عام آدمی پارٹی کے اثر سے انکار
نہیں کیا جاسکتا۔یہ پارٹی دونوں پارٹیوں کا کھیل بگاڑنے کی اہلیت رکھتی ہے۔
اسی حساب سے تمام پارٹیوں نے اپنی تیاری شروع کردی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی
اس وقت پوری طرح مودی کے رنگ میں شرابور ہے۔ سنگھ پریوار مودی کو ایک مسیحا
کی شکل میں دیکھ رہا ہے اور اسے امید ہے کہ مودی پارٹی کی نیا کو ضرور پار
لگائیں گے اس لئے ابھی تک اس نے اپنی ٹیم میں کوئی ردوبدل نہیں کیا ہے۔2014
میں جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی مودی لہر کے دوش پر سوار ہے وہیں کانگریس بھی
برسراقتدار نہیں آئے گی یہ بات کانگریسیوں کو بھی معلوم ہے لیکن اس کے
باوجود مہنگائی دور کرکے عوام کے مشکلات کو دورکرنا ضروری نہیں
سمجھا۔نریندر مودی کے میدان میں کود جانے سے کانگریس اپنے لئے زبردست نفع
کا سودا سمجھ رہی ہے۔ کانگریس اگر سمجھتی ہے کہ مودی کا خوف دکھاکر سیکولر
ووٹوں کو اپنی طرف کھینچ لے گی تویہ اس کی خام خیالی اور احمقوں کی جنت میں
رہنے کے مترادف ہے۔مسلمانوں کو زخم دینے کے علاوہ کانگریس نے کوئی ایسا
کوئی کام نہیں کیا ہے جس کی بنیاد پر وہ مسلمانوں سے ووٹ دینے کا مطالبہ
کرسکے۔
دہلی میں چیف الیکشن کمشنر وی ایس سمپت نے اعلان کیا کہ 16 ویں لوک سبھا کے
انتخابات کے ساتھ آندھرا پردیش ، اوڈیشا اور سکم کے اسمبلی انتخابات بھی
ہوں گے۔ اس بار کے انتخابات میں 81 کروڑ سے زیادہ ووٹر ہیں ۔گزشتہ عام
انتخابات کے مقابلے اس بار ووٹروں کی تعداد 10 کروڑ سے زائد ہے ۔ہندوستان
کے پہلے عام انتخابات میں 17.6 کروڑ ووٹر تھے ۔اس عام انتخابات کے لئے ملک
بھر میں نو لاکھ تیس ہزار پولنگ بوتھ بنائے جائیں گے جبکہ گزشتہ عام
انتخابات میں ان کی تعداد آٹھ لاکھ تیس ہزار تھی ۔ انتخابات آزادانہ اور
منصفانہ ہوں ، اس کے لئے کئی اقدامات کئے گئے ہیں۔ حکمران کانگریس اور حزب
اختلاف کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے علاوہ کئی دیگر علاقائی پارٹیاں بھی
اپنی قسمت آزمائیں گی۔ پارلیمنٹ میں 1989 کے بعد اب تک کسی بھی ایک جماعت
کو اکثریت نہیں ملی اور اس کے بعد کی ہر حکومت چھوٹے ، علاقائی جماعتوں کے
تعاون سے ہی بنی ہے ۔2014 کے انتخابات میں ایسا ہی کچھ ہونے والا ہے۔ مودی
متنازعہ لیڈر ہیں اور اہم اپوزیشن جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے وزیر
اعظم کے عہدے کے امیدوار ہیں ۔تجزیہ کے مطابق سست پڑتی معیشت ، بڑھتی
مہنگائی، بدعنوانی کے کئی معاملے اور ہر طرح سے کمزور نظر آرہی حکومت کی
وجہ سے ان انتخابات میں کانگریس پارٹی کی سیٹیں کم ہونے کا مکمل اندیشہ ہے
انتخابات سے پہلے کے سروے میں کانگریس کو 100 سے بھی کم سیٹیں ملنے کا
امکان بتایا جا رہا ہے کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ دو بار مسلسل اقتدار میں رہ
