گزرے زمانوں کی بات ہے، کسی بادشاہ نے اپنے تین گورنروں
کوانعامات سے نوازنا چاہا۔ طریقہ یہ اختیار کیا کہ ایک سال کے بعد بادشاہ
خود ہر گورنر کی سلطنت میں جاکر معاینہ کرے گا، جس گورنر کی کارکردگی اتنی
بہتر، عمدہ اور قابل تعریف ہو جسے دیکھ کر بادشاہ خوش ہوجائے تو اس گورنر
کو بھاری بھرکم انعامات سے نوازاجائے گا۔ اس اعلان کے بعد تینوںگورنر انعام
حاصل کرنے کی مختلف تدبیریں کرنے لگے۔ ایک گورنر نے اپنی ریاست میں عمارتوں
کی تعمیرات پر خصوصی توجہ دی،جگہ جگہ بلند و بالا عمارتوں کی تعمیرات شروع
کردیں،تاکہ انہیں دیکھ کر بادشاہ خوش ہوجائے ۔ دوسرے گورنر نے اپنی ریاست
کو خوبصورت بنانے پر خاص توجہ صرف کی اور پورے علاقے کو خوبصورت اور رنگ
برنگے پھولوں سے سجا دیا،تاکہ یہ خوبصورت پھول بادشاہ کے دل کو موہ لیں ۔
تیسرے گورنر نے اپنی تمام تر توجہ کا محور ومرکز اپنے عوام کو بنایا،عوام
کو بہتر کھانے، بہتر لباس اور بہتر زندگی فراہم کرنے کی فکر کو اپنا اوڑھنا
بچھونا بنالیا،اس کے خیال میں رعایا کے خوش ہونے سے بادشاہ سلامت بھی خوش
ہوجائیں گے۔
ایک سال گزر گیا،تینوں گورنر اپنی کارکردگی پر اپنی تئیں مطمئن تھے۔ بادشاہ
سلامت اپنے گورنروں کے علاقوں کا دورہ کرنے نکلے۔ پہلے گورنر کی ریاست میں
ہر طرف بلند و بالا عمارتیں نظر آئیں، لیکن عوام پھٹے پرانے کپڑوں میں
ملبوس تھے، کسی کے چہرے پر خوشی عیاں نہیں، بھوک کی وجہ سے ان کے چہروں کے
رنگ پیلے پڑے ہوئے ہیں۔ دوسرے گورنر کی ریاست میں ہر جانب خوبصورت و رنگ
برنگے پھول کھلے ہوئے ہیں، پوری ریاست خوبصورت باغیچے کا منظر پیش کررہی ہے
لیکن عوام میں سے کسی کا چہرہ کھلا دکھائی نہ دیا۔ چار سو مرجھائے چہرے
ہیں۔بادشاہ سلامت نے جب تیسرے گورنر کے علاقے کا دورہ کیا تو اسے پوری
ریاست میں بڑی بڑی عمارتیں دیکھنے کو ملیں اور نہ ہی رنگ برنگے پھول کھلے
نظر آئے، لیکن ہر طرف عوام کے چہرے کھلے دکھائی دیے۔ بچے، جوان، بوڑھے سب
خوش خرم نظر آئے۔ ہر فرد آسودہ پیٹ اور عمدہ لباس دکھائی دیا۔عوام کے ہنستے
مسکراتے چہروں نے بادشاہ سلامت کو خوش کردیا۔بادشاہ سلامت نے تینوں گورنروں
کوبلا کر کہا کہ چاہے کوئی کتنی ہی بڑی عمارتیں بنالے اور ملک کو خوبصورت
پھولوں سے سجا دے لیکن جب تک عوام خوش نہیں ہوں گے، اس وقت تک سب کچھ بے
فائدہ ہے۔
گزشتہ ماہ سندھ کے ”بادشاہ سلامت“ قائم علی شاہ صاحب فیسٹیول پر کروڑوں
روپے خرچ کرنے میں مشغول رہے، لیکن جناب کی رعایا تھرپارکر میں بھوک کی وجہ
سے ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر جان دیتی رہی، تھرپارکر میں موت کا رقص جاری
رہا۔غذائی قلت کے باعث تھری باشندوں کے ہزاروں مویشی مرچکے اور سینکڑوں بچے
جان کی بازی ہار گئے۔ ہزاروں اب بھی ہسپتالوں میں ایڑھیاں رگڑ رہے ہیں،
لاکھوں جان بچانے کی خاطر تھرپارکر سے نقل مکانی کرچکے ہیں۔اس سب کے باوجود
سندھ کے ”بادشاہ سلامت“کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ روم کے بادشاہ نیرو کے
بارے میں مشہور انگریزی مقولہ ”روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری
بجارہاتھا“ان حالات میں یہ مقولہ کچھ ان پربھی ثابت آتاہے ۔ میڈیا کے
باربار جھنجوڑنے کے بعد باالآخر وہ بیدار ہوئے اور میڈیا کو ہی ڈانٹ پلادی
کہ میڈیا تھرپارکر کے معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہا ہے۔حقیقت تو یہ ہے
کہ اب بھی اگر میڈیا صاحب اقتدار حضرات کی توجہ اس جانب مبذول نہ کراتا تو
خدا جانے اس قحط کے بطن سے کتنا بڑا المیہ جنم لیتا۔قابل تعریف اور قابل
تحسین ہیں وہ میڈیا گروپ جنہوں نے ”بادشاہ سلامت“ کو جھنجوڑ کربیدارکیا۔
