حضرت امام جلال الدین رومیؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں
کہ ایک اﷲ لوک انسان بہت عبادت گزار تھا شیطان نے اسے وسوسہ ڈالا کہ تو اﷲ
اﷲ کرتا رہتا ہے اور اﷲ کی طرف سے لبیک کی آواز ایک بار بھی نہیں آئی یہ
تیری دعاؤں کے ناقبول ہونے کی دلیل ہے اس وسوسے پر اس نے ذکر کرنا چھوڑ دیا
اس پر حضرت خضرؑ اس کے خواب میں آئے اور اس سے پوچھا ذکر کیوں چھوڑ دیا ہے
اس نے کہا کہ میں ذکر کا جواب نہیں سنتا مجھے ڈر ہے کہ گمراہ نہ ہو جاؤں
حضرت خضرؑ نے فرمایا مجھے باری تعالیٰ نے بھیجا ہے کہ تمہارا کثرت سے ذکر
میں مشغول رہنا اﷲ کی طرف سے قبولیت کی دلیل ہے کیا اﷲ نے تجھے اپنے کام پر
نہیں لگا رکھا ہے تیری باتیں تیرے ارادے اور تیرے کام سبھی رب تعالیٰ کا
کرم ہیں۔
قارئین! آج کے کالم کے عنوان کو دیکھ کر آپ یقینا حیران ہو رہے ہونگے کہ
دیوانگی اور جنون کے اس عالم میں آج انصار نامہ کا مصنف جنید انصاری کون سا
نیا پنڈورہ باکس آپ کے سامنے کھولنے والا ہے اور کشمیر کے ساتھ ان تین معزز
اور محترم شخصیات کی وابستگی اور تعلق کی کون سی داستان کس رنگ اور پیرائے
میں آپ کے سامنے بیان کی جائے گی اور اس سب لاف وگزاف کا منطقی نتیجہ کا
کیا اخذ کیا جائے گا۔
قارئین! ہم اپنے ایمان کی روشنی میں یہ سمجھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی رضا
حاصل کرنے کی خاطر اﷲ تعالیٰ کے نیک بندے جو بھی کوششیں اپنی عقل وفہم کے
مطابق دیانتداری کے ساتھ کرتے ہیں رب تعالیٰ کی بارگاہ میں وہ تمام کاوشیں
قبولیت کا شرف حاصل کرتی ہیں اس سلسلہ میں اﷲ تعالیٰ کے ایک برگزیدہ
پیغمبرکے متعلق ایک واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک سادہ لوح
چرواہے کو اپنی بکریوں کے ساتھ گھومتے ہوئے دیکھا جو یہ کہہ رہا تھا کہ اے
میرے رب کاش تومیرے پاس ہوتا میں تیری خدمت کرتا تیرے ہاتھ پیر دباتا، تیری
سیوا کرتا وغیرہ ان پیغمبر نے اس سادہ لوح چرواہے کو بتایا کہ ایسے کلمات
منہ سے نہ نکالے یہ بے ادبی کے زمرے میں آتے ہیں وہ سادہ لوح چرواہا اتنا
ڈرا کہ اس کی آواز بند ہو گئی اس پر ندائے غیبی آئی کہ آپ نے ایک مخلص بندے
کی رب سے ہونے والی عبادت نما گفتگو کو روک دیا اس سلسلے میں ایک شاعر بھی
یہ کہتا ہے کہ
دیر میں تو، حرم میں تو، عرش پہ تو، زمیں پہ تو
جس کی پہنچ جہاں تلک اس کیلئے وہیں پہ تو
قارئین! آج تحریک آزادی کشمیر کے متعلق کچھ گزارشات تحریر کرنے سے پہلے چچا
غالب کے چند اشعار آپ کی نظر کرتے چلیں
اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے
دل ہی تو ہے سیاستِ درباں سے ڈر گیا
میں، اور جاؤں در سے ترے بن صدا کیے!
رکھتا پھروں ہوں خرقہ وسجادہ رہنِ مے
مدت ہوئی ہے دعوتِ آب وہوا کیے
بے صرفہ ہی گزرتی ہے ہو گرچہ عمرِ خضر
حضرت بھی کل کہیں گے کہ ہم کیا کیا کیے
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ او لئیم!