چکی حکومت نے کئی بڑے قانون بنائے جس میں معلومات کا حق ، خوراک اور تعلیم
کا حق جیسے شامل ہیں لیکن حکومت معیشت کی دقتوں اور بدعنوانی کے معاملات سے
صحیح طریقہ سے نہیں نمٹ سکی اور اسی وجہ اس کے اچھے کاموں پر پانی پھر گیا
۔تجزیہ کار کے مطابق منموہن سنگھ کی قیادت میں کانگریس ایک بغیر ریڑھ کے
جہاز کی طرح نظر آئی ۔راہل گاندھی کو کانگریس کی تشہیر کی کمان سونپنے کا
فیصلہ بھی بہت دیر سے کیاگیا ۔ ادھر دوسری طرف ، بی جے پی کے نریندر مودی
کا گراف مسلسل اضافہ ہی ہے حالیہ انتخابات میں بی جے پی نے پانچ ریاستوں
میں سے تین میں اقتدار ہے اور دہلی میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھر کر
سامنے آئی ۔قوم پرستی اور گجرات کی اقتصادی خوشحالی کو پورے ملک میں نافذ
کرنے کے وعدوں کے ساتھ مودی کے حق میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نظرآرہی
ہے ۔اس کے باوجود سیاسی داؤ پیچ کہہ لیجئے یا ستم ظریفی کہ مودی بی جے پی
کے لئے آنے والے دنوں میں فائدہ مند اور نقصان دہ دونوں ثابت ہو سکتے ہیں ۔
مودی کے حامی انہیں متاثر کن اور ہوشیار رہنما بتاتے ہیں لیکن ان کے ناقدین
، جن کی تعداد بھی بہت ہے ، کہتے ہیں کہ مودی نے گجرات میں 2002 میں مسلم
فسادات کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کیا ۔ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 13
فیصد سے زائدہے اور لگتا نہیں ہے کہ وہ مودی کو ووٹ دینے والے ہیں اس
درمیان بدعنوانی کے خلاف کھڑی ہوئی عام آدمی پارٹی نے دہلی کے انتخابات میں
زبردست کامیابی حاصل کی ہے جو مودی کے لئے کچھ سیٹوں پر نقصان دہ ثابت ہو
سکتی ہے ۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ جنگ جھکا ؤہو سکتی ہے جس میں بی جے پی کو
بھی چھوٹے اور علاقائی جماعتوں کا ساتھ لینا ہوگا اور حکومت بنانے کے لئے
اتحاد کرنا ہوگا اور یہ ابھی کہنا مشکل ہے کہ علاقائی پارٹی ، جو اصل طور
پر مقبول رہنماؤں کی طرف سے چلائے جاتے ہیں ، مودی کو وزیر اعظم کے طور پر
قبول کریں گے یا نہیں ۔یہ شاید اس بات پر منحصر کرے گا کہ مودی کی قیادت
میں بی جے پی کو کتنی سیٹیں ملتی ہیں ۔ان سب کے پیش نظر یہ ہندوستان کے سب
سے دلچسپ انتخابات میں سے ایک ہونے والا ہے۔ایک تجزیہ کے مطابق نئی نسل
مودی کے بارے میں مختلف رائے رکھتی ہے۔ پہلی بار مودی کے نام کی بحث دیہی
اور قصبوں میں میں شروع ہوئی ہے۔ اس کا فائدہ مودی کو کتنا ملتا ہے یہ تو
الیکشن کے بعد ہی پتہ چلے گا۔
بی جے پی دلتوں اور کمزور طبقوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے تمام طرح کی
کوششوں میں مصروف ہے۔ اس کے لئے انہوں نے ادت راج اور رام ولاس پاسوان
کوساتھ ملایا۔ ادت راج فرقہ پرستی اور برہمن ازم کے سخت مخالف رہے ہیں۔