طرفہ تماشا یہ کہ موت کا رقص گزشتہ تین ماہ سے جاری ہے، لیکن حکمران بے خبر
رہے۔کیا کوئی یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتا ہے کہ ان مفلوک الحال و قحط زدہ
لوگوں کی دیکھ بھال کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟یقینا یہ ذمہ داری اسی کی ہے،
جو صوبے کا بڑا ہے اور اس صوبے کے وزیراعلیٰ تو قائم علی شاہ صاحب ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو فرمایا تھا :”اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی
بھوک سے مر گیا تو قیامت کے دن عمر سے اس کی بھی باز پرس ہو گی۔“ وہ خود
رات کے وقت بھیس بدل کر غریبوں کی مدد کے لیے نکل کھڑے ہوتے اور خود اپنی
کمر پر سامان لاد کر محتاج لوگوں تک پہنچاتے تھے، لیکن یہاں معاملہ بالکل
الٹ ہے۔ وزیراعلیٰ صاحب سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا جارہا ہے کہ وہ بھی
اپنے کاندھے پر سامان لادکر غریبوں میں تقسیم کریں، بلکہ صرف یہ گزارش ہے
کہ عوام کی خبر گیری رکھنا اور ان کی ضروریات زندگی پوری کرنا تو وزیراعلیٰ
صاحب کی ذمہ داری ہے، بھوک و پیاس سے جان دیتے بچوں کو موت کے منہ سے
نکالنا تو ان ہی کی ذمہ داری ہے،کیا اس سانحے کے جنم لینے سے پہلے ہی حالات
کو کنٹرول کرنا حکومت سندھ کی ذمہ داری نہیں تھی؟ بقول وزیراعلیٰ سندھ صاحب
کے تھر میں اموات صرف بھوک اور قحط سالی سے نہیں ہوئیں، بلکہ بیماریوں کی
وجہ سے بھی ہوئی ہیں،یہ بھی تو حقیقت ہے کہ خوراک کی قلت ہی مختلف بیماریوں
کو جنم دیتی ہے۔ ہسپتالوں کی سہولت مہیا کرنا اور محکمہ صحت کی کوتاہیوں کا
تدارک کرنا بھی تو جناب وزیر اعلیٰ صاحب کی ہی ذمے داری ہے۔ اگر ایسا سانحہ
کسی دوسرے ملک میں پیش آتا تو تصور کیجیے کہ وہاں کس کس سے استعفیٰ لے کر
گھر کو چلتا کردیا جاتا،لیکن یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ہمیشہ ہی اپنے فرائض سے پہلو تہی برتی
ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک تھرپارکر میں چودہ بار قحط اپنے پنجے گاڑ
چکا ہے،ہر بار قحط کے باعث صحرائی علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ بیراجی
علاقوں میں نقل مکانی کرجاتے ہیں، جو رہ جاتے ہیں ان کے گھروں پر بھوک اور
پیاس کے ساتھ موت ڈیرے ڈال دیتی ہے۔ تھریوں کا نصیب تو بارش کے ساتھ بندھا
ہے، ہوگئی تو پانی جمع کرنے کے لیے کنویں کھودتے ہیں ، نہ ہوئی تو قبریں
کھودنا پڑتی ہیں۔یہ سب ان کی مجبوری ہے، کیونکہ وہاں کسی قسم کی سہولت میسر
نہیں ہے۔ ضلع تھر پارکر میں معاشی ذرائع بہت کم ہیں۔ صرف ریت ہی ریت ہے، ہر
طرف مٹی کے ٹیلے ہی ٹیلے نظر آتے ہیں۔ زیرزمین پانی انتہائی نمکین اور وہ
بھی 150 سے 200 فٹ گہرائی میں جاکر ملتا ہے۔ ایسے مسائل سے نمٹنے کی منصوبہ
بندی ریاست کی ترجیحات کا حصہ ہی نہیں ہوتی۔سیاستدان اس پسیماندہ علاقے کو
اپنی سیاست چمکانے اور دوسرے ممالک سے بھاری رقم بٹورنے کے لیے استعمال
کرتے ہیں، دوچار سال کے بعد وہاں قحط کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے،اس کے لیے
کوئی مستقل حل نہیں سوچا جاتا۔ تھر کے مسائل کا حل صرف چند ہفتوں کی امدادی
مہم سے نہیں نکالا جاسکتا،مستقل طور پر تھر کے عوام کے مسائل حل کرنے کی
ضرورت ہے، عوام کو ریلےف دینے کے لیے مستقل طور پر بڑے انتظامی فیصلوں کی
ضرورت ہے۔ حکومت کو معاش کے ذرائع کے حوالے سے ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن
سے تھر کے عوام مستقل طور پر اپنے پاﺅں پر کھڑے ہوجائیں۔ اگرمستقل طور پر
تھر کے عوام کے مسائل حل نہیں کیے جاتے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ حکومت ان
کے مسائل حل ہی نہیں کرنا چاہتی۔
|