تو نے وہ گنج ہائے گرا نما یہ کیا کیے
کس روز تہمتیں نہ تراشا کیے عدو؟
کس دن ہمارے سرپہ نہ آرے چلا کیے
صحبت میں غیر کی نہ پڑی ہو کہیں یہ خو
دینے لگا ہے بوسے بغیر التجا کیے
ضد کی ہے اور بات مگر خوبُری نہیں
بھولے سے اس نے سینکڑوں وعدے وفا کیے
غالب تمہیں کہو کہ ملے گا جواب کیا؟
مانا کہ تم کہا کیے اور وہ سنا کیے
قارئین! تحریک آزادی کشمیر بھی ایک ایسی داستان عالم بن چکی ہے کہ جس کے
ٹھیکیدار تو کہیں ہیں لیکن صاحب کردار لوگوں کی طرف نظر دوڑائیں تو ایک
اقلیت ہی حق کا پرچم بلند کیے دکھائی دیتی ہے قائداعظم محمد علی جناحؒ بانی
پاکستان اور حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کشمیر کے بارے میں کتنے فکر مند
اور وابستہ تھے اس حوالے سے تاریخ کی سینکڑوں کتابیں گواہی دیتی ہیں علامہ
محمد اقبالؒ، سعادت حسن منٹو، چراغ حسن حسرت، مولانا انور شاہ کاشمیریؒ،
رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس مرحوم ، عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ مرحوم،
قائد ملت چوہدری نور حسین مرحوم، غازی ملت سردار ابراہیم خان مرحوم، خورشید
ملت کے ایچ خورشید مرحوم، سردار فتح خان کریلوی مرحوم، غازی الٰہی بخش
مرحوم،چوہدری صحبت علی مرحوم، غازی عبدالرحمن مرحوم، راجہ حیدر خان مرحوم
سے لے کر زندہ لوگوں میں مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان، سردار سکندر حیات
خان، بیرسٹر سلطان محمود چوہدری، عبدالمجید ملک ، سردار عتیق احمد خان،
راجہ فاروق حیدر خان، سردار یعقوب خان، لارڈ نذیر احمد، علی رضا سید،
چوہدری عبدالمجید سے لے کر مشاہیر کی ایک طویل فہرست ہے جو تحریک آزادی
کشمیر کے حوالے سے کشمیر کے اندر سے اٹھنے والی آوازیں تھیں ہم نے گزشتہ
روز اس حوالے سے آزاد کشمیر کے سب سے پہلے لائیو ویب ٹی وی ’’ کشمیر نیوز
ڈاٹ ٹی وی‘‘کے مقبول ترین پروگرام لائیو ٹاک ود جنید انصاری اینڈ راجہ حبیب
اﷲ خان میں سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان کا ایک تاریخی خصوصی انٹرویو
ریکارڈ کیا اس انٹرویو میں سردار عتیق احمد خان نے آزاد کشمیر کے مسائل کے
حوالے سے بات بھی کی اور تحریک آزادی کشمیر کے تاریخی تناظر میں اپنے
خیالات کھل کر بیان کیے آزاد کشمیر کے ’’میگا پراجیکٹس کے میگا وزیراعظم‘‘
چوہدری عبدالمجید کی مجاور حکومت اور مجاور کابینہ کے اعلیٰ وارفع خیالات
واقدامات اور تین تین میڈیکل کالجز قائم کر کے انہیں بند کروانے کی حرکتوں
پر بھی انہوں نے روشنی ڈالی ۔
سابق وزیراعظم آزاد کشمیر وصدر آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس سردار عتیق
احمد خان نے کہا کہ میں عرصہ دراز سے یہ آواز بلند کر رہا تھا کہ آزاد
کشمیر میں بغیر کسی منصوبہ بندی کے ایسے میڈیکل کالجز کھول دیئے گئے ہیں
جیسے ڈسپنسریاں بھی نہیں کھولی جاتیں پولٹری فارمز کی بلڈنگز کے اندر
میڈیکل کالجز قائم کرنا اعلیٰ درجے کی حماقت اور قوم کے ساتھ بہت بڑا مذاق
ہے میرپور میں پیر علاؤالدین صدیقی نے کثیر سرمایہ خرچ کر کے محی الدین
اسلامک میڈیکل کالج قائم کیا تھا اور موجودہ حکومت نے ایک سازش کے تحت
سیاسی اختلافات کی بنیاد پر اس میڈیکل کالج کے خلاف میڈیا ٹرائل کرنے کے
بعد اس کالج کو بند کرنے کی کوشش کی ہے یہ بہت بڑی زیادتی ہے حکومت آزاد
کشمیر کی ذہنی کیفیت اس طرح کی ہے کہ یہ میڈیکل کالج میں نظام چلانے کے لیے
بندے ہائر کرنے سے پہلے بھی نہیں سوچتے اور فائر کرنے سے پہلے بھی نہیں
سوچتے۔ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور ا ن کی پوری کابینہ کو اس سنگین