انہوں نے برہمن ازم اور منوواد کا مقابلہ کرنے کے لئے جسٹس پارٹی کی بنیاد
رکھی تھی۔ لیکن ان تمام نظریات کو کوڑے دان میں ڈالتے ہوئے بی جے پی میں
شامل ہوگئے۔ رام ولاس پاسوان کو ساتھ ملانا بی جے پی کے لئے فائدہ مند ثابت
ہو نہ ہو رام ولاس پاسوان کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ وہ فرقہ پرستوں کے
خلاف ہمیشہ میدان میں رہے ہیں۔ اسی فرقہ پرستی سے کنارہ کشی اختیار کرتے
ہوئے 2002میں انہوں نے قومی جمہوری اتحاد حکومت سے استعفی دے کر اپنی نئی
پارٹی بنائی تھی۔ مودی کے خلاف محاذ کھولا تھا۔ انہوں نے سیاست میں کافی
طویل سفر طے کیا ہے گزشتہ تین دہائیوں میں وہ قریب تمام حکومتوں میں وزیر
رہے ہیں لیکن اب بھی وہ الفاظ کے ساتھ کھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ ابھی
حال تک بی جے پی کو بھارت جلاؤ پارٹی کہتے آرے تھے وہ کہتے تھے کہ بی جے پی
تو ذریعے بھر ہے، جبکہ آر ایس ایس ٹرانسمیٹر ہے اب انہوں نے بی جے پی کے
ساتھ اتحاد کر لیا ہے، تو وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بی جے پی دراصل بھارت جگاؤ
پارٹی ہے گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں وہ خود انتخاب ہار گئے تھے اور ان کی
پارٹی ایک بھی سیٹ جیت حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ان
کی پارٹی اکیلے لوک سبھا الیکشن لڑ کرنے کی حالت میں نہیں تھی۔ اس کے علاوہ
حال ہی میں سماج وادی پارٹی ، جنتا دل ( یو ) ، سی پی آئی ایم جیسے 11
صوبائی جماعتوں نے ایک تیسرے محاذ کی تشکیل کی ہے ۔
انا ڈی ایم کے نے تمل ناڈو کی 39نشستیں اور پڈوچیری(پانڈیچیری) کی واحد
پارلیمانی سیٹ سمیت 40پر اپنے امیدوار کھڑے کردئے ہیں۔ انہوں نے کسی سے
اتحاد نہیں کیا ہے۔ وہ نریندر مودی کی اچھی دوست ہیں۔ کئی سیکولر طاقتیں
نریندر مودی کے خلاف میدان میں لیکن جے للتا ان کے خلاف کچھ بھی کہنے سے
گریز کر رہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ الیکشن کے بعد حالات کا جائزہ لینے
کے بعد وہ کسی سے اتحاد کرسکتی ہیں اور مودی کا ہاتھ تھام سکتی ہیں۔ اس کے
علاوہ اگر بی جے پی کی 200کے قریب سیٹں آتی ہیں تو ڈی ایم کے، نوین پٹنائک،
ممتا بنرجی، اوم پرکاش چوٹالہ، تیلگو دیشم پارٹی اور دیگر علاقائی جماعتیں
یہاں تک نتیش کمار بھی این ڈی اے کے ساتھ جاسکتے ہیں۔ ایک ہی پارٹی کے بارے
میں یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ وہ این ڈی اے کا حصہ نہیں بنیں
گے وہ ہے لالو یادو راشٹریہ جنتا دل۔لالو یادو کچھ بھی ہوسکتے ہیں لیکن
فرقہ پرستوں کے اتحادی نہیں ہوسکتے۔ دسمبر 2013 میں دہلی میں شاندار مظاہرہ
کرنے والی عام آدمی پارٹی ( آپ ) بھی لوک سبھا انتخابات میں چھلانگ لگا چکی
