پاکستان اور ہندوستان کے سرحدیں دیوار برلن نہیں

بھارتی فلم انڈسٹری کے لیجنڈ اداکار اوم پوری کسی بھی کردار میں اپنے آپ کو ڈھالنے میں جواب نہیں رکھتے۔ اُن کے ہدایت کار اُن کو جو بھی کردار ادا کرنے کو کہتے ہیں یا جومکالمے اُن کو بولنے کو کہا جاتا ہے وہ کبھی بھی اپنے ہدایت کار کو مایوس نہیں کرتے۔ اوم پوری بھارت کی کچھ ایسی فلموں میں کام کرچکے ہیں جو پاکستان مخالف تھیں، جس کےلیے انہوں نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان کے شروع میں کہا کہ اُن کو پاکستان مخالف فلموں میں کام کرنے پر افسوس ہے اورآئندہ وہ کسی پاکستان مخالف فلم میں کام نہیں کرینگے بلکہ انہوں نے بھارتی حکومت سے اپیل بھی کی کہ وہ پاکستان مخالف فلموں پر پابندی لگا دئے ۔ سب سے پہلے تو بھارت کے اس لیجنڈ اداکار کا شکریہ کہ وہ پاکستان آئے اور یہاں آکر انہوں نے اپنے اس گناہ کا اعتراف کیا کہ وہ کچھ ایسی بھارتی فلموں میں کام کرنے پر افسوس کرتے ہیں جوپاکستان مخالف تھیں۔ اتوار 16 مارچ کوبھارتی اداکار اوم پوری نے لاہور پریس کلب میں میٹ دی پریس میں بات چیت کرتے ہوئے بھارتی حکومت کے اکھنڈ بھارت کے کسی ہدایت کار کی وہ لاینیں دہرائی جو شاید اُن کو پاکستان روانگی سے قبل بتائی گیں تھیں ، بھارتی اداکار نےکہا کہ "برلن اپنی دیواریں گرا سکتا ہے، یورپ ایک ہو چکا تو پاکستان اور ہم ایک کیوں نہیں ہو سکتے؟، کچھ لوگ نفرتیں پھیلارہے ہیں اور ان کی تعداد اقلیت میں ہے اس کو کنٹرول کرنا کسی ایک شخص کے بس کی بات نہیں بلکہ حکمرانوں کا کام ہے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ ایسے عناصر کو کنٹرول کریں"۔ بھارتی اداکاراوم پوری کا یہ بیان کسی اداکار کا بیان تو ہرگز نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ ایک مخصوص ذہنیت کے حامل سیاست داں کا بیان ہی کہلائے گا۔

دوسری عالمی جنگ میں جرمنی کے شکست کے بعد برلن کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ مشرقی حصہ سوویت فوج کے زیراثر رہا، جبکہ مغربی حصہ امریکی فوج کے زیر کنڑول تھا لیکن مشرقی و مغربی برلن کی سرحدپر تناؤ کی صورتحال تھی اورامریکی اور سوویت افواج تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑہیں تھیں۔ 1961ء میں مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت نے ’’دیوار برلن‘‘ تعمیرکی جس نے آئیڈیلوجی کے ساتھ ساتھ خاندانوں، دوستوں اور ہمسایوں کو بھی جدا کر دیا۔ دیوار برلن ایک رکاوٹی دیوار تھی، یہ مشرقی و مغربی جرمنی کے درمیان حد بندی بھی مقرر کرتی تھی۔دیوار برلن کی تعمیر سے قبل 35 لاکھ مشرقی جرمن باشندے مغربی جرمنی ہجرت کر گئے، جن کی بڑی اکثریت نے مشرقی سے مغربی برلن کی راہ اختیار کی۔ 1961ء سے 1989ء تک اپنے وجود کے دوران دیوار برلن نے اس طرح کی ہجرتوں کو روکے رکھا اور 28 سال تک مشرقی جرمنی کو مغربی جرمنی سے جدا کیے رکھا۔ 9 نومبر1989ء کا دن جرمنی کی تاریخ میں ایک یادگار دن ہے۔اس دن سرد جنگ کی یادگار دیواربرلن کو گرا دیا گیا۔ مشرقی برلن کے باشندوں کے احتجاجی مظاہروں اور بین الاقوامی دباؤ کے باعث مشرقی جرمنی کی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑےاور اس طرح جرمنی کے لاکھوں باشندوں کا خواب تکمیل کوپہنچا۔ اس رات دیوار برلن کے تمام دروازے کھول دئیے گئے۔اس موقع پر بےشمار جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔ ہزاروں لوگ اپنے عزیزوں اور پیاروں سے ملے اور ہر آنکھ اشکبار تھی۔