معاملے کو حل کرنا چاہیے اور سنجیدگی سے اس پر بات چیت ہونی چاہیے کیونکہ
یہ پوری کشمیری قوم کے مستقبل کا سوال ہے مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان
پیرانہ سالی کے باوجود آج بھی تحریک آزادی کشمیر کے بارے میں فکر مند رہتے
ہیں اور گزشتہ دنوں ہی میرے بیٹے سردار عثمان عتیق نے ان سے پوچھا کہ وہ
ہمیں کیا نصیحت اور وصیت کرتے ہیں تو اس پر مجاہداول سردا ر عبدالقیوم خان
نے انتہائی مضبوط اور ٹھوس آواز میں نصیحت کی ہے کہ تحریک آزادی کشمیر،
پاکستان سے محبت اور بہادر افواج پاکستان سے اپنی کمٹمنٹ کو کبھی متاثر نہ
ہونے دیں میاں نواز شریف وزیراعظم پاکستان کا صرف کشمیری النسل ہونا کافی
نہیں ہے کیونکہ پنڈت جواہر لعل نہرو بھی کشمیری ہی تھے میاں نواز شریف
وزیراعظم پاکستان کشمیری ہونے کے ساتھ ساتھ کشمیر کے ساتھ اپنی وابستگی،
ویژن، اداروں، افواج پاکستان ، عدلیہ، مقننہ اور میڈیا کے ساتھ بہتر تال
میل پیدا کرنے کی کوشش کریں اور ثابت کریں کہ وہ کشمیری النسل ہونے کے ساتھ
ساتھ قائداعظم کے ویژن کے مطابق کشمیر کو آزاد کروانا چاہتے ہیں۔ سردار
عتیق احمد خان نے کہا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اپنے سیاسی جانشینوں
کو یہ نصیحت اور وصیت کی تھی کہ مسلم کانفرنس ہی آزاد کشمیر میں مسلم لیگ
کی نمائندگی کر رہی ہے اور آزاد کشمیر میں مسلم لیگ قائم کرنے کی کوئی
ضرورت نہیں لیکن اقتدار کے پجاریوں اور مفاد پرستوں نے تاریخی اہمیت کی
حامل سواد اعظم جماعت آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کو توڑ کر آزاد کشمیر
مسلم لیگ ن قائم کی اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ میاں نواز شریف
کشمیری النسل ہونے کے باوجود تحریک آزادی کشمیر کی مضبوطی کا باعث بنے ہیں
یا ان کی وجہ سے تحریک آزادی کشمیر کو نقصان پہنچا ہے اسی طرح آزاد کشمیر
کی دوسری غیر ریاستی جماعت پیپلز پارٹی کے کارکنان اور میڈیا سیل پراپیگنڈہ
کرتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کے نام پر پاکستان پیپلز پارٹی
بنائی تھی اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے مسئلہ کشمیر کو
الجھانے کے لیے پیپلز پارٹی بنائی تھی یا سلجھانے کے لیے؟ پیپلز پارٹی کے
بننے سے پہلے مسئلہ کشمیر ایک بین الاقوامی ایشو تھا جسے ذوالفقار علی بھٹو
نے شملہ معاہدے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک سرحدی تنازعہ بنا
کر رکھ دیا تو اس سے عوام خود فیصلہ کر لے کہ پیپلز پارٹی جس کی بنیاد
کشمیر کے نام پر رکھی گئی اس نے مسئلہ کشمیر کی بنیاد ہی ختم کرنے کی کوشش
کی یا تحریک آزادی کی کوئی خدمت کی ہے سردار عتیق احمد خان نے کہا کہ گزشتہ
67 سالوں میں چار مواقع ایسے گزرے ہیں کہ کشمیر آزاد ہو سکتا تھا اور ہماری
قومی قیادت نے وہ سنہری موقعے ضائع کر دیئے 1958 ء میں رئیس الاحرار چوہدری
غلام عباس اور مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان نے مسلم کانفرنس کی طرف سے
سیز فائر لائن توڑنے کی کال دی تھی اور بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال
نہرونے آن ریکارڈ یہ کہا تھا کہ میری سیاسی زندگی کا یہ مشکل ترین وقت ہے
جب یہ کال دی گئی ہے لیکن اس موقع پر مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان پر
غداری کا مقدمہ قائم کر کے انہیں راولپنڈی میں اٹھارہ ماہ تک ڈیتھ سیل میں
بند کر دیا گیا۔ 1962-63 میں جب چین اور ہندوستان کی جنگ جاری تھی تب بھی
ہمارے دوست ملک چین نے پاکستان کو یہ پیغام دیا تھا کہ کشمیر آزاد کروا لیں
ہم آپ کے ساتھ ہیں لیکن جنرل ایوب خان اور دیگر پالیسی ساز وقت پرفیصلہ نہ
کرسکے اور کشمیر آزاد کروانے کا سنہری موقع ضائع ہو گیا اسی طرح 1965ء میں
بھی کشمیر آزاد کروایا جا سکتا تھا لیکن میدان جنگ میں ہزاروں شہیدوں کی
قربانیاں دینے کے بعد ڈائیلاگ کے میز پر ہماری قیادت کشمیر کیس ہار گئی اور
اسی طرح 1998 ء میں کارگل کی جنگ کے دوران جنرل پرویز مشرف اور جنرل عزیز
نے مجاہدین کی طرف سے بھارتی فوج کو تگنی کا ناچ نچانے کے بعد کشمیر کی
آزادی کے لیے پلاننگ کی تھی لیکن میاں محمد نواز شریف مصلحت کا شکار ہو گئے
سردار عتیق احمد خان نے کہا کہ کشمیر دو ملکوں کا سرحد ی تنازعہ نہیں ہے
بلکہ دنیا کی تین بڑی قوتوں کے قلب میں آباد ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کشمیری
انسانوں کے پیدائشی حق حق خود ارادیت اور ایک قوم کی آزادی کا مسئلہ ہے
چناب فارمولہ یا اس جیسا کوئی بھی فارمولہ تب تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک
کشمیریوں کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ان کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر
کو حل نہیں کیا جاتا سردار عتیق احمد خان نے کہا کہ اقوام متحدہ کی
قرارداددیں آج بھی عالمی برادری کے ضمیر کی جانب دیکھ رہی ہیں ہم یقین
رکھتے ہیں کہ لاکھوں کشمیری شہداء کا خون رنگ لائے گا اور کشمیر آزاد ہو کر
رہے گا۔
قارئین! ہم ذاتی طور پر سردار عتیق احمد خان کے دل سے معترف اور معتقد ہیں
کہ جتنی خوبصورتی اور دلائل کے ساتھ وہ الفاظ کو موتیوں کی طرح پرو کر ایک
ہار تیار کرتے ہیں یہ فن آزاد کشمیر کے موجودہ کسی بھی لیڈر کے پاس نہیں ہے
اس طرح کی فصاحت وبلاغت ہم نے بانی نظریہ خود مختار کشمیر و بانی جموں
کشمیر محاذ رائے شماری عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ مرحوم ہی میں دیکھی ہے یہ
علیحدہ بات ہے کہ دونوں لیڈرز علیحدہ علیحدہ فکر رکھتے ہیں سردار عتیق احمد
خان کی یہ تمام گفتگو آزاد کشمیر اور پاکستان کی تمام قومی قیادت کو یہ
دعوت دے رہی ہے کہ وہ اس پر غور کریں کہ مسئلہ کشمیر کو ’’ہزار سال تک‘‘ایک
مسئلہ ہی بنائے رکھنا ہے یا اسے حل بھی کرنا ہے اور اسی طرح قومی قیادت کو
یہ بھی سوچنا ہو گا کہ صرف ’’کشمیری النسل ‘‘ ہونے سے کسی شخصیت کو مسئلہ
کشمیر کے حوالے سے اتھارٹی ہونے کا سرٹیفکیٹ نہیں دیا جا سکتا کیونکہ بقول
سردار عتیق احمد خان کشمیریوں کے بڑے قاتلوں میں سے ایک قاتل پنڈت جواہر
لال نہرو بھی کشمیری النسل ہی تھے ۔
آخر میں حسب روایت ایک لطیفہ پیش کرتے چلیں
امریکی عدالت میں جج نے ملزم سے کہا
’’ہمیں بتایا گیا ہے کہ تم نے گزشتہ کئی سالوں سے اپنی بیوی کو ڈرا دھمکا
کر اپنا غلام بنا رکھا ہے‘‘
ملزم نے گھبرا کر ہکلاتے ہوئے کہا
’’مائی لارڈ ! بات یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔‘‘
جج نے ملزم کی بات کاٹ کر کہا
’’بس بس زیادہ صفائی دینے کی ضرورت نہیں ہمیں صرف اتنا بتا دو کہ تم نے
اتنا بڑا کارنامہ کیسے سرانجام دیا‘‘
قارئین! اس وقت کشمیر امریکہ اور بین الاقوامی استعمار کی توجہ کا سب سے
بڑا مرکز بنا ہوا ہے اور کشمیر کے گلگت بلتستان کے علاقے میں اپنا مرکز بنا
کر امریکہ چین کے اندر جھانکنا چاہتا ہے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کشمیری آزادی
کا حق مانگ رہے ہیں بھیک طلب نہیں کر رہے آج کل یا پرسوں انشاء اﷲ کشمیر
آزاد ہو کر رہے گا۔ |