ہے۔اس کے انتخابی میدان میں کودنے سے کانگریس اور بی جے پی میں کھلبلی مچ
گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ پارٹی بی جے پی اور کانگریس کے اعداد و
شمار کو بگاڑ سکتی ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ عام آدمی پارٹی کی طرف
عوامی جھکاؤ کا فائدہ کس کو ہوتا ہے۔بی جے پی یا کانگریس کو۔
لوک سبھا کے اس انتخاب میں اس بار بھی فرقہ پرستی بمقابلہ سیکولرازم کا
موضوع حاوی رہے گا۔ جہاں ایک طرف غیر بی جے پی اور سیکولر پارٹیاں (نام
نہاد ہی سہی) فرقہ پرستی کو ملک کے لئے تباہ کن قرار دیکر ہندوستانی عوام
سے فرقہ پرستوں کو شکست دینے کی اپیل کر رہی ہیں وہیں بی جے پی گجرات کی
ترقی کا ماڈل (جھوٹ کا پلندہ) دکھاکر مودی کے حق میں راہ ہموار کررہی ہے۔
اس کے لئے مودی پورے ملک میں بڑی بڑی ریلیاں کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے
مطابق صرف نریندر مودی کی ریلی پر ہی دو ہزار کروڑ روپے سے زائد خرچ ہونے
کی امید ہے۔ پارٹی یہ رقم کوئی عوامی چندے سے خرچ نہیں کررہی ہے بلکہ یہ
کارپوریٹ گھرانے کی دین ہے۔ اگر بالفرض محال نریندر مودی اقتدار میں آتے
ہیں تو نریندر مودی کو سود سمیت یہ رقم لوٹانی ہوگی اور بدعنوانی کا گراف
کتنا بڑھے اس کا صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔ اپریل اور مئی میں نو مراحل
میں ہونے والے 16 ویں عام انتخابات کے نتائج بھی اس سے مختلف نہیں ہوں گے ۔بظاہر
آزادی کے بعد چھ دہائیوں میں ہندوستان میں جمہوری جڑیں مضبوط ہوئی ہیں ۔
تھوڑی افراتفری کے ساتھ سال 1952 میں ہوئے ہندوستان کے پہلے عام انتخابات
میں ہر پارلیمانی علاقے میں 4.67 امیدوار تھے سال 2009 میں ہر پارلیمانی
علاقے میں اوسطا دس امیدوار تھے ۔سال 1952 میں انتخابات جیتنے والی پارٹی
کانگریس اور اس کی سب سے قریب ترین حریف بائیں بازو کی جماعتوں کے درمیان
348 سیٹوں کا فرق تھا - 2009 میں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان کا فرق 90
سیٹوں کا تھا اورموجودہ لوک سبھا میں 39 پارٹیاں ہیں ۔ لوک سبھا کا یہ
انتخاب ہندوستانی عوامی سمیت مسلمانوں کے لئے بھی آزمائش کی گھڑی ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ بی جے پی اس انتخاب میں اپنے ترکش کے تمام تیز آزمارہی ہے۔ یہ
دکھانے کی پوری کوشش کی جارہی ہے نریندر مودی کے علاوہ دوسرا کوئی اس ملک
کا بیڑہ پار نیں کرسکتا۔ مسلمان اور مہنگائی کو نظر انداز کردیا جائے
کانگریس نے گزشتہ دس برسوں میں بہت کچھ کیا ہے اس کے باوجود کانگریس کی
حالت خستہ ہے کیوں کہ ملک کے سامنے ترقی نہیں ہندوتوا سب سے بڑا موضوع ہوتا
ہے۔ مسلمانوں کے سامنے ذات پات، مسلک اورعلاقائیت بالاہوکر بہتر امیدوار
اور سیکولر امیدوار خواہ وہ کسی بھی پارٹی کا ہو منتخب کرنے علاوہ کوئی
چارہ اور متبادل نہیں ہے۔ |