ہندوستان میں مسلمان اپنی آزادی کی جنگ 1857ء سے لڑرہے تھے ۔ 90 سال کی جدوجہد کے بعد ایک جمہوری طریقے سے 14 اگست 1947ء کو مسلمانوں کو پاکستان کی شکل میں ایک ملک نصیب ہوا۔ جس کے بنانے کی وجہ دو قومی نظریہ تھا۔ دو قومی نظریہ صاف صاف کہتا ہے کہ ہندوستان میں اکثریت میں ہندواور مسلمان دو علیدہ علیدہ قومیں ہیں اور جن کا کسی بھی جگہ اشتراک نہیں۔ نہ ہی مذہبی طور پر، نہ ہی ثقافتی یاسماجی طور پر۔ اسکے علاوہ انگریزوں اور ہندوں نے مشترکہ سازشوں کے زریعے مسلمانوں کو معاشی اور تعلیمی میدان میں بہت پیچھے کردیا تھا۔ یہ ہی وہ بنیادی نکات تھے جس کی بنیاد پر پاکستان کا وجود عمل میں آیا۔یعنی وجہ پاکستان یہ تھیں کہ مسلمان اپنے مذہب کے مطابق اپنی زندگی گذاریں اور معاشی اور تعلیمی میدان میں آگے بڑھیں۔ مسلم ثقافت کے ساتھ اپنے سماج کو انصاف کی بنیادپر چلایں۔ چودہ اگست 1947ء کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جو سرحدیں قائم ہویں اُن کو بھارتی اداکار دیواربرلن سےمشہابت دے رہے تھے، یا تو وہ تاریخ سے نابلد ہیں یا پھروہ پاکستان آکر اپنے اُس ہدایت کار کی ہدایت پر عمل کررہے ہیں جس کی اُنکو ہدایت ملی تھی۔پاکستان اور ہندوستان کی سرحدوں کو دیوار برلن سے مشہابت دینا ناقابل سمجھ ہے کیونکہ دیوار برلن ایک ہی قوم اور ایک ہی مذہب کے لوگوں کی تقسیم تھی اور یہ دیواربرلن کے رہنے والوں کی مرضی کے خلاف بنائی گی تھی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ 1989ء میں جب اس دیوار پر پہلا ہھتوڑا مارا گیا تو بہت جلدیہ اپنا وجود کھوبیٹھی۔ پاکستان جو جمہوری طریقے سے عمل میں آیا اُس میں ہندوستان کے عام لوگوں کی مرضی شامل تھی اور خاصکر ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی مرضی شامل تھی ۔ یہ بات لازمی بھارتی اداکار اوم پوری کو معلوم ہوگی کہ ہندوستان نے تو کبھی پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کیا اور ہندوانتہا پرست اکھنڈبھارت کا ہمیشہ نعرہ لگاتے رہے ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ اپریل سے ہونے والے ہندوستان کے انتخابات میں وہاں کے لیڈروں کی تقریریں عام طور پر پاکستان مخالف ہوتی ہیں۔

دنیا بھرمیں کہیں بھی دیوار برلن کو پسند نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی دوسرئے ملک نے کبھی بھی انسانوں کو تقسیم کرنے کا نفرت انگیز کام کیا مگر ہندوستان وہ واحد ملک ہے جو دھوکے سے قابض مقبوضہ کشمیر میں دیوار برلن کی طرز پر دیوار برلن سے بڑی 198 کلو میٹر طویل اور135 فٹ چوڑی دیوار کی تعمیر کے منصوبے پر کام کررہا ہے۔ بھارتی اخبار "دی اکنامک ٹائمز" کے مطابق جموں کو پاکستان سے الگ کرنے والی دیوار، دیوار برلن اور فلسطین کے علاقے مغربی کنارے میں اسرائیل کی تعمیرکردہ دیوار سے زیادہ بلند ہوگی اور اس کی اونچائی دس میٹر ہوگی۔ پاکستان سے ملنے والی جموں و کشمیرکی سرحد پر پہلے ہی بارہ فٹ کی دہری متوازی خار دار تاروں سے بنی دیوار موجود ہے لیکن بھارت نہ صرف پاکستانی علاقے پر قابض ہے بلکہ اب وہ جو دیوار قائم کررہا ہے وہ کھلا ہوا ظلم ہے ، یہ دیوار جموں، کٹھوا اور سامبا کے 118 دیہات کے درمیان سے گزریگی، بارڈر سکیورٹی فورسز کے زیراہتمام تعمیر ہونےوالی اس دیوار کا فنڈ بھارتی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری ہوگا۔ بھارتی اداکاراوم پوری کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان اور ہندوستان کی سرحدیں تو ہر گزدیوار برلن نہیں لیکن ہندوستان وادی کشمیر میں دیوار برلن کی طرز پر جو دیوار تعمیر کرنا چاہ رہا ہے اُس سے نفرتوں میں ضرور اضافہ ہوگا۔ بھارتی اداکار کا یہ بیان سفارتی آداب کے بھی خلاف ہے جس کا پاکستانی وزارت خارجہ کو لازمی نوٹس لینا چاہیے ۔

Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 485666